پاکستان میں مروجہ اسلام برصغیر کا اسلام ہے اسے انتہا پسندانہ نظریات سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔ وہ اسلامی کلچر جو انڈیا میں پھیلا اور جس کی طاقت کا ارتکازدہلی میں دیکھنے میں آیا وہ اس دیس کے رویوں کا عکاس تھا بالکل جس طرح ترکی میں پروان چڑھنے والی اسلامی قدریں ترک معاشرے کی آئینہ دار تھیں اس پس منظرمیں سی آئی اے کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والی انتہا پسندی کی قوتیں،جن کو ضیاء دور میں ہمارے معاشرے میں پنپنے، پھیلانے کا موقع ملا کو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء کے اسلامی کلچر سے کوئی سروکار نہ تھا یہ زندہ دل لوگوں کی دھرتی ہے یہاں لوگ شہباز قلندر کے آستانے پر مست ہو کر دھمال بھی ڈالتے ہیں اور اجمیر شریف میں قوالی پر جھومتے بھی ہیں۔۔۔ آج ہم جس نظریہ پاکستان کی تشریح میں الجھے ہوئے ہیں وہ کیا ہے؟؟ وہ اقبال اور قائد کے نظریات کے سوا کیا ہے وہ14 اگست 1947 کے خطاب کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ اس کے سوا ہر تشریح اس ملک کی جڑیں کھودنے کے متراد ف ہے؟
ایک موقر جریدے کے 13 اپریل 2013 کے اسی کالم کے آغاز میں ایاز امیر صاحب نظریہ پاکستان کو جنرل یحیی خان کی کابینہ کے وزیر اطلاعات نواب ذادہ شیر علی خان مرحوم کی ٹکسال کردہ اصطلاح قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو جو اپنے ملک کے اور اس کے نظریات کے خلاف ایسی تحریروں کی اجازات دیتا ہو۔ سیکولر لابی کے یہ دانش ور پاکستان کی نظریاتی اساس کو بار بار مشق ستم بناتے ہیں اور ان حقائق سے انکار کرتے ہیں جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ دکھ اس بات کا ہے یہ سب کچھ آذادی اظہار رائے کے نام پر برداشت کرلیا جاتا ہے کوئی ایسی تحریر جو کسی ذہین کو عقیدے کے لحاظ سے شکوک وشبہات میں مبتلا کردے کیا تخریب کاری کے زمرے میں نہیں آئیگی؟ کیا انسانی اذھان کی تخریب کاری بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی تخریب کاری سے زیادہ شدت نہیں رکھتی؟؟؟
ہر ملک کی سلامتی کے اپنے اصول ہوتے ہیں کچھ دستوری تقاضے ہوتے ہیں جن سے انحراف کی کسی کو اجازات نہیں دی جاتی خود دستور پاکستان کی شق 2 الف ان تمام امور کا احاطہ کرتی ہے جن کا احترام اور ان پر عمل وطن عزیز کو فکری انتشار سے محفوظ رکھ سکتا ہے اسطرح قانون فوجداری دفعہ 123 اس شخص کو دس سال قید با مشقت مع جرمانہ کی سزا دیتی ہے جسکی تحریر یا گفتگو سے پاکستان کی تشکیل کی مذمت ہو۔۔۔۔
ایک شخص نظریہ پاکستان کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں وہ اسے فرد واحد کی “ٹکسال کردہ اصطلاح” قرار دے جس نظریہ کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، لاکھوں لوگ اپنے بسے بسائے گھر، اپنی جائیدادیں، اپنے کاروبار، اپنی آباء کی قبریں چھوڑ کر بلاوجہ اور بلا کسی مقصد اور نظریے کے اتنی لازوال قربانیاں دیکر یونہی ایک خطے سے دوسرے خطے میں آکر آباد ہوگئے تھے؟؟ ایسے ناسمجھ اور نادان لوگ تو دنیا کی تاریخ نے کبھی دیکھے نہ سنے ہوں گے!!! قائداعظم محمد علی جناح نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ازارہ تفنن فرمایا تھا کہ “پاکستان تو اسی روز معرض وجود میں آگیا تھا جس روزہندوستان کی سرزمین پر پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا”۔ پاکستان کا تصور ہی ایک نظریاتی تصور ہے اس کے حق میں اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟ پاکستان کے قیام کے 65 برس بعد قوم کے دانشور یہ سوال کریں کہ “نظریہ پاکستان کو ہر ایک اپنی مرضی کے معنی پہنادیتا ہے اور اپنے مفاد کے لیے استمال کرلیتا ہے”۔
کتنی سادہ سی تھی یہ بات جو قیام پاکستان کے وقت بچے بچے پر واضح تھی اور آج کے دانشوروں پر واضع نہیں ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم نے ایک ہی تصور پیش کیا تھا وہی تصور نظریہ پاکستان تھا اور بچہ بچہ جانتا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ کیا اقبال اور جناح محض ایک جعرافیائی خطے کا مطالبہ کررہے تھے؟ ایک معمولی ذہین رکھنے والا فرد بھی یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ محض خطہ زمین کا مطالبہ نہ تھا بلکہ ایک اسلامی ریاست کا مطالبہ تھا جہاں مسلمان اپنے مذہب، ثقافت، دین اور شریعت کے اصولوں کے تحت زندگی گزار سکیں بات صرف اتنی تو نہ تھی کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں جنکو علیحدہ ہی رہنا چاہیے کیونکہ انکی تہذیب و ثقافت جدا جدا ہے۔ بات اس سے آگے کی تھی کہ پاکستان نہ صرف مسلمانوں کا ملک ہوگا بلکہ اسلامی ریاست ہوگا جس کے لیے قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں27جولائی 1944 کو روالپنڈی میں واضع کردیا تھا کہ “پاکستان کے دستور سے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس 13 سو سال سے دستور موجود ہے” ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ “پاکستان میں یقینا شراب پر پابندی ہوگی” جو لوگ نظریہ پاکستان کو سمجھنا چاہیں ان کے لیے اقبال کا خطبہ آلہ آباد ہی کافی ہے “برعظیم پاک و ہند میں ایک اسلامی مملکت قائم کرنے کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے اسلام کو بحثیت ایک تمد نی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم رکھ سکے” ظاہر ہے کہ سیکولر حضرات کو “اسلامی ریاست” اور “اسلامی قانون” کی اصطلاحیں بھی ناگوار ہیں چنانچہ وہ نظریہ پاکستان ہی کے منکر ہیں۔ ایک اسلامی ریاست کا تصور ہی حقیقتا نظریہ پاکستان ہے۔ تاریخ پاکستان سے چشم پوشی کرنے والےیہ دانشور لفظ اسلامی آئیڈیا لوجی ہی کو متنازعہ بنادیتے ہیں۔
اب اس فکری سانچے کا کیا کیجے جہاں جعرافیہ، زبان یا نسل کسی خطہ زمین کے حصول کے لیے جذبہ محرکہ ہوسکتے ہیں لیکن اسلامی قومیت ان کے خیال میں وہ جذبہ محرکہ نہیں ہوسکتی جبکہ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انسانی زندگی کی تعمیر میں تہذیب و تمدن اوراقدار و روایات کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یک طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر دانشوروں کو تحریک پاکستان میں اسلامی مملکت کا سراغ نہیں ملتا جبکہ مغربی دانشوروں کو مسلم لیگ کی تحریک میں صرف اور صرف اسلامی مملکت ہی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ اپنی مشہور کتاب Islam in modern History میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ” قیام پاکستان مسلمانوں کے مذہبی وجود کا مرہون منت ہے”۔ پروفیسر سمتھ کہتے ہیں کہ “نظریاتی اعتبار سےیہ کوئی علاقائی، معاشی، لسانی اکائی نہ تھی نہ ہی یہ کوئی وطنی قومیت تھی کہ جو ریاست کی متلاثی تھی یقینا یہ ایک مذہبی قوم تھی ہندوستان میں اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی عملیاتی نتیجہ نہ تھا جسکی بناء پر ایک ریاست اسلامی ریاست بننا چاہتی تھی بلکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کے ذریعے اسلام ریاست کا طالب تھا”۔ (سیکولرازم مباحث اور مغالطے،۔مصنف طارق جان،صحفہ نمبر 145)۔
اسلام میں اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور یہ سیکولرحضرات درحقیقت ریاستی امور سے مذہب کو دور رکھنا چاھتے ہیں اورجو لوگ اسلام کی بات کرتے ہیں انھیں وہ طنزیہ “پارسا” کہتے ہیں۔ انکا خیال یہ ہے کہ مذہب انسانی زندگی کا جز تو رہے یعنی نماز اور روزہ فرد کا انفرادی دینی معاملہ ہے باقی جو کچھ ہے وہ شریعت کی نہیں بلکہ جمہور کی مرضی سے ہو، انسانی عقل جسکو شر تسلیم کرے وہ شر ہے اورانسانی عقل ہی مجاز ہے کہ وہ حلال وحرام کا فیصلہ کرے اس لیے کہ یہ طبقہ فکر مادے کو حقیقت مانتا ہے اور زندگی کی تعمیر و تہذ یب میں الہامی ہدایت کی “مداخلت” کو معاذ اللہ پسندیدہ قرار نہیں دیتا اور وقت کے دانشوروں کا مطالبہ سپریم کورٹ سے ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کی تشریح کریں جبکہ سپریم کورٹ جسٹس محمود الرحمن کی سربراہی میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کرچکی ہے جسکو ڈاکٹر صفدر محمود 19 اپریل 2013 کے جنگ میں اپنے کالم میں واضع کرچکے ہیں، دو سطریں ملاحظہ فرمائیے میں پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسکا نظریہ 1949 کی قرارداد مقاصد میں درج ہیں جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ہے مملکت پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی (پی ایل ڈی 1973، سپریم کورٹ صفحہ 49، 72، 73)
ایسے سیکولر نفس پرستوں کو حافظ شیرازی کی زبان میں تنقیدکی جاسکتی ہے
چوں پیر شدی حافظ از میکدہ بیرون شو
رندی و ہولناکی در عہد شباب اولیٰ
(اے حافظ اب تم بوڑھے ہوگئے ہو، میکدے سے باہر نکلو کیونکہ مستی و ھوس پرستی جوانی میں ہی اچھی لگتی ہے)
حقیقت کو بڑا سادہ کر کے پیش کیا ہے.
نظریہ پاکستان کیا ہوا جب 71 میں بنگلہ دیش الگ ہوا؟
نظریہ پاکستان کیا ہوا جب بلوچ آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں؟
عطاء اللہ شاہ بخاری، ابو الکلام آزاد جیسے جید مسلمان علماء دین اور سیاسی رہنما یا پاگل کے پُتر تھے جو نظریہ پاکستان (نام نہاد) کی مخالفت کرتے تھے؟ عطاءاللہ شاہ بخاری ستر سال پہلے دہلی اور لاہور میں خطاب کرتا ہے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچتا ہے، ستر سال بعد وہی حالت اس نظریاتی ملک میں ہے تو کہاں کا نظریہ؟ ابو الکلام آزاد کی کتاب میں پاکستان “نظریاتی” ملک کا جو نقشہ کھینچا گیا وہی کچھ ہوا.
صاحب نظریہ اسی وقت خلیجَ بنگال میں غرق ہو گیا تھا جس دن بنگالی الگ ہو گئے.
اب نظریہ پاکستان کے پجاری اس حقیقت کو نہ مانیں تو کیا کیا جائے.
یہ نظریہ پاکستان “نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور” اور گرد و نواح میں ہی پایا جاتا ہے. جیسے جیسے اس سے فاصلہ بڑھتا ہے نظریہ پاکستان بھی صرف کی جھاگ کی طرح غائب ہوتا چلا جاتا ہے. کراچی اور کوئٹہ میں کوئی نظریہ پاکستان نہیں، وہاں نظریہ لسانیت چلتا ہے.
اور چلتے چلتے علامہ اقبال نے کسی الگ ملک کی بات نہیں کی تھی. ان کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان اکثریتی صوبوں کی کنفڈریشن کر دی جائے جو متحدہ انڈیا کے تحت ہو. یہ بہتان بعد میں “نظریہ سازوں” نے لگایا ہے.
قائد اعظم چھیالیس تک متحدہ ہندوستان کے حامی رہے، اس کے بعد الگ ملک کا مطالبہ کیا.
آپ تو پاکستان کو اتنا کمزور چُوچا بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسے یہاں سب کچھ اس نظریے کی بنیاد پر چل رہا ہے. آج اس ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے. وفاقی طرزِ حکومت جس میں صرف چند شعبے حکومت کے پاس ہوں باقی اختیارات صوبوں کے پاس ہوں. اور صوبے ہر ممکن حد تک وفاقی ڈھانچے میں خودمختار ہوں.
آج اگر کوئی صوبہ الگ ہو گیا تو آپ کا نظریہ پاکستان کسی کو نہیں روک سکے گا، جیسے 71 میں بنگلہ دیش نہ رک سکا. مذہب کو سماجی شناخت سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں. ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ سماجی شناخت مذہب، لسانیت، علاقے، برادری اور قبیلے کا مجموعہ ہوتی ہے. مذہب کی بنیاد پر ہر چیز کو سادو جمع دو چار کرنے والوں کو بار بار ٹھوکر لگی لیکن پھر بھی وہ رومانس نہیں جاتا.
سب سے پہلے تو نظریہ پاکستان کو انتہائی سادہ سے الفاظ میں بیان کردیتے ہیں کہ “مسلمانوں کے علیحدہ مملکت جہاں اسلام کو بحیثیت قوت محرکہ کے نافذ کیا جاسکے”۔ تو سب سے پہلے جائزہ لیں کے اسے کہاں استعمال کیا گیا؟ کہاں نافذ کیا گیا؟ 1948ء میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی تو سید مودودی نے اس پر کچھ یوں تبصرہ کیا کہ یہ ان بادلوں کی طرح ہیں جو گرجے تو بہت لیکن برسے نہیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد آغاز ہی سے یہی نام نہاد سکیولر اور لبرل مسند اقتدار پر براجمان رہے بھلا پتہ تو چلے کہ یہ سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، اور بھٹو کتنے اسلامی تھے؟ پھر بھی 71ء میں اہل بنگال کی علیحیدگی کا الزام نظریہ پاکستان اور اسلام پر کیسے لگ گیا حضرت؟
کچھ بلوچ بغاوت کے حدود اربعہ کا بھی پتہ ہے؟ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ کوئی نام نہاد سکیولر و لبرل جو ہر رخ پر دیکھتا ہو، سوچتا ہو اور ظاہر ہے کہ وہ نظریہ پاکستان سے آپ کی طرح بیزار ہو تو اگر وہ بغاوت کردے تو اس کا قصور وار نظریہ پاکستان کیسے ہے بھائی؟ اور اس ملک میں تو یہ حالات ہیں کہ شروع سے اب تک انہی احمقوں کا اقتدار پر قبضہ رہا ہے۔ اب اپنے نجم سیٹھی کو ہی دیکھ لیں۔ ایک وقت تھا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے نبرد آزما تھے۔ پھر معافی تلافی کے بعد واپس آئے اور اب نظریہ پاکستان کی “رسمی” ہی سہی حفاظت کا حلف اٹھا کر وزیر اعلی پنجاب بینے بیٹھے ہیں۔
اور جس وقت علامہ اقبال نے ریاست کے اندر رہتے ہوئے کنفیڈریشن کی بات کی تھی تو آپ پڑوس میں کھڑے تھے کہ حقیقت تو آپ جیسوں کو ہی معلوم ہے باقی سارے جھوٹے ہیں؟
اور اپنے عطااللہ شاہ بخاری نے جس بنیاد پر مخالفت کی تھی کبھی اس کو پڑھا بھی ہے؟ ان حضرات کا موقف تو سیدھا سا تھا کہ مسلم لیگ میں جو افراد شامل ہیں وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور نہ ہی اخلاقی معیار پر پورے اُترتے ہیں کہ نئی بننے والی ریاست میں اسلام نافذ کرسکیں۔ ابے بھائی ان کے موقف کی زد تو آپ جیسوں پر ہی پڑتی ہے بھیا کہ لادین، مذہب کو فرد کا انفرادی معاملہ سمجھنے والے، کرپٹ مافیا اور چور لٹیرے کیسے نظریہ پاکستان پر عمل کریں گے اور یہ کیسے دین کے نفاذ میں مخلص ہوسکتے ہیں۔
اور نظریہ پاکستان نے کب کہا ہے کہ لوگوں کو انکے حقوق نہ دو؟ وفاقی طرز حکومت نہ اپناؤ؟ اختیارات صوبوں کو منتقل نہ کرو؟ اور ٹھوکر کسے لگ رہی ہے؟ کچھ عقل کو ہاتھ مار بھائی، ٹھوکر کسے لگ رہی ہے کچھ اندازہ ہی نہیں۔ عجیب احمق لوگ ہیں۔ روز مہنگائی، لاقانونیت، اخلاقی بے راہ روی کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں لیکن سمجھ پھر بھی نہیں آتی۔
مجھے امید کوئی نہیں کہ میرا کوئی تبصرہ اس تحریر پر شائع ہو سکے گا. چونکہ جماعتی ذہن ہمیشہ ایک ہی رخ پر دیکھتا ہے. دوسرے رخ سے اسے ڈر لگتا ہے. پھر بھی حق بات کہنا میرا فرض ہے. اقبال کی شاعری سے “نظریہ پاکستان” (نام نہاد) نکالنے والے یہ بھی پڑھ لیں.
urdu.dawn.com/2013/04/21/iqbal-aur-tasawwure-iqbal-abdul-majeed-aq/
اعلی حضرت اب آتے ہیں اقبال کی شاعری کی طرف۔ آپ نے جو لنک شیئر کیا ہے اس کی اوقات کو تو سب کو پتہ ہے۔ اسے کھولنے سے پہلے ہی میں بتاسکتا ہوں کہ اس میں کیا ہوگا۔ بحرحال میں نے کھولا اور وہی بودی بکواس پائی جس کا مجھے پہلے سے اندازہ ہے۔
خیر جناب آگے چلتے ہیں اور اسلامی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک وقت تھا کہ حضرت عمر فاروق تلوار ہاتھ میں لیے نعوذباللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے چلے تھے اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ عمر (ر) کے ہاتھ میں موجود تلوار دین کے غلبے اور اس کے نفاذ کے لیے استعمال ہونے لگی۔ اب اگر احمق لوگ یہ کہنے لگے کہ عمر نے تو یہ بھی کیا تھا تو اس کی کیا اہمیت ہوگی؟
ہم اقبال کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو قدرت اور عورت کے حسن کی پرستش کے بعد جو جذبہ سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ وہ وطن کی پرستش ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہیں ہم بھی، دل ہو جہاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
یونان و مصر و روما ، سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
یہ نظم 1905ء کے آس پاس لکھی گئی۔ پھر اس کے کچھ ہی عرصے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ “ترانہ ملی” لکھا جو کچھ یوں تھا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آسان نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
زمانہ جاہلیت میں اقبال نے یہ نظم بھی لکھی جسے ڈان والے احمقوں نے جلی حروف میں لگایا ہوا ہے کہ
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بسائیں
پھر بعد میں وہ کچھ یوں گویا ہوئے کہ:
ربط ملت و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
لہذا میرے بھائی یہ سارے ڈھکوسلے اور وہ جو انگلش میں جس کو شِٹ کہتے ہیں کچھ نیا ہرگز نہیں ہے۔ پچھلے ساٹھ ستر برسوں سے یہی چل رہا ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اور حضرت بے پر کی اُڑانے کا وقت چونکہ ہمارے پاس کچھ کم ہوتا ہے تو اس لیے ایڈمن صاحب کو کچھ دیر ہوگئی ہوگی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ بقول اقبال:
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اور
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
خیر جناب کہیں سنا تھا کہ نیا نیا مُلا اللہ اللہ بہت کرتا ہے کچھ ایسا ہی حال نئے نئے لبرلز کا ہے۔ جہاں رہیں خوش رہیں۔
والسلام۔