عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
ایسی مہنگائی کہ ٹوٹتی ہے کمر
کھاگئے بیچ کر گیس و بجلی کے گھر
چور اُچکّوں کو مت اپنا حاکم چُنو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
بزدلوں کا سہارا نہ بننا کبھی
تم وطن کا خسارا نہ بننا کبھی
اب غلامی کی زنجیر کو توڑ دو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
ہر طرف بے حیائی کا طوفان ہے
کیا یہی دین ہے؟ کیا یہ ایمان ہے؟
خوابِ غفلت سے سب کو جگاتے چلو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
ہاتھ میں ہے تمہارے تمہارا نصیب
آگئی ہے تمہاری بھی منزل قریب
ظلم و دہشت کے ہر بُت کو ڈھاتے بڑھو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
تم جو چاہو تو سب کچھ بدل جائے گا
رات چھٹ جائے گی دن نکل آئے گا
بس ذرا صفدؔر ہمّت سے تم کام لو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
ہاتھ میں تھام کر اب ترازو چلو
عدل و انصاف کے دست و بازو بنو
شاعر: صفدر علی صفدؔر
فیس بک تبصرے