اب تو حوصلہ جواب دیتا جا رہا ہےان لمحے لمحے کی “بریکنگ نیوز ” کو دیکھ دیکھ کر ہر تھوڑی دیر بعد ایک بریکنگ نیوز۔۔۔ اور کیا ہے ان خبروں میں۔۔۔ ہلاکتوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ؟ کتنے مزید زخمي اسپتال پہنچا ئے گئے؟ کہاں کہاں فائرنگ ہورہی ہے؟ مردہ خانوں کے مناظر۔۔۔ گریہ کرتے سینے پیٹتے ایکدوسرے سے لپٹ کر دھاڑیں مارتے ہوئے لوگ۔۔۔ بارود کی بو۔۔۔ اجڑے ہوئے بازار۔۔۔ شدید خوف و ہراس۔۔۔ ہر ایک اس خوف میں مبتلا کہ اس کے نام کی گولی کب اس کو ڈھونڈتےہوئے آپہنچے گی! کیونکہ اب کوئ علاقہ، کوئی گلی، کوئی محلہ محفوظ نہیں کراچی میں۔۔۔ لوگ بھوک اور افلاس توبرداشت کر لیتے ہیں مگر یہ ظلم اور نا انصافی اور رگوں میں خون کے ساتھ گردش کرتا ہوا یہ خوف انہیں کب تک جینے دیگا؟
ابھی ہزارہ قبیلے کا دکھ رگوں میں خون کو منجمد کئے ہوئے تھا کہ عباس ٹاؤن کا سانحہ۔۔۔ سیاستدانوں کے وہی مذمتی بیانات، حکومتی امدادی بیانات۔۔۔ بلیم گیم۔۔۔ ٹی وی میزبانوں کو ایک نیا تازہ موضوع ہاتھ آگیا۔۔۔ چھ دن یہی خبریں، جائزے، تجزیے، الزامات، لٹنے والوں کے نوحے میڈیا کی زینت بنے رہیں گے پھر سب کو اپنے کام سے کام۔۔۔ لیکن جس عورت کا سہاگ لٹ گیا ہو۔۔۔ جس ماں کی گود خالی ہو گئی ہو۔۔۔ جن معصوم بچوں کے باپ لاشوں کی صورت میں مردہ خانوں میں شناخت کے منتظر ہیں۔۔۔ وہ باپ جسکا جواں سال بیٹا لقمہ اجل بن گیاان کےزخموں پر کونسے الفاظ اور بیانات مرہم رکھ سکتے ہیں؟ خون مسلسل بہہ رہاہے۔ نوحے ہیں کہ مسلسل عرش کو ہلا رہے ہیں لیکن جمہوریت “انتقام ” بن کر مسلط ہے۔۔۔ نہ آج تک مجرموں کو پکڑا جاسکا نہ حکومت جان و مال کاتحفظ فراہم کرسکی اب لوگ جمہوریت کے انتقام سے تنگ آکر فوج کی پناه مانگ رہے ہیں۔۔۔ عباس ٹاؤن میں جائے وقوع سے نصف فرلانگ کے فاصلے پر پولیس چوکی موجود تھی لیکن پولیس گھنٹوں بعد پہنچی۔۔۔ دوسرے دھماکے میں فلیٹوں اور مکینوں کو جو شدید نقصان پہنچااور لوگ جانیں بچا کر بھاگے اسکے بعد فائرنگ کا سلسلہ اور اس دوران ان خالی فلیٹوں میں وہ لوٹ مار کی گئی کہ مکین زندگی بھر کی پونجی ہاربیٹھے۔۔۔ ایک طرف انسانی جانوں کاضیاع۔۔۔ اپنے پیاروں کو کھویا اور جیون بھر کی پونجی لٹیروں کے ہتھے چڑھ گئی اہل محلہ دہائی دیتے رہے کہ کہاں ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس، رینجرز، فورسز، لگتا ہے سول اور ملٹری ایجنسیاں سب کو سانپ سونگھ جاتاہے۔ گھنٹوں مورچہ بند فائرنگ ہوتی رہی لاشیں گرتی رہیں۔۔۔ فلیٹوں کے مکین لٹتے رہے اور جو مناظر ٹی وی پر نظر آئے وہ اپنی مدد آپکے تھے یا متاثرین کی چیخ و پکار کے دور دور تک کوئي مرکزی، صوبائی انتظامیہ کا ذمہ دار انکی مدد کو نہیں پہنچا۔ “نالائقی ” اور “نا اہلی ” اس تساہل کے لئے بہت چھوٹے الفا ظ ہیں یہ بدنیتی اور جرم ہے۔ وزیر داخلہ متاثرہ علاقوں میں جاتے اور اس قیامت صغریٰ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔۔۔ تمام حکومتی ذمہ داران ورثاء کے زخموں پر مرہم رکھتے! لیکن ایسے ہر واقعے کے بعد وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور حکومتی ذمہ داران میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں ان واقعات کو فرقہ ورایت کا شاخسانہ، ملک دشمن قوتوں کی سازشیں، ملک کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی، جمہوریت کو ناکام کرنے کی کوششیں، اور مافیاؤں کا کھیل قرار دیتے ہیں اور گویا اپنی ذمہ داری پوری کر کے پھر اپنے ٹھنڈے کمرے کا رخ کرتے ہیں۔
میڈیا شور کرتا رہا کہا کہ اگر رینجرز اور پولیس فورسز “موہٹہ پیلس” سے بلالی جاتیں تو عباس ٹاؤن کے سانحہ کی شدت میں کچھ کمی ہوسکتی تھی لیکن شہر بھر کی فورسز ان وی آئی پیز مہمانوں کی حفاظت میں مشغول رہیں جو شرمیلا فاروقی کی رسم منگنی میں مدعو تھے کہ ان خاص مہمانوں کو کسی بدانتظامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہ ہوجائے۔ کوئي پٹاخہ نہ پھٹ جائے، تحفظ میں کمی نہ ہوجائے ان خاص الخاص لوگوں کے۔۔۔ ہم عام لوگ تو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ابھی مزید بھگتیں گے۔ کیونکہ حکومتی مشینری بےبس ہے مجرموں کے سامنے۔ سارا ملک حکومتی بے بسی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وزیر داخلہ فخریہ کہتے ہیں “انہیں سب علم ہوتا ہے”۔۔۔ پھر کس طرح بارود سے بھرے ٹرک حفاظتی چوکیوں سے گزر جاتے ہیں اور ہزارہ جیسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔۔۔
اسوقت کوئی فوج کوئی انتظامیہ کوئی خفیہ ایجنسی پھیلائی ہوئی نفرت کامقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔۔۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ موت تعاقب میں ہے۔۔۔ اور مادر وطن کی گود بھی پناه دینے کو تیار نہیں۔۔۔ جب لوگوں کو یہ احساس ہوجائے کہ مادر وطن کی گود انکے لئے جائے پناه نہیں ہے تو انکی یاسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان اس سماجی عنصر کے جان لیوا پڑاؤ پر ایک دن میں نہیں پہنچا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہماری بداعمالیاں، ووٹ کا غلط استعمال، نظریاتی بداعتدالیاں، لسانی عصبیتیں، غیر جمہوری طرز حکمرانی، عدم برداشت کے رویے ہمارے سفر کو اس لہو لہو پڑاؤ تک لے آئے۔
زندگی الله تبارک تعالی کا سب سے قیمتی تحفہ۔۔۔ لیکن جب موت خوف بنکر اس زندگی کے تعاقب میں نکل کھڑي ہو۔۔۔ گولی یا بم کا خوف لاشعور کا حصہ بن جائے۔۔۔ لوگ ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں رونق دیکھیں اور سڑکیں اور بازار سنسان اور قبرستان آباد ہونے لگے پھر انسان ہر لمحہ جیتا اور ہر لمحہ مرتا ہے۔۔۔ زندگی امید سے دور اور یاسیت سے قریب ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی ذہنی کیفیت نامعلوم خوف اور قلبی عذاب ہیں جن سے ہم من حیث القوم اس وقت دو چار ہیں جسکا گھر لٹ گیا، پیارے جدا کردیئے گئے اور کوئی پرسان حال نہیں انکو صبر کی تلقین کسطرح کی جائے! موت کے سائے میں یہ زندگی خوف کا منوں بوجھ اٹھائے ہوئے اور چشم فلک یہ سب منظر دیکھ رہا ہے اور گریہ کناں ہے کہ جو ملک قدرت نے تمہیں دیا تھا اسکا دفاع فرشتے کیونکر کرتے؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس خون کے دریا سے اب کب نیا پاکستان ابھرتا ہے۔۔۔
فیس بک تبصرے