بھائی اس پارٹی کا منشور تو بہت اچھا ہے اس میں شامل لوگ بھی بڑے اچھے پڑھے لکھے اور ایمان دار ہیں لیکن ہمارے حلقےسے یہ نہیں جیت سکتے۔ کیوں کہ ان کے مقابلےمیں جو امید وار ہے وہ ہے تو کرپٹ لیکن اس کی برادری بھی بڑی ہے اور وہ ووٹ خرید بھی لیتا ہے اس لئے میرے ووٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر میں فلاں ایمان دار امیدوار کوووٹ دوں گا بھی تو ووٹ ضائع ہی ہوگا”۔
آج کل اکثر اس طرح کی باتیں سننی پڑ تی ہیں۔ میری اس طرح کی سوچ رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ مظلوم کاخوفزدہ ہونا ہی ظالم کی اصل طاقت ہوتا ہے وہ خوف چاہے ووٹ ضائع ہونے کا ہی کیوں نہ ہو۔ کل کو یہ بڑی برادری والے صاحب اگر آپ کے ووٹ کی وجہ سے پھر سےپانچ سال کے لیے اقتدار میں آگئے اور پھر آپ اسی طرح جاری رہنے والے ظالمانہ اور کرپٹ نظام پر لعن طعن کریں گے تو حقیقت میں آپ اپنے آپ پر ہی لعن طعن کریں گے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں متناسب نمائندگی کا قانون موجود نہیں ہے۔ اور جن ملکوں میں متناسب نمائندگی کا قانون نہیں ہوتا تو ان میں اقتدار کی پجاری سیاسی جماعتیں یوں ہی ایلیکٹبلزکے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہیں۔ ایلیکٹبلزکوعرف عام میں جیتنے والے گھوڑے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سیاست ایک سرمایا کاری کے طور پر کرتے ہیں اور جیتنے کہ بعد اپنے سرمائے کی ہزاروں گنا اضافے ک ساتھ واپسی کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ پلوں میں ناقص مٹیریل استعمال ہونے سے عوام کی جان بھی جاسکتی ہے۔ یہ تو اگر وزارت کے طالب ہوں اور کوئی وزارت خالی نہ بھی ہو تو بھی یہ اپنے لیے نئی وزارت بنوا لیتے ہیں چاہے ملکی خزانے کا کباڑا ہی ہو جاۓ۔ یہ ان ہی اقتدار کے پجاریوں کا کمال ہے جنھوں نے انصاف کو ظلم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسا نظام جس میں شریف آدمی شریف نہیں رہ سکتا۔ جس میں بےایمانی ہی عقلمندی سمجھی جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ اپنے اس خوف سے چھٹکارا حاصل کر لیں تو یہ ایلیکٹبلز پھرایلیکٹبلز نہیں رہیں گے۔ میرےبھائی اس دفعہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ ضائع ہونے ک خوف میں مبتلا ہو کر آپ بھی ان کے ہاتھوں یرغمال بنیں گے یا اپنے خوف اور اس کے ساتھ ساتھ اس بدبودار ظالمانہ نظام کوبھی جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
فیس بک تبصرے