1930تا1940کا عشرہ اُمت مسلمہ اور خاص کر برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اسی عشرے میں تحریک آزادی میں تیزی آئی اور اسی عشرے میں تحریک آزادی کے عظیم ہیرو حضرت علامہ اقبال ؒ جس نے اپنے شعرو شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اسی عشر ے میں زیارت کاکا صاحب کے مبارک سرزمین پر شاعر مشرق کے خوابوں کی عملی تعبیر اتحاد اُمت کے داعی معروف عالم دین مولانا عبد الرب کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہو جسکا نام حسین احمد رکھا گیا بے شمار صلاحیتوں کے مالک حسین احمد ابتدائی علوم کے بعد صوبہ سرحد کی معروف درسگا اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے اور یہاں سے رخت سفر باندھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے صالح قافلے کے راہی بنے توآہستہ آہستہ قافلہراہ حق میں داخل ہوکر دین اسلام کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ نام پورے ملک میں جانا پہچانا نام بن گیا اورآخر کار 1987میں قافلہ سخت جاں سید ابوعلیٰ مودودی ؒ کے جانشین منتخب ہوکر اراکین جماعت اسلامی پاکستان کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عہدکیا
’’کہ میں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیگی انکی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاطت کرونگا اور جماعت کے دستور کا پابنداور وفا دار رہونگا اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو وفا کرنے کے توفیق عطاء فرمائے آمین ــ‘‘ ۔
دور امارت میں جو عہد کیا اس عہد سے وفا کیا اور کمزوری کی وجہ سے مزید امارت سے معذرت کی۔
پچھلے سال کے آخرمیں کراچی جانے کا تفاق ہوا ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کہ کاروان انقلاب کے کڑے سفر کاتھکا مسافر پروفیسر عبد الغفور احمد صاحبؒ اپنے رب کو پیارے ہوگئے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں سیاسی و دینی رہنماوں سمیت لوگوں نے شرکت کی ان میں قاضی حسین احمدبیماری کو ٹال کر شریک تھے جنازے پر یہ الفاظ ادا کئے کہ ہم بھی بہت جلد آپ سے ملنے والے ہے قاضی حسین احمد نے اپنے اس ہمسفر انقلاب کے جنازے کو کندھا دیکر اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا لیکن کیا معلوم تھاکہ یہ کندھا دینے والے کو بھی جلد سید منورحسن ،لیاقت بلوچ اور سراج الحق سمیت کئی شخصیات کندھا دیکر رخصت کررہے ہونگے۔
2012ایک طرف تو مایوسی نااُمیدی اور خونی رقص کے ساتھ تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑا مذہبی جمہوری جماعت جماعت اسلامی کے عظیم رہنما کی زندگی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا2013شروع ہوا ہر شخص دامن اُمید پھیلائے ہوئے تھا لیکن اسی سال نے اپنے پانچ دن پورے کئے تو چھٹے دن کے آغاز کے چند منٹوں پہ اُمت مسلمہ اور پاکستان اس عظیم ہستی سے محروم ہو گیا جس کا ہر لمحہ تگ ودو اسلامی انقلاب جس کا ہر لفظ ملی یکجہتی اور اتحاد اُمت تھا چھ جنوری کو جس سے بے پناہ پیار کیا اُسی کو پیارے ہوگئی دنیا کہ اس چمن میں تاقیامت ان کی دیداور کمی محسوس ہوگی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا
پشاور موٹروے چوک سے ملحقہ گراونڈ میں چھ جنوری کے صبح ہی سے اس دیدا ور کے دیدارکے لئے لوگ جمع ہورہے تھے لوگ اس فرشتہ صفت انسان کے جانے اور عالم اسلام اس عظیم نور سے محروم ہونے پر نوحہ کناں تھے ۔ سوشل میڈیا پر عالم اسلام سمیت عالم مغرب بھی انکی جدائی پر دلی صدمے کا اظہار کررہا تھا۔ مجھے محمد بن قاسم یاد آیاجب ابن قاسم کے جانے پر وہاں کے غیر مسلم اتنا غمزدہ تھے کے اس کی شکل کے مجسمے بنا کر اس کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔ آج سوشل میڈیا پر غیر مسلوں کا قاضی بابا کی جدائی پر دکھ اور غم کا اظہار کرنا محمد بن قاسم کا دور ہمیں دوبارا یاد دلا رہا ہے۔
قاضی بابا کے جنازے میں ایک طرف مختلف دینی وسیاسی راہنما قاضی بابا کی جدائی پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کرتے رہے تو دوسری طرف جنازے کے ارد گرد جمع ہوئے لوگ روحانی اور شفیق باپ کی جدائی پر آنسوں بہاتے ہوئے ہم بیٹے کس کے۔۔قاضی کے، ہم دست بازو کس کے۔۔ قاضی کے نعروں سے اس گہرے صدمے کو کم کرنے کوشش کررہے تھے لیکن یہ ہنستا مسکراتا روحانی چہرہ اپنے رب سے جلد ملاقات کا منتظر تھا۔ سیاست دان اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے تھے ۔قاضی حسین احمد کے تر بیت یافتہ جانشین سید منور حسن نے نماز جنازہ پڑائی نماز جنازہ کے بعد لوگ اس عظیم قائد کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ لیکن پشاور کے رنگ روڈ چوک سے ملحقہ گراونڈ میں لاکھوں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے ۔آج لاکھوں لوگ کھڑے تھے ۔ایک ایسا جم غفیر نظر آتاہے کے جس میں شرکاء کی اکثریت کو قاضی بابا کے جنازے کو کندھا دینے کے سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ جنازہ الخدمت فاونڈیشن کی ایمبولنس میں لے جایا جارہاتھا مسلسل نعرے لگتے رہے تھے کہ ہم دست وبازو ہم بیٹے کس کے قاضی کے نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے رنگ روڈ سے ملحقہ یہ گراونڈ مسلسل گونجھتا رہا یہ پروانے بے قابو نعرے لگاتے رہے کہ شائد ہمارے اس روحانی اور شفیق باپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آئے گا اور ایک خوبصورت اورمشفقانہ تبسم میں کہے گا:
میرے بیٹوں میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کا جی نہیں چاہتا، آپ کا بھی جی نہیں چاہتا لیکن انشاء اللہ اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں سب سے ملاقات ہوگی۔
حقیقت میں آج ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے ہیں کہ ہر پاکستانی پر اس شخصیت کے اسلام دوستی اور وطن سے محبت کی حقیقت اب وضح ہورہی ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ بیت اللہ سمیت ہر بر اعظم میں لاکھوں لوگ اللہ رب العالمٰین کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے رہے تھے کے اے اللہ آپکا یہ بندا قاضی حسین احمد سچا بندا تھا ۔تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہو ںکہ ہم نے اس اسلام پسند شخصیت کو دنیاوی زندگی میں کیوں نہ پہچان لیا یا اگر پہچان لیا تھا تو اپنا اختیار اس امانت دار کے ہاتھوں میں کیوں نہیں دیا ؟
اس تاچراتی مضمون پر کوئی تبصرہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ یقینا اس کو پڑھ کر آ نسو جب گر تے ہیں تو کچھ کہنے اور لکھنے کا یارا نہیں رہتا۔ اس خلا کو نہ دل قبول کر تا ہے ۔ لیکن اپنی جدائی کی تسلی تو وہ خود یہ کہہ کر دے گئے کہ جنت مٰیں ملا قات ہو گی تو پھر کیسا رونا ؟ بس جنت کے حصؤل کی کو شش جاری رکھیں ۔ یہ ہی ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی!
انشاءاللہ