یہ 29 فروری 2008ء کی صبح تھی ۔ لیپ ایئر! ہر چار سال بعد یہ تاریخ آ تی ہے ۔کتنی قباحت اورنقص موجود ہے شمسی کیلنڈر میں مگر کاروبار زندگی اسی کے تحت چلایا جارہاہے!دنیا کو چھوڑیں اپنی بات کر تے ہیں ۔۔۔ اسکول اسمبلی اور سائنس کی کلاسز میں اس حوالے سے بریفنگ کروائی جارہی تھی۔اسی دوران مجھے پروگرام کی یاددہانی کا SMS موصول ہوا۔جمعے کو تو کوئی پروگرام نہیں رکھا جا تا پھر؟جی ہاں آج خصوصی پروگرام تھا! جماعت اسلامی حلقہ خواتین میں نئی شامل ہونے والی اراکین کی حلف بر داری کی تقریب تھی۔میرے لئے یوں اہم تھا کہ میرانام بھی اس میں شامل تھا۔بہت سے گھرانوں میں تو بچوں کا اس سوال میں کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ جواب ہو تا ہے ’’ رکن بنوں گا‘‘۔ظاہر ہے کہ بات اہمیت کی ہوتی ہے جو گھر کے بڑے بچوں کے دل میں ڈالتے ہیں !
میں توبرسوں سے اپنے آ پ کو جماعت کا کہہ رہی تھی مگر ظاہر ہے باقاعدہ تو نہ تھی نا! اصول و قواعد بھی تو کوئی چیز ہے!اب میرا شمار بھی رکن جماعت میں ہو گا!!یہ وہ فخر ہے جس کے ساتھ ذمہ داری خود بخود جڑی ہوئی ہو تی ہے! آپ اس جماعت کو پسند کرتے ہیں! ایک عر صہ اسی کیفیت میں گزرتا ہے!اس دوران آپ ایک زبر دست تر بیتی نظام سے گزرتے ہیں ۔ یوں سمجھیںقطرہ سے گوہرتک کا سفر ہو تا ہے ! اس سفر میں بہت سے کٹھن مر حلے بھی آ تے ہیں جب آپ مایوس ہو نے لگتے ہیں ۔آپ کاماحول ایک دم دشمنی پر تل جاتا ہے خواہ اس سے پہلے آپ سب کو کتنے ہی محبوب دلپسند ہی کیوں نہ ہوں !مگر یہ تو سنت نبویﷺ ہے جب صادق اور امین کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں!
ہاں تو بات اس تقریب کی تھی !ضلعی دفتر کے basementمیں دریاں بچھی تھیں جن پرتمام خواتین دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں ۔ضلعی ناظمہ اپنی ٹیم کے ساتھ تھیں پروگرام کا آغاز ہواتوآہوں اور سسکیوں کی فضا خاموشی کے پردے توڑ رہی تھی!ہم سب کے ہاتھوں میں دستور جماعت اسلامی تھا اور آ نکھوں میں آ نسو!۔ذمہ داران تسلیاں اور دلاسے دے کر ہمت بندھا رہے تھے۔اس موقع پر ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے ۔ایک صاحبہ جو اپنی بہو کی کو ششوں کی وجہ سے اس درجے پر فائز ہوئیں تو پوتیوں نے حلف کا طریقہ سمجھایا تو بڑی پریشان ہوئیں کہ اگر مجھے رونا نہ آ یا تو؟ بچوں نے اسے اہم جز سمجھتے ہوئے کہا کہ نہیں آپ کورونے کی پریکٹس کرنی چاہیئے! پتہ نہیں کیا رہاہوگا ؟ یقین ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پڑی ہوگی کیونکہ وہ موقع ہی ایسا ہوتا ہے کہ خود بخود آنسو چھلک پڑ تے ہیں! اسلام میں جشن اور ماتم کی کوئی تاریخ نہیں ملتی ! ہاں شکر اور صبر کے مختلف فلیور ضرور ملتے ہیں ! تو ہم سب بھی کسی ایسی ہی کیفیات سے گزر رہے تھے۔ رکن جماعت کا کیا مطلب ہے؟ ذمہ داری کا بھاری بوجھ! عہد تو ہم بہت پہلے ہی اٹھا چکے ہیں یہ تو بس تجدید عہد تھا!یہ تقریب اس کا اظہار تھی۔
حلف اٹھانے کے بعد بظاہر سب کچھ جوں کا توں تھا مگر ہم اپنے کچھ توانا اور کبھی کبھار ناتواں جذ بات کے ساتھ ذمہ دارمحسوس کر رہے تھے۔ کچھ ہی دنوں بعدقیمہّ پاکستان (حلقہ خواتین،جماعت اسلامی کی مرکزی رہنما) ڈاکٹر کوثرفردوس کا اپنائیت بھراخط موصول ہوا جس میں قافلہ حق میں شمولیت پر مبارکباد کے ساتھ ہم سے اپنا مکمل تعارف مانگا گیا تھا۔(یہ تحریک اسلامی کی ایک خوبصورت روایت ہے جس کے تحت ناظمہ اور کار کن کے درمیان محض سطحی اوررسمی تعلقات نہیں ہو تے بلکہ ان میں ذاتی گرم جوشی کا تڑ کا بھی لگا یا جاتا ہے۔ آج یہ بات management کے اہم ترین نکات میں شامل ہے کہ اپنائیت کا اظہار کام کو خوش اسلوبی سے کرنے کی اولین شرط ہے!)۔اس کے جواب میں ہم نے بھی اپنا پورا کچا چٹھا لکھ بھیجا ۔ کیا کیا کر چکے ہیں ۔کیا کر رہے ہیں اور کیا عزائم ہیں ۔
مزید کچھ دنوں بعدبذریعہ ڈاک ایک بیلٹ پیپر موصول ہوا جس میں درج تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب کر نا تھا۔جی ہاں ! ہمیں امیر جماعت کو منتخب کر نا تھا۔ ہے نا اعزاز کی بات؟ کنوینسنگ کی اجازت ہے نہ سہولت ،لہذا خود ہی قیادت کے معیار تقوٰی کے مد نظر دھڑکتے دل کے ساتھ نام لکھ کر بھیج دیا۔ کچھ عر صے بعد اس کا رزلٹ بھی انائونس ہو گیا۔ ہماری رائے جس کے حق میں تھی وہ امیر جماعت بن گیا ہے اس بات کی خوشی سے زیادہ یہ بات ہمارے فخر کا لیول بڑ ھا رہی تھی کہ اس فیصلے میں ہماری رائے بھی شامل ہے ! اور کیوںنہ ہو بھلا ہم باقاعدہ رکن جماعت ہیں!جماعت کا back boneہو تا ہے رکن جماعت جس پر تنظیم کھڑی ہو تی ہے۔
اس کے کچھ عرصے بعد ہی قیمہ پاکستان کے انتخاب کا مرحلہ تھا۔وہ بھی ہماری رائے کی شمولیت سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس کے بعد تو بیلٹ پیپرزکی لائن لگ گئی۔کیونکہ مرکزی سطح کے بعدصوبائی، شہری ،ضلعی ،اور زونل سطح کے انتخابات منعقد ہو تے ہیں ۔ جس کے لیے بیلٹ گھر گھر پہنچائے جاتے ہیں ۔(ہمارے نام آ نے والی ڈاک میں ایک دم اضافہ ہو گیا تھا۔اس کے علاوہ مختلف ذمہ داران بھی اکثر ہم سے ملاقات کو آتے رہے ۔گویا روابط ایک دم shootکر گئے۔ یہ اس statusکی مہر بانی تھی جس کی وجہ سے ہم ایک دم معزز و محترم ہو گئے تھے!اﷲکرے کہ اس ذمہ دار حیثیت کی لاج رکھ سکیں۔)اب کچھ آ ئینی عہدوں کی مدت میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے باعث ان کے انتخابات مناسب وقت پر ہوتے ہیں ۔یہ تبدیلی فرد واحد نہیں کر سکتابلکہ جماعت میں شورائی نظام ہے جہاں ہر چیز شورٰی کے فیصلوں کے مطابق ہوتی ہے۔ نہ آمریت ہے نہ بد ترین جمہو ریت کی کوئی شکل!کوئی بھی مطلق العنان نہیں !احتساب کا اتنا زبر دست اندرونی نظا م ہے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔اسی لئے بد نام زمانہ لسٹوں ( نا اہل ،کرپٹ ، جعلی ڈگری ، ٹیکس چوری،غبن وغیرہ وغیرہ میں سے کسی میں بھی الحمدﷲکسی کا نام نہیں!)۔
ہر چیز شیڈول کے مطابق ! نئے امیر جماعت نے مرکزی تر بیت گاہ منعقدہ حلف اٹھایاجبکہ سابقہ ہونے والے امیر نے جو رقت ّ آمیز جملے کہے وہ ان کی موت کے بعد خاصے زبان زد عام ہوئے،’’۔۔۔۔۔۔میرے عزیزو! جنت میں ملیں گے ان شاء اﷲ!۔۔۔۔۔‘‘ شایدکسی عام فرد کے لئے یہ الفاظ اقتدار چھوڑتے وقت کے جذبات ہوں مگر فلسفہ احتساب و ذمہ داری سمجھنے والے بخوبی ان الفاظ کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ! عمرؓ جیسا مضبوط انسان اسی احساس کی وجہ سے روپڑتا ہے اور یہ ہی وہ جذبہ ہو تاہے جو حلف اٹھاتے وقت آنسو سے لرز جاتا ہے انسان!جبکہ ایک دنیاداراپنی کھلتی باچھیں نہیں چھپا پاتا کسی عہدہ کو پانے کے لئے۔۔۔۔
اسی اجتماع گاہ میں نئی قیمہّ ڈاکٹر رخسانہ جبین حلف اٹھاتی ہیں۔۔۔۔ایک اور قابل فخر بات کسی اور جماعت میں تعلیمیافتہ افراد خصوصا خواتین کا تناسب دیکھیں ! ۔۔۔۔۔جب بی اے کی ڈگری کی شرط لگی تو بہت بڑے بڑے نام الیکٹورل سسٹم سے باہر ہو گئے۔اور جعلی ڈگری جیسا قبیح فعل ایک دوڑ کی صورت میں تمام پارٹیوں میں نظر آیا جبکہ جماعت اسلامی یہاں بھی دامن بچا کر نکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ڈاکٹر کے بعد دوسری بھی میڈیکل کی فیلڈ سے دابستہ ! اتنی ذمہ داریاں کس طرح نبھاتی ہیں ؟اس سوال کا جواب ان لوگوں کے لئے مشکل نہیں جو ترجیحات کا تعین اور مقاصد کا شعور رکھتے ہیں ۔۔۔وقت تو الاسٹک کی طرح ہو تا ہے!جتناچاہیں اس سے فائدہ اٹھا لیں!۔۔۔۔اس موقع پر مجھے بتانا پڑے گاکہ میری والدہ کے انتقال پر جس طرح سے تعزیتی سلسلہ چلا اس نے میرے دکھ کو دعائوں کے تحفے میں بدل دیا اور باوجود اس کے کہ میری والدہ کے اور بہت سے حوالے تھے مگر اخبار میں خبر میرے تعلق سے شائع ہوئی۔ہے نا فخر اور اعزاز کی بات ! پھر جب ڈاکٹر رخسانہ کراچی تشریف لائیں تو انتہائی مصروف شیڈول کے باوجود میرے گھر تعزیت کے لئے تشریف لائیں ! بات تو اہمیت کی ہے ! اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف معاشرتی تقاضے ایک رسمی انداز میں پورے کئے جاتے ہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ابھی چند ماہ پرانی بات ہے شورٰی کے اجلاس پر میری طرف سے ایک تجویز دی گئی جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر الیکشن کے انتہائی اہم موقع کے باوجود نہ صرف ایجنڈے میں شامل کیا گیابلکہ مشاورت کے بعد قبول بھی کر لیا ۔ہے کسی اور جماعت میں یہ روشن روشن رواج؟
عزیز قارئین !
یادوں اور خیالات کاایک سلسلہ ہو تا ہے جس میں بریک نہیں ہوتا بلکہ لگانا پڑ تا ہے ۔جیسے اس بلاگ کو مکمل کر نے کے لئے کچھ مختصر کر نا پڑیگا اب تک کے مندرجات سے جماعت اسلامی کے کچھ نہ کچھ خد و خال واضح ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ صرف ایک جھلک ہے ورنہ جماعت اسلامی تو ہیروں کی وہ کان ہے جس میں داخل ہو نے والا مالا مال ہی ہوتا ہے ۔نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ، آزما کر دیکھیں ! تو مشورہ ہے کہ دریا کنارے کھڑے ہو کر نظارے کر نے یا پھر چلوسے تشنگی بجھانے کے بجائے اس میں داخل ہو کر سیراب ہوں اور چکھ کر دیکھیں کتنا میٹھا ٹھنڈا ہے اس کا مزہ!!!
اس بلاگ کو لکھنے میں اتنے وقفے آئے کہ بہت سی باتیں سلپ ہو گئیں ان میں سے کچھ !!!.رکن جماعت ایک پورا ادارہ ہو تاہے .ہمہ تن مستعد و چوکس رہتا ہے.اس پر بہت سی بات ہوسکتی ہے مگر چند باتین گوش گزار کر نا چاہتی ہوں .جس کام کو کرنے کے لئے دہیگر جماتوں کو بہت بڑی ٹیم کو ملازم رکھنا پڑتا ہے وہ کام تنہا ایک یا دو خواتین سر انجام دے رہی ہوتی ہیں .مثلا اعانتیں جمع کرکے گوشوارے بنانا.اپنے پرس میں شاید سکہ بھی نہ ہو مگر لاکھوں روپیے لوگوں سے جمع کر کے بیت المال میں رکھوانا! کہا جاسکتا ہے کہ اب بہت آسانیاں ،سہولیات مل گئی ہیں مگر کام اور ذمہ داریوں میں بھی تو اضافہ ہو گیا ہے ! موبائیل کو راہ خدا میں استعمال کر کر کے انگلیاں گھسائی جارہی ہیں مگر دعوت کا کوئی محاذ چھوڑنا نہیں ہے! یہ ہے اپروچ!یہ ہے اخلاص!