پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

الیکشن کی گہماگہمی، الیکشن کمیشن کی تجاویز وا احکامات، نگران حکومت کے منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے روز و شب کے عوے… صوبائی حکومتیں بھی مُصر ہیں کہ الیکشن وقت پر کرائیں گی اور ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہ ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بساط بھر الیکشن کمیشن کو تجاویز بھی بھیج رہی ہیں، اور کچھ نے دو قدم آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کی زنجیر عدل ہلا دی ہے!!

 

بڑے بڑے جلسوں سے ہر ایک اپنی عددی برتری ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس الیکشن میں توجہ کا مرکز ہیں نوجوانوں کے ووٹ۔ اور ہر سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ یوتھ کی قوت ان کے ساتھ ہے۔ اور بادی النظر میں محسوس بھی یہی ہورہا ہے کہ مستقبل کے پاکستان کا فیصلہ یہ نوجوان نسل ہی کرے گی۔ لیکن وقت کا اہم ترین سوال ہے ووٹر کی قوتِ فیصلہ؟! ’’ایک نئے پاکستان کی تعمیر‘‘ کا خواب دیکھنے والی یہ نئی نسل کیا صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے؟ اس صلاحیت کو پیدا کرنے میں خود سماج، سیاستدان اور میڈیا کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ اور ووٹروں کو جس تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے سماج میں کوئی ادارہ ایسا بھی ہے جو اس ضرورت کو پورا کررہا ہو؟ یا ہر ایک اس نوجوان نسل کو یہ باور کرا رہا ہے کہ
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی!

 

سیاستدان خوش کن وعدوں کے جال بچھا رہے ہیں، ملائکہ جیسی پاکیزگی کی قسمیں کھا رہے ہیں، دوسروں پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ گھنٹوں ٹاک شوز دیکھتے رہیے، ہر ایک غلاظت کے بھرے ڈول دوسرے پر انڈیل رہا ہے۔ اینکر پرسن سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو مطعون کررہے ہیں، اور ثابت یہ کررہے ہیں کہ دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترنے والے وہ صالحین موجود ہی نہیں لہٰذا فی الحال یہ اقتدار شیطان کے ہاتھوں ہی گروی رہنے دیا جائے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے جھانسے میں آنے والی قوم کون کہہ سکتا ہے کہ اب کسی دھوکے کی متحمل نہیں ہوسکتی؟ یہ جعلی ڈگریوں والے نیب زدہ حکمران آخر اسی قوم کے ووٹوں کا شاخسانہ تھے۔

 

اب سوال یہ ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو کچھ ایسے ہی دل شکن حالات ہوں گے جب حالیؔ، اقبالؔ اور قائداعظم نے قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکالا تھا، قوم کی ڈھارس بندھائی تھی اور قوم کی صحیح رہنمائی کی تھی۔ اس وقت ووٹرز کو صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ قوم کی تقدیر کا سوال ہے۔ اور کیا گیس، بجلی، پانی اور موٹروے کے وعدوں پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہے یا اس سے بڑھ کر نظریۂ پاکستان کا تشخص اور بقا ہماری حیاتِ ملّی کا سب سے اہم سوال ہے؟ کیونکہ جنہیں اقتدار ملا وہ نفاذِ شریعت کے بجائے ’’انسدادِ شریعت‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہے اور ملک کا اسلامی دستور موجود ہونے کے باوجود ملک کو سیکولرازم کے اصولوں پر چلایا جاتا رہا!

 

اس وقت بھی بگاڑ کی اصلاح کا وہی طریقہ کارگر ہے جس کے ذریعے اوّلاً اس امت کی اصلاح ہوئی تھی۔ اصلاحِ حکومت کے لیے ووٹر کی تربیت اور اصلاح معاشرہ… دونوں پر حکمت اور دانش مندی اور اعتدال اور توازن کے ساتھ مسلسل جدوجہد اور ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت ہے۔ 1974ء میں مولانا مودودیؒ نے اس ضمن میں راولپنڈی میں شریعت کانفرنس میں رہنمائی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس حالت میں منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا۔ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں یہ نظام یہاں نافذ کرنا ہے تو پھر کوئی دھن، دھونس، دھاندلی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کو جان مارکر ایک مدت تک یہ کام کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے جس میں لوگ ازخود ہٹ جاتے ہیں کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا۔ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔ لیکن اگر قوم اپنے آپ کو فساق اور فجار کے لیے تیار کرے اور چاہے کہ فساق اور فجار ہی ان کے معاملات چلانے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح اور متقی نہیں دیں گے۔

 

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا کوئی امکان ہے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ اگر انسان سوچ سمجھ کر عقل مندی کے ساتھ پیہم اور مسلسل سعی کرے تو بڑے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے، اور دوسرا جواب یہ ہے کہ مومن کا تو کام یہ ہے کہ اگر شریعت نافذ ہونے کا ایک فیصد امکان بھی نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار امکان بھی نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدرِ مملکت بن جانا بھی کھلی نا کامی ہے۔‘‘ (تفہیمات، جلد 5، صفحہ 17۔18)

 

یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ وہ بگڑا ہوا معاشرہ جو استحصالی طبقے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور لادین سیاست اور استحصالی نظام کی جڑیں مضبوط ہیں تو دینی جماعتیں اس اکھاڑے میں کیوں اتریں؟ کیونکہ دیندار جماعتوں کی ناکامی سے دیندار طبقہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے؟ مولانا نے 1951ء میں اجتماعِ ارکان میں اس ضمن میں رہنمائی فرماتے ہوئے کہا:

’’ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیر صالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن، دھونس، دھوکے اور دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے، یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں۔ انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل، اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے درمیان صالح اور غیر صالح کی تمیز کیسے پیدا ہوگی؟ رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریں گے، دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی‘‘۔ (تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)

 

اکیسویں صدی میں عرب بہار کی دستک اب اس خطۂ پاک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ بس وقت ہے کہ ایک نئی تہذیب کا جو سورج اس خطہ میں طلوع ہونے کو ہے اس عظیم الشان موقع پر کون اپنی قوتیں، مال اور اوقات اس راہ میں لگانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس خواب کی تکمیل میں صرف ہماری نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کی اور انسانیت کی فلاح ہے۔ وقت ہے تو اس صدائے جرس کو سننے کا کہ
’’از خوابِ گراں خیز!!‘‘

فیس بک تبصرے

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“ ایک تبصرہ

  1. واقعی بہت سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ووٹرز کو راغب کریں کہ وہ اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں اور اہل اور دیانت دار قیادت کو + گے لائیں

Leave a Reply