سفر G -25 کا ہو یا کسی بوئینگ طیارے کا! آ گہی کے نئے باب کھولتا ہے!! ایسے ہی ایک سفر کا ذکر ہے جس میں مسا فروںسے کھچا کھچ بھری مزدا اپنی منزل مقصود سے محض چند کلومیٹر کے فا صلے پر ایسی جگہ خراب ہو گئی جہاں اس روٹ پر چلنے والی واحد بس وہی تھی۔ ( یہ واقعہ چنچی کے آ مد سے قبل کا ہے )۔ یہ جگہ ویرانہ اس لئے کہ دور دور تک کوئی پٹرول پمپ نہ تھا اور بارونق اس لئے کہ جائے وقوع کے بائیں طرف ایک بڑا شفاخانہ تھا تو دائیں طرف پارک جس کے پیچھے فلیٹو ں کا جنگل! اور پھر سب سے بڑھ کر بس کے مسافروں کی بڑی تعداد جن میں گنتی کے چند افراد ہی وائٹ کالر نظر آ رہے تھے اکثر یت تو نچلے طبقے کے ملازمین ہی کی تھی جو اپنے اپنے کاموں سے واپس گھر آرہے تھے۔ سورج بھی ڈھلنے کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔
جب تمام کو ششیں نا کام ہو گئیں تو ڈرائیور نے تمام خواتین و حضرات سے بس سے اتر نے کی در خواست کی۔ تھکے ماندے مرد اپنے اپنے ذریعہ معاش کے اوزار لے کر اور خواتین جنہیں ماسی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے بچے کھچے کھانے کے شاپرز ہاتھ میں پکڑے، دلوں میں وسوسے لئے گاڑی سے اتر پڑے۔ ایسے میں ڈرائیور نے نہ ان لوگوں کو پیدل چلنے کا مشورہ دیا اور نہ ہی پا لشڈ خواتین و حضرات کو رکشہ، ٹیکسی کرنے کی نوید سنائی بلکہ تمام مسا فروں کا جلوس لے کر اپنی قیادت میں کھڑا ہوگیا کہ اگلی آنے والی بس میں ان تمام کو اکا موڈیٹ کرسکے۔
تمام مسافر اسے امید افزا نظروں سے دیکھتے ہو ئے مطمئن کھڑے تھے۔ یہ ایسا منظر تھا جو نظروں سے کئی دفعہ گزرا ہو گا مگر اسوقت تو سوچ کے نئے زاویے دے گیا! گندے حلیے، بڑھے ہوئے میل زدہ ناخن اور بالوں کے ساتھ بظاہر بدزبان، بے لحاظ، غیر مہذب سا ایک ڈرائیور اپنے کنڈیکٹر اور اور دیگر عملے کے ساتھ جس احساس ذمہ داری سے مسافروں کی تکلیف کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہا تھا ناقابل یقین تھا۔ آخر اس کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ تمام مسافروں کو اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اگلی بس میں بیٹھتے ہی ذہن قائدانہ کردار کی اس جھلک کا موازنہ اپنے حکمرانوں سے کرنے لگا! جی ہاں وطن عزیز کی بس کا ڈرائیور جو اپنی بے ہنگم ڈرائیونگ کے ذریعے بس کو ناکارہ کر نے کے بعد مسافروں کو اسی خراب بس میں چھوڑ کرخود اتر کر مزے سے اس گاڑی میں بیٹھ گیا جو اس کی مدد کو آئی تھی۔صرف یہ ہی نہیں اس کے لہجے میں استہزا تھا، لبوں پر طنزیہ مسکرا ہٹ اور الفاظ تھے تمہارا اﷲہی حافظ!! بس کا کنڈیکٹر (شوکت عزیز) پہلے ہی کود کر فرار ہوچکا تھا۔ کلینر اور باقی عملہ منہ چھپائے ہوئے جائے وقوع سے ہٹ گیا تھا۔ البتہ کچھ منہ پھٹ ساتھی الفاظ کے گولوں سے ان بد نصیب مسافروں کو چھلنی کیے جارہے ہیں!
( معزز قارئین! یہ میری ڈائری کے الفاظ ہیں جو اکتوبر 2008ء میں لکھے گئے تھے اور یقینا آپ پہچان گئے ہوں گے ڈرائیور کو ! جی ہاں پرویز مشرف صدارت زرداری کے حوالے کر کے سلامی لے کر رخصت ہوگیا تھا اور ملک میں جو حکومت آئی اس کا کر دار تو صرف اور صرف اقتدار تھا۔ اس کے لئے بد عنوانی اور بے حسی کی انتہا دکھانے کے لئے لغت چھوٹی پڑ رہی ہے! ثبوت کے طور پر گیلانی کے الفاظ عوام کے بارے میں ’’۔۔۔۔۔تو ملک چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟۔۔۔۔۔!!‘‘ ایک طمانچہ ہے جمہوریت اور قیادت کے نام پر! اب پانچ سال بعد وہی ڈرائیور شاید اپنی سزا پانے دوبارہ وارد ہوچکا ہے)
آئیے ڈائری آ گے پڑ ھتے ہیں ہیں !!
اس واقعے نے ایک اور سفر کی یاد دلادی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور اس کے اثرات ہمارے شہروں میں بھی نظر آ رہے تھے۔ ایسے میں ایک دن اپنی ایک ساتھی کی عیادت کے لئے ان کے گھر جانے کے لئے رکشہ روکا۔ بیٹھنے کے بعد ڈرائیور پر نظر پڑی تو سٹی گم ہوگئی حلیہ سے ہی طالبان نظر آرہا تھا جس کی تصدیق رکشے میں لگے جا بجا اسٹکرز سے ہورہی تھی۔ ہمارے خوف کی وجہ طالبان کا ہوا تھا جس نے تمام خواتین کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
خیر کسی طرح سفر کٹا اور منزل آپہنچی۔ چونکہ علاقہ نیا تھا لہذا گلی اور گھر کے تعین میں تھوڑا شبہ تھا چنانچہ اس کے رویے کا سوچ کر مناسب سمجھا کہ اتر کر خود ہی تلاش کر لیں گے۔۔۔ اس بات پر تو وہ غصے میں آگیا اور اپنی پشتون اردو میں شروع ہوگیا ’’ہم تم کو ایسے کیسے چھوڑ دے گا اکیلا؟‘‘ اور پھر بڑ بڑانے لگا ’’ گھر پتہ نہیں اور اکیلے نکل جاتی ہیں‘‘ اچھی خا صی تگ و دو کے بعد مطلو بہ گھر اچانک سامنے آ گیا۔
اترتے ہو ئے خیال آ یا کہ کہ اب تو یہ طے شدہ کرایہ سے زیا دہ ہی وصول کرے گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ کرایہ لے کر بھی وہ کھڑا ہی رہا یہاں تک کہ گھنٹی بجانے کے بعد ہمیں خاتون خانہ کے حوالے کر کے ہی وہ وہاں سے روانہ ہوا۔حلیے اور لہجے کی درشتی کے ساتھ اس کے احساس ذمہ داری اور احساس تحفظ کے تاثر نے نئی سوچ پہن لی جن کی تصدیق ایوان ریڈلی نے ان کی قید سے رہائی کے بعد اسلام قبول کر کے کی۔
سوال یہ ہے کہ آ خر ہم حکمرانوں کے درست انتخاب میں کیوں ناکام ہوجاتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ ہم ان کے حلیے اور ڈگریاں دیکھتے ہیں! ( ڈگریوں کی جعلسازی ملاحظہ کی ہوگی! رخصت ہوتے ہو ئے بھی لوٹ مار کا منظر!)۔ کر دار کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے؟ جبھی یہ اپنے پاؤں مضبوط اور محفوظ کشتی میں رکھتے ہیں تا کہ موقع پڑ نے پر اس میں سوار ہو کر فرار ہوسکیں! جو وعدہ کر کے بھول جاتے ہیں اور ہاں اپنے ہی ہم وطنوں کو شکار کر نے کی اعلٰی صلاحیت رکھتے ہیں جبھی تو معمولی ہر کارے بھی اپنی عزت و ناموس کو اغیار کے ہا تھوں چند ڈالر کے لئے بیچ ڈا لتے ہیں۔ کتنے وائٹ کالرڈ، کتنے کلچرڈ ہو تے ہیں یہ!
کیا ہمارے نصیب میں ایسے ہی حکمران رہ گئے ہیں؟
ڈائری تو ختم ہوئی مگر اس منظرنامے کے ساتھ کہ انتخابات کا مرحلہ ہے! ووٹ کی طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے کہ کسے منتخب کرنا ہے؟ اگر یہ سنہری موقع ضائع کردیا تو آئندہ پانچ سال رونے دھونے سے کچھ حاصل نہ ہوسکے گا! اٹھیں اور دیانت دارانہ قیادت کا انتخاب کریں!
جاہل ہمارا حکمران ہوسکتا ہے مگر بددیانت اور بدکردار نہیں!! اس درست تجزیے کو دیکھیں تو جو امین ہے وہ عالم بھی ہے کیونکہ اسے اپنے فرائض کا ادراک ہے! اپنا فرض ادا کریں اور ایسے حکمران کو ووٹ دیں جو احساس ذمہ داری رکھتے ہوں! ہماری انگلیاں جو فیصلہ کریں گی وہی ہمارا نصیب! یہاں بھی اور روز آ خرت بھی گواہی کی بنیاد پر ہمارے ابدی ٹھکانے کا فیصلہ ہوگا!
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ظاہریت پسند ہیں اسلئے اصل کو ناپسند کر کے جعلی چیز کی طرف کھچتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ میرے ملک کی ہر چیز اچھی ہے اسلئے نہ تو میں بھارتی کیلا خرید کر لاتا ہوں اور نہ کوئی اور چیز۔ میں نے کراچی میں بوہری بازار سے پاکستان میں بنا ہوا میلامائن کا خوبصورت ڈنر سیٹ خریدا ۔ وہی سیٹ میرے ایک کولیگ غیرملکی کے طور پر لے آئے جس کے عوض انہوں نے مجھ 50 فیصد زیادہ قیمت ادا کی مگر اتراتے رہے ۔ اس بیماری کا علاج اگر دریافت ہو جائے تو شاید ہماری قوم راہِ راست پر آ جائے
جسے اچھائی اچھی نہ لگے اُسے برائی بھی بری نہیں لگتی… صحبت اور یاری کا بہت اثر ہوتا ہے دینداروں کے ساتھ رہینگے تبھی تو ہم اچھائی کو سمجھ پائیں گے کہ اچھائی واقعتاً ہوتی کیا ہے اور اچھا کہتے کسے ہیں۔ میں دوستوں کو اپنا ایک شعر اکثر سناتا رہتا ہوں:
؎
اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کر
اچھے اچھا بنا کے چھوڑتے ہیں
کاش کے ہم اس بار الیکشن میں اچھے لوگوں کی صحبت کے خواہاں ہوں اور اچھے لوگوں کو حکمران بنائیں تاکہ دم گھٹاتی فحاشی اور حرام کاری کو فروغ دیتے ٹی وی چینلز سے جان چھوٹ جائے جو ہمہ وقت ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔