شہر میں ہونے والے پے در پے دھماکوں میں بے گناہوں کی ہلاکت ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایک طرف انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں دوسری جانب کسی طرف سے بھی کوئی انتخابی سرگرمی نظر نہیں آرہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان دھماکوں میں بے گناہ اپنی جان سے جا رہے ہیں۔ چاہے وہ مہاجر ہوں، یا پٹھان ہوں یا کوئی اور اصل بات یہ ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ اس طرح بے گناہوں کو مارا جائے اور شہریوں کو خوفزدہ کیا جائے۔ ایم کیوا یم اور اے این پی سے ہمیں لاکھ اختلاف سہی لیکن اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دہشت گردی کو ختم ہونا چاہئے چاہے وہ تحریک طالبان کرے، یا کوئی سیاسی جماعت کرے، مرنے والوں کا سیاسی نظریہ چاہے کوئی بھی ہو در حقیقت وہ عام انسان ، متوسط بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ نچلے متوسطLOWER MIDDLE CLASS طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہ بھی کسی بہن کے پیارے، ماں کے لعل اور باپ کے بڑھاپے کی لاٹھی تھے جن کو یوں بیدردی سے قتل کردیا گیا۔
غور کریں اور سوچیں کہ اپنی جان سے گذرنے والے یہ کون لوگ تھے؟؟ یہ دراصل میں اور آپ ہیں! میں اور آپ ہی ان دہشت گردوں کا آسان ہدف ہیں۔ کیونکہ ہم روز کنواں کھودتے اور روز پانی بھرتے ہیں۔ روز ہم رزق کی تلاش میں گھر سے نکلتے ہیں ادھر میں اور آپ سہمے سہمے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کب کوئی بم دھماکہ ہوجائے؟ معلوم نہیں کس گولی پر میرا نام لکھا ہے؟ کسی جگہ جانے سے پہلے سوچتے ہیں کہ یہ جگہ جو کہ میرے ہی شہر میں واقع ہے کیا اب وہاں جانا مناسب ہوگا یا نہیں؟ ایسا تو نہیں کہ ادھر میں اپنے روزگار یا کسی ضروری کام سے کسی ’’علاقہ غیر‘‘ میں پہنچ جاؤں اور پھر وہاں یہ صورتحال ہو کہ امن کمیٹی کے لوگ مجھے ایم کیوا یم کا مخبر سمجھ کر اغواء کرلیں، اگر ایم کیو ایم کا علاقہ ہو تو وہ مجھے اے این پی یا امن کمیٹی کا سمجھ کر نہ اٹھا لیں۔ ایک بلوچ اور پٹھان اب اردو بولنے والوں کے علاقے میں جانے سے کتراتا ہے اور اردو بولنے والا بلوچوں اور پٹھانوں کے علاقوں میں جانے سے ڈرتا ہے؟؟ کچھ پتہ نہیں کہ کب کونسا علاقہ فسادات کی لپیٹ میں آجائے اور جان بچانا مشکل ہوجائے۔
دوسری جانب میرے اور آپ کے گھر والوں کا یہ حال ہے کہ ادھر ٹی وی پر کسی دھماکے یا واردات کی خبر چلتی ہے ادھر ان کے جسم سے جان نکل جاتی ہے کہ متاثرین میں میرا بیٹا، میرا بھائی شامل نہ ہو۔ موبائل پر فون کرکے خیریت دریافت کی جاتی ہے۔ اگر گھر جانے میں معمول سے کچھ تاخیر ہوجائے تو گھر والوں کے دلوں میں کئی وسوسے پلنے لگتے ہیں اور پھر جب تک فون کرکے میری اور آپ کی خیریت نہ دریافت کی جائے اس وقت تک ان کی جان بھی سولی پر اٹکی رہتی ہے۔
میرا اور آپ کا یہ حال کیوں ہے؟؟ اگر دیکھا جائے تو اپنی حالت کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ہم نے اتحاد و اتفاق کو چھوڑ کر نفاق و انتشار کا راستہ اختیار کیا، ہم نے اخوت اسلامی کے بجائے لسانیت کا پرچار کرنے والوں کو اپنے سر پر سوار کیا۔ہم نے دیانت داروں کے بجائے خائنین کو چنا، ہم نے صالح کردار والوں کو دقیانوسی اور رجعت پسند کہہ کر مسترد کیا اور بد کرداروں کو جدت پسند اور روشن خیال کہہ کر اپنے سر پر بٹھایا۔ ہم نے قومی مفاد کے لیے کام کرنے والوں کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ، ہم لسانیت، صوبائیت، روشن خیالی، دین بیزاروں کو نجات دہندہ سمجھ کر ان کی پرورش کرتے رہے۔ کچھ سر پھرے پھر بھی میدان میں ڈٹ کر ان سارے طوفانوں کا مقابلہ کرتے رہے ، ان کو ہم نے ملا، مولوی، جاہل، دقیانوسی کہہ کر ان کا مذاق اڑایا۔
ان ساری باتوں کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ لسانیت اور صوبائیت کے پرچار کے باعث اب ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے، سیکولر اور روشن خیال بننے کے جنون میں ہم اپنی بنیاد قرآن و سنت سے اپنا رشتہ توڑتے رہے۔ دوسری جانب جن کو ہم نے اپنا نجات دہندہ سمجھا ، معلوم ہوا کہ لٹیرے تو وہی تھے، جن کو ہم نے اپنا رہنما سمجھ کر منزل پانے کی جستجو کی انہوں نے تو منزل کے بجائے رہنما کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا گمراہ کن نعرہ لگا کر قوم کو فریب میں مبتلا کیا۔ سوچیے کہ رہنما کا کیا کام ہوتا ہے؟؟ رہنما تو ہوتا ہی منزل تک پہنچانے کے لیے ہے لیکن دراصل کارواں والوں کی منزل کچھ اور تھی جبکہ رہنماؤں کی منزل کچھ اور تھی اور آج رہنماؤں کو تو اپنی منزل مل گئی جب کہ قافلے ابھی تک راہوں میں ہیں بلکہ منزل کا نشان ہی کھو چکے ہیں۔
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے
دوسری جانب سرخ سویرے کی نوید سنانے والوں کو بھی ہم نے اپنا رہنما سمجھا لیکن ان کا بھی معاملہ یہ ہے کہ کارواں کی منزل کچھ اور تھی رہنماؤں کی منزل کچھ اور تھی۔لسانیت اور صوبائیت کا پرچار کرنے والوں نے ملک کو اندھیروں، نفرتوں ،لاشوں،بھتہ خوری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہم نے ببول بوئے اور گلابوں کی توقع رکھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ببول بویا جائے گا تو اس میں کانٹے ہی آئیں گے،
’’بے قدراں‘‘دی یاری کولوں فیض کِسے نہ پایا
کِکّر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا
آج میرے اور آپ کے پاس موقع ہے کہ ہم اپنی تقدیر کو بدلیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس موقع سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں۔ اہل اور دیانت دار لوگوں کو منتخب کریں، صالح کردار والوں کو منتخب کریں گے تو وہی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں، جن مفاد پرستوں کو ہم نے ہمیشہ اپنا خدا سمجھا انہوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ اب موقع ہے کہ ہم ان مفاد پرستوں سے اپنی جان چھڑائیں، بھتہ خوری، کرپشن، بوری بند لاشوں کا تحفہ دینے والوں کو مسترد کردیں۔یا درکھیں باکردار لوگ ہی معاملات کو سلجھا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کی وجہ سے یہ نفرتیں، یہ دہشت گردی، یہ اندھیرے ملے ہیں ان سے یہ توقع رکھنا بیکار ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کو ہم نے خود ساختہ خد ا سمجھا وہ پتھر کے صنم اب منہ کے بل گرنے کو ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ میں اور آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، اس لئے وہ مجھے اور آپ کو ہی ڈرا دھمکا کر، مار کر، جان کے خوف سے اس چیز سے باز رکھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمیں ان کو ناکام بنانا ہوگا۔ ہمیں نکلنا ہوگا۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دینا ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ بھی ظلم کا نشانہ کوئی نہیں بلکہ میں اور آپ ہی ہونگے۔
بہت ہی دلسوزی سے لکھا گیا مضمون ہے. واقعی اب سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم حالات کوٹھیک کر نا چاہتے بھی ہیں کہ نہیں ؟ اگر ہاں تو اپنا فیصلہ درست امیدوار کے حق میں ڈالیں!