کئی سالوں کی تلاش کے بعد بالآخر میں نے اپنے دشمن کو ڈھونڈلیا۔۔۔ جس دشمن کے باعث میں نے اپنی اور کئی لوگوں کی زندگی‘ دنیا و آخرت تباہ کردی‘ وہ میرے سامنے تھا۔ آج میں نے تمام خو ف و خطر کو بالائے طاق رکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنی تھی۔ وہ مجھے اب بھی بولنے سے روک رہا تھا لیکن اس بار میں ڈٹ گیا۔۔۔ میں نے اُس سے کہا تم نے مجھے حقوق کا جھانسا دے کر نہ صرف مجھے اپنے فرائض سے غافل کیا بلکہ اس کے ہاتھوں میں نے کئی لوگوں کے حقوق بھی پامال کیے جب کہا گیا کہ جاگیردار‘ سرمایہ دار اور ایجنسیاں تمہارے دشمن ہیں تو تمہارے کہنے پر میں نے بغیر تحقیق کے تسلیم کرلیا۔ پھر تعصب کی آگ لگائی گئی‘ پنجاب کو میرا دشمن بتایا گیا اور تمہارے کہنے پر میں نے مان بھی لیا۔ وقت گزرا سندھی دشمن وہ بھی مان لیا‘ بعد میں انکشاف ہوا سندھی تو میرے بھائی ہیں اصل دشمن تو پٹھان ہیں میں نے اپنی توپوں کے رخ پٹھانوں کی طرف موڑ لیے۔۔۔ ان کا معاشی بائیکاٹ کیا‘ ان کے املاک کو نقصان پہنچایا اور اس دشمنی کی نذر اپنے بھی کئی بھائیوں کو کردیا۔ وہ بھی تمہارے کہنے پر۔۔۔ کبھی تم نے اپنوں کو غدار قرار دیا اور پھر وفادار۔۔۔ میں نے ہمیشہ کی طرح سوال نہیں کیا۔
پھر وسیع تر قومی مفاد میں مفاہمتی پالیسی کے تحت باور کرایا گیا کہ تمہارے سابقہ دشمن جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ جرنیل‘ پٹھان‘ سندھی‘ پنجابی تمہارے بھائی ہیں۔۔۔ تمہارے کہنے پر میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ سابقہ دشمنی کی بھینٹ 35 ہزار سے زائد میرے بھائی ماورائے عدالت قتل اور ٹارگٹ کلنک کا شکار ہوچکے ہیں ان کا حساب کون دے گا؟ میں بھی وسیع تر قومی مفاد میں خاموش رہا۔لیکن ہر مرتبہ کی طرح اس دور اقتدار میں بھی حقوق سے محروم رہا۔
تم نے میرا نیا دشمن بھتا مافیا کو بتایا۔۔۔ لیکن پرچی لانے والے کا شمار شناسائی کے باوجود بھی بلوچوں اور طالبان میں کرتا رہا۔۔۔ پارکوں پر قابض مکیں اپنوں ہی کے چہرے دیکھ کر بھی دشمن لینڈ مافیا کو قرار دیتا رہا۔۔۔ بچپن ہی سے گلیوں میں دندناتے مسلح افراد کانا‘ لنگڑا‘چریا‘ہڈی کو دیکھنے کے باوجود بھی میں ٹارگٹ کلنک کا ذمہ دار کسی کو قرار دیتا رہا۔ بالآخر مجھے بلوچوں سے لڑوا دیا گیا… اور میں لڑتا رہا اور آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ کر میں نے بلوچوں کو اپنا دشمن تسلیم کرلیا۔
مجھ سے کہا حکومت نااہل ہے اس کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ میں نے حمایت کردی پھر وسیع تر قومی مفاد میں حکومت میں شمولیت…یہ ڈراما بھی کئی بار چلایا گیا تمہارے کہنے پر ہر بار میں اپنے دلائل بدلتا رہا… یہ وسیع تر قومی مفاد کیا ہے؟ تم نے کبھی بتایا نہیں صرف خاموش رہنے کا اشارہ کرتے رہے پھر ملک میں تباہی کے ذمہ دار طالبان کو کہا گیا۔۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث طالبان کو قرار دیا گیا اور ہم نے طالبان کی مخالفت میں مظاہرے کیے‘ گلیوں میں بیریئر لگادیے‘ چوکیداری نظام رائج کردیا لیکن قتل و غارت بند ہونے کے بجائے بڑھتی رہی۔ میں نے جب بھی نہیں پوچھا لیکن آج جب براہ راست سامراجی قوتیں اسلام کو نشانہ بنانے پر تلی ہیں۔۔۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔۔۔ معصوم بچوں‘ عورتوں کو ہلاک کیا جارہا ہی اور تم سامراجی قوتوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے ان کے آلۂ کار بن کر فرقہ واریت کی آگ کو مزید ہوا دے رہے ہو۔۔۔ تم اب بھی مجھے وسیع تر قومی مفاد میں خاموش رہنے کا کہہ رہے ہو۔
میں تعصب کے نشے میں اندھا تو ہوسکتا ہوں لیکن بے دین نہیں ہوسکتا۔۔۔ اب بہت ہوچکا میں مزید اندھیرے میں نہیں رہ سکتا… میں تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر اپنی اور کئی لوگوں کی زندگی برباد کرچکا ہوں لیکن اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ یہ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔آج میں اپنا دشمن پہچان چکا ہوں… آج سے میں آزاد ہوں۔۔۔
اس سے پہلے کہ دشمن اپنی صفائی میں کچھ بولتا میں نے آئنہ توڑ دیا۔۔۔
دل کو چھونے والی تحریر ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنان کے لئے موقع ہے کہ وہ سیاہ کر توتوں والوں سے پیچھا چھڑائیں ورنہ جرائم کی دلدل میں دھنسنے میں دنیا ہی نہیں آ خرت بھی بر باد ہونے کا خطرہ ہے
صرف ایم کیو ایم کے کارکنان ہی نہیں سب کو ضرورت ہے. اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو نصیھتیں کرتے کرتے ہمارے اپنے دل تنگ ہوجاتے ہیں 🙂
اس سے پہلے کہ دشمن اپنی صفائی میں کچھ بولتا میں نے آئنہ توڑ دیا۔۔۔
بہت خوب سرفراز شیخ ہم ہی دشمن ہیں.
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں . سورة النحل
میں نے آئنہ توڑ دیا…. شاندار ہے.