کچھ تو سوچا کرو ،کچھ تو سمجھا کرو !
کس کی آنکھوں سے ٹپکا غموں کا لہو
آن میں کس کی محنت دُھواں ہوگئی
غم کے اظہار نے اور بھی غم دیے
ہم لٹُے بھی تو خود، ہم کٹے بھی تو خود
شرپسندی کا ہم کیسے حصّہ بنے
ہم سے کس نے کہا، خود کو رُسوا کرو
کچھ تو سوچا کرو ،کچھ تو سمجھا کرو !
کل ہمیں تھی وطن کی ضرورت مگر
اب وطن کو ہماری ضرورت ہے اور
مشکلوں میں گھرے ہیں ہم اہلِ وطن
سازشوں پہ نگاہیں تو رکھا کرو
کچھ تو سوچا کرو ،کچھ تو سمجھا کرو !
ہم میں کچھ تو ہمارے علاوہ بھی ہیں
جو ہمیں متّحد دیکھ سکتے نہیں
جو ہمیں ایک دوجے پہ بھڑکاتے ہیں
ایسے لوگوں کی چالوں کو سمجھا کرو
کچھ تو سوچا کرو ،کچھ تو سمجھا کرو !
تم ہی اُمید ہو اور تمہی مان ہو
تم وطن کی ترقی کا سامان ہو
یہ وطن پاک ہے آؤ مل کر اِسے
خوف و دہشت سے ہم پاک کردیں چلو
آؤ دُنیا میں نام اِس کا اونچا کرو
کچھ تو سوچا کرو ،کچھ تو سمجھا کرو !
شاعر: صفدر علی صؔفدر
slam dear sadoo, this poem is awesome and its the voice of all heart all Pakistani-hub-e-watan. good work buddy, keep it up. thanks for sharing.
بہت امید افزا شاعری ہے، آج کے دن جذ بوں کو جگانے کی ضرورت ہے۔پاکستان دنیا کے نقشے پر دشمن کی نقصان پہنچانے کی تمام تر کو ششوں کے باوجود پائیندہ ہے ۔ اللٰہ اس کو ہمیشہ تروتازہ رکھے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ جناب صفدرعلی صفدر کے جذبوں کو پزیرائی بخشے آمین