الیکشن، تقویٰ اور برادری

وہ بزرگ تھے اورسارے علاقے میں اپنی نیکی،پارسائی اور تقویٰ کی وجہ سے جانے جاتے تھے، ان کی وضع قطع اورچال ڈھال بھی ایک متقی شخص کی سی تھی ۔ تمام لوگ ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور بڑے بزرگ کا درجہ دیتے، وہ بھی اپنی بساط کے مطابق عوام کے دکھ درد اور مسائل کے حل میں کام آتے اور یہ سارا کام کسی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر ہوتا۔دین کے ایک اچھے مبلغ بھی تھے۔نیکی کا پرچار کرتے ، خود عمل کرتے اور دوسروں کو اس نیکی کی طرف متوجہ کرتے۔ خلق خدا ان کی للہیت و تعلق باللہ کی مثالیں دیتی تھی۔

 

انتخابات کا اعلان ہوا تو دو امیدوار میدان میں اترے۔دونو ںمختلف الخیال ،مختلف پارٹیوں اور مختلف نظریات کے حامل۔ایک دین پسند اور دین کا علمبردار تھااس کا کردار بے داغ تھا اور وہ ذاتی زندگی صاف شفاف اور معاملات میں کھرا تھا،جبکہ دوسرے کاتعلق ایک سیکولر پارٹی سے تھا۔ اور وہ’’ روشن خیال‘‘ اور’’ ترقی پسند‘‘ کہلاتا تھا ۔ سیرت و کردار اور معاملات میں صاف ستھرا نہ تھااورنہ اس کی پہچان اور شہرت اچھی تھی لیکن اس کے پاس مال اسباب کی فراوانی تھی، پوش علاقے میں گھراورگاڑی کا مالک تھا۔ معاشرے میں اچھا اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ اس موقع پر جب انتخابات کا بگل بجاتو ان بزرگ کی دینداری ، نیکی، پارسائی اور تقویٰ کو دیکھتے ہوئے وہ امیدوار جو دین پسند تھا، ان کے ہاں پہنچا اور ان سے درخواست کی کہ آپ انتخابات میں میرا ساتھ دیں۔ میرے ساتھ چلیں تاکہ ہم مل جل کر نیکی کے پیغام کو عام کریں ، لوگوں کو نیکی کی طرف متوجہ اور وابستہ کریں اوربرائی کو پسپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔جتنی نیکی مضبوط اور طاقتور ہوگی برائی اور برائی کی طاقتوں کا قلع قمع ہوتا جائیگا۔

 

بزرگ نے اس کی بات سنی، ایک لحظہ کو رکے اور کہا کہ آپ کی بات درست اور بجاہے۔۔۔ مجھے آپ کا ہی ساتھ دینا چاہئیے کہ آپ نیکی اور بھلائی کے طرفدار ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ دوسرا امیدوار شراب پیتا ہے اور کردار بھی اچھا نہیں ہے اور دینی شعار پر بھی عمل نہیں کرتا مگر کیا کروں مَیں آپ کا ساتھ دینے سے قاصر رہوں گاکیونکہ وہ میری برادری کا ہے اور میرے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ بزرگ کی بات سن کر وہ نوجوان نہ پریشان ہو اور نہ مضطرب ۔وہ اطمینان سے پہلے تو ان کی بات سنتا رہا ۔پھر کہنے لگا ’’آپ دین پسند اور دین کی علامت ہیں آپ کو اچھے اور دینی لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔اگر دین پسند بھی برادری اور قبیلے کی بات کریں گے تو دین اور نیکی کی بات کون کرے گا اور کون مانے گا‘‘ بزرگ کہنے لگے بیٹا تم ابھی بچے ہو تمہیں اپنے فائدے اور نقصان کا شعور نہیں ہے۔دین بے شک اہم ہے مگر برادری، عزیز داری اور قبیلے کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔قرآن اور سنت میں بھی عزیز و اقارب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور ان کے ساتھ رہنے بارے تاکید کی گئی ہے۔لیکن اگر یہ برادری اور عزیز داری دین کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرے ،نیکی کا راستہ روکے اوربھلائی کو پنپنے نہ دے تو کیا پھر بھی اس عزیز داری کو ہی نبھانا چاہیے۔حالانکہ خود سیرت پاک سے جو رہنمائی اس حوالے سے ملتی ہے وہ تو اس کے برعکس ہے۔نظریے اور عقیدے کا رشتہ تمام رشتوں سے مضبوط اور برتر قرار دیا گیا ہے۔غالباً غزوہ بدر کے بعد کسی موقع پر حضرت ابوبکر سے ان کے صاحبزادے نے مسلمان ہونے کے بعد کہا کہ ابا جان فلاں موقع پر آپ میری تلوار کی زد پر آ گئے تھے مگر مَیں نے آپ کو چھوڑ دیا تھا۔جبکہ حضرت ابوبکر ؓنے کہا کہ بیٹاتم اپنے کفر میں کچے تھے۔اگر تم میری تلوار کی زد میں آ جاتے تو ہرگز نہ بچ سکتے، تو کیا یہ ساری باتیں اور تاریخی قصے بس ایسے ہی ہیں؟ نوجوان نے سوالات اور دلائل کا مضبوط حوالہ دیا۔ بزرگ گویا ہوئے اور کہا بیٹا تم جذباتی ہو رہے ہو۔تم نے ابھی حالات کا گرم سرد نہیں دیکھا اس لئے ایسی باتیں کر رہے ہو۔ہم حالات کا گرم سرد اور اونچ نیچ دیکھ چکے ہیں اس بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ دین کا اس معاملہ سے کیا تعلق؟ یہ سیاست ہے اور سیاست میں برادری اور رشتہ داری کا بنیادی کردار ہے ۔اس کے بغیر سیاست ہو سکتی ہے نہ ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ دین اپنی جگہ اور سیاست اپنی جگہ۔

 

بزرگ کی یہ بات سن کر نوجوان کہنے لگا ’’یہ تو آپ دین اور سیاست کی دوئی کی بات کر رہے ہیں آپ جیسے بزرگوں کے لئے یہ بات کسی طور پرمناسب نہیں کہ دین و سیاست کی علیحدگی کی بات کریں۔کیونکہ لوگ آپ کو دین کے حوالے سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔آپ کی شخصیت کا یہ رخ لوگوں کو دین سے بیزار اور متنفرکرنے کا باعث ہوگا۔دین و سیاست جدا نہیں ہیں۔ ہمارے قومی شاعر نے بھی کہا تھا کہ
جدا ہو دین ،سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

 

اگر دین و سیاست جدا ہوتے تو حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم غار حرا سے نکل کر لوگوں کی طرف نہ آتے اور نہ معراج سے واپس آتے کیونکہ قرب خداوندی کے حصول کے بعد انہیں اور کیا چاہیے تھا۔ سب سے اعلیٰ و ارفع مقام تو انہیں مل گیا تھا وہیں رہ جاتے مگر وہ عوام کے لئے، ان کی اصلاح کے لئے قوم کی طرف واپس آئے۔ساری زندگی اس دین کی آبیاری کے لئے جد و جہد کی۔ دن رات دین کے ابلاغ میں مصروف رہے۔جدوجہد کے خوگر بنے۔ مکی زندگی میں اذیتیں برداشت کیں۔مشقتیں اٹھائیں۔اور جب انعام کے طور پر مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے ریاست کا نظام سپرد کیا تو ایک مثالی ریاست بنائی اور چلا کر دکھائی۔ اور رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ چھوڑ گئے۔حضورﷺ کی سیرت اور اسوہ حسنہ سے بھی واضح رہنمائی ملتی ہے۔کیا ہم اس رہنمائی اور عمل کو نظر انداز کر دیں؟ بزرگ نوجوان کے جذباتی انداز پر مسکرائے اورکہا کہ بیٹا آپ کی باتیں دل کو لگتی ہیں مگر مَیں اپنی برادری کے ساتھ مشورہ کرکے ہی تمہیں کچھ جواب دے سکوں گا۔ فوری طور پرجواب دینا میرے لئے مشکل ہے۔

 

بزرگ کی یہ بات سن کر وہ نوجوان وہاں سے اٹھا اور اس نے واپسی کا راستہ کیا۔ واپسی پر وہ سوچتا جاتا تھا کہ نیکی اور تقویٰ کا یہ کونسا معیار ہے؟ یہ جبہ و دستار اور یہ منبر و محراب کس نیکی کے طرفدار ہیں کہ نیکی کمزور سے کمزور تر اور برائی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے اور یہ نیکی اور پارسائی کے علمبردار تو ہیں مگر یہ نیکی اور بھلائی کے کتنے محدود تصور پر کاربند اور عمل پیرا ہیں۔ اس کے دل نے گواہی دی کہ یہ ذاتی زندگی میں تو نیک ہیں مگر دین کو بحیثیت دین نہیں ،بلکہ مذہب جانتے ہیں اور مذہب کا ایک خاص نقطہ نظر ان کے پیش نظر ہے اسی کی ترویج اور ترقی کے لئے کمربستہ رہتے ہیں نیکی کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن برائی سے روکنے کو زیادہ اہم اور درست نہیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قرآنی حکم ہے اور امت مقصد وحید بھی۔نبی مہربان صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو ان کے پیش نظر دین کی تکمیل اور مکمل نفاذ تھا۔اس کے لئے انہوں نے تمام عمر تگ ودو کی اور جان کھپائی ۔رنگ و نسل،علاقے، برادری اور قبیلے کے امتیاز ات کا خاتمہ کیا جبکہ آج کیفیت ایسی ہے کہ نیکی اور پارسائی کے باوجود لوگ اپنی برادری کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے ساتھ چلتے اور تعلق نبھاتے، فخر جتاتے نظر آتے ہیں۔ شاید علامہ اقبال نے کسی ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی

 

یہ دین کا مکمل نہیں ادھورا تصورہے۔ جو ہر جگہ عام ہوگیا ہے، لوگوں تک دین کا صحیح ابلاغ نہیں ہواور نہ دین کا صحیح تصور پہنچا، دین کا سرچشمہ قرآن و سنت ہے مگر اس چشمہ صافی سے براہ راست اکتسابِ فیض نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنہوں نے دین سیکھادین میں تخصص حاصل کیا وہ اپنے اپنے مسلک کے اسیر اور اسی کے پرچارک ہو گئے۔ دین کی اصل متاع گم ہو گئی اورنتیجتاً امت زوال کا شکار ہو گئی۔ امت کی زندگی دین کے صحیح تصور کے ابلاغ میں ہے۔جتنا جتنا ابلاغ دین ہوگا اتنا اتنا تصور دین واضح ہوتا جائیگا۔لیکن اس کی وضاحت اور تنقیح کے لئے قرآن اور سنت بنیادی ماخذ ہیں۔اسلام کی بطور ’’دین ‘‘ پہچان اور ابلاغ امت کے لئے لازم ہے ۔امت یہ کام کریگی تو اس کے نتیجے میں حیات جاوداں پائے گی۔اگر اس کام سے ہاتھ کھینچ لیگی تو نہ صرف اپنی بنیاد سے ہٹ جائیگی بلکہ اپنی شناخت اور پہچان بھی گم کر بیٹھے گی۔اسی کیفیت سے آج کل امت دوچار ہے ۔نہ دین اس کے پاس ہے اور نہ دنیا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا کے لئے جد و جہد کرنے والے اپنے دین کا نقصان کرینگے اور دین کے لئے محنت و مشقت کرنے والے دنیا کی چکا چوند اور رنگا رنگی سے محروم ہوجائیں گے مگر حیات اخروی میں وہ ساقی ء کوثر سے حوض کوثر تو پالیں گے اور یہی کامیابی کا اصل معیار ہے۔

 

اللہ کے نزدیک دنیا کی حقیقت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ورنہ دنیا میں کفار کو کچھ حاصل نہ ہوتا اور سب کچھ مومن کی متاع بن جاتا آج ضرورت اس کی ہے کہ دین کا گہرا فہم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔دین پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہونے سے ہی انسانیت کا مقدر سنورے گا اور اس کی بگڑی بنے گی ۔امت کی بگڑی بنانے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یہ راستہ کٹھن اور دشوار سہی مگر منزل تک یہی راستہ جاتا ہے۔ہمیں اسی راستے پر چلنا ہے یہی راہ راست ہے اور یہی راستہ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔اس راستے پر چلنے والے ہمیشہ خوش و خرم اور شاداں و فرحاں رہتے ہیں ، جذبے اورولولے سے سرشار رہتے ہیں ۔پچھتاوا ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا۔امید،روشنی اور نور ان کا مقدر ہے ۔امید اور روشنی کے یہی چراغ انسانیت کے ماتھے کا جھومر اور دکھ درد کا مداوا ہیں۔یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔

فیس بک تبصرے

الیکشن، تقویٰ اور برادری“ پر 2 تبصرے

  1. بہت اچھی طرح دین کا مکمل مفہوم واضح کیا گیا ہے۔ اللہ ہمیں بہترین سوچ عطا کرے۔ او جو لوگ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی کو ششوں کو قبول فر مائے آ مین

  2. ماشاأللہ! بہت اچھی کاوش ہے کاش کہ دین کا اصل مفہوم سمجھ جائیں اور اُس پر عمل پیرا ہوں۔ محترم عمران ظہور کی تائید میں بس اپنا ایک شعر قارئین کے نام کرنا چاہتا ہوں:
    ؎
    نماز ، روزہ و حج و زکوٰۃ اپنی جگہ
    خدا کے بندے خدا کا نظام لاگو کر

Leave a Reply