’’ میڈیا تو بھوت بن گیا ہے ! ‘‘
’’بھئی اب تو کچھ نہیں ہو سکتا !!! ‘‘
’’ کیا ہم اور کیا ہما ری اوقات؟ ‘‘
’’ آپ یہ کیو ں نہیں کر تے ؟‘‘
’’ آپ کو یہ بھی نہیں آ تا۔۔۔۔‘‘
’’آ پ یہ کر ہی نہیں سکتے؟؟‘‘
’’ ہم بے وسیلہ اس ٹیکنا لو جی کا بھلا مقا بلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘
’’no comparision!‘‘
یہ اور اس طرح کے درجنو ں جملے ہم رو زانہ سنتے اور دہرا تے ہیں اور یہ سب کچھ کہنے وا لے ہر گز لبرلز یا پھر دشمنا ن اسلام نہیں ہو تے بلکہ مخلص اور درد مند لو گو ں کی را ئے ہوتی ہے۔ لوگوں کے ان تبصروں، مشوروں اور تجزیو ں پر مایو س ہونے اور شرمندہ ہونے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہ سوالات اور خیالات تومعرکہ بدر سے پہلے بھی تھے! 13 سالہ جدو جہد کے بعد محض 313کی مٹھی بھر تعداد نبیﷺ کے ساتھ تھی۔ تو کیا اسکا بپا ہو نا انسا نی وسا ئل اور ارادے سے ممکن تھا؟ غزوہ تبوک میں کیا حال تھا؟کلیجے منہ کو آ رہے تھے! فتح مکہ کے بعد بھی معرکے گرم رہے۔ اور یہ تو ہمیشہ سے ہے! سنت انبیاء ہے! موسٰی ؑ کس بے سرو سامانی میں فرعون کے دربا ر میں بھیجے گئے تھے ! نہتے حق کی مدداﷲکے حکم سے فرشتو ں کے ذریعے ہوتی رہی ہے مگر پہلے جرآت اور مستقل مزا جی کا کوڈ لگا نا پڑتا ہے!!
کہنے والوں کا اصرار ہے کہ اب تو ٹیکنالوجی کا دورہے! ان چیلنجز کا سامنا کرنا آسان ہے بھلا؟ گویا یہ مفروضہ درست ہے کہ ٹیکنالوجی کے بغیر انقلاب ناممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی چیز ہے؟ جی نہیں !فرعون کے دربار میں یہ ٹیکنالوجی جادوگری تھی تو مکہ میں گانے بجانے والی سحر انگیزلونڈیاں! اور آج کے معا شرے میں انٹر نیٹ وغیرہ وغیرہ ہماری آ نکھیں خیرہ کیے دے رہا ہے! یہ سب دراصل فریب نظر ہے! پروپیگنڈہ ہے! جھاگ ہے ! مگریہ سب مسحور کر نے وا لی چیزیں ہماری راہ کا پتھر بن جاتی ہیں اور ہم مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ مایوسی جو کفرہے! شیطان کا حربہ ہے! اور ہم اس کا شکار ہوتے ہیں!
تو پھر کیا کریں؟ سب سے پہلے تو اپنی اس سوچ کو درست کرنے کی ضرو رت ہے کہ ٹیکنالوجی ہی سب کچھ ہے۔ دلیل کے طور پر ٹائپ رائٹر کی مثال لیں۔ 1867ء میں امریکہ میں ہونے والی اس ایجاد نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا پرحکمرانی قائم کرلی اور جسے محض ساٹھ سال قبل بھارتی آزادی اور صنعتی انقلاب کاروح رواں قرار دیا گیا تھا۔ مگرکمپیوٹر کے انقلاب نے اس عظیم الشان ایجاد کی ضرورت کو کم کرتے کرتے بالآخر میو زیم کا حصہ بنادیا۔ جی ہاں! چند روز قبل(اپریل 2011 ء) ممبئی میں ٹائپ رائٹرز بنانے کی دنیا کی آخری کمپنی بھی بندہو گئی۔
انٹرنیٹ جو پچھلے بیس سال پہلے ہمارے معا شروں میں دا خل ہوا اور محض دس ، پندرہ سال پہلے عام آدمی کی رسائی میں آیا اور ایسا چھایا کہ ٹائپ رائٹر کو میوزیم کی زینت بنادیا۔ کیا خیال ہے اگر کل کمپیوٹرزبھی متروک ہوگئے تو کیا نظریہ ختم؟ معرکہ حق و باطل بھی ناپید ہوجائے گا؟
جی نہیں اصل چیز نظریہ ہے اور بنیادی ہتھیار قلم اور کاغذ ہی ہے!
آج کی ٹیکنالوجی انٹرنیٹ ہے۔ کل کچھ اور ہوسکتا ہے مگر جو چیز زندہ ہے وہ نظریہ ہے! جو کبھی متروک نہیں ہوتا! نظریہ جو الفاظ سے بنتا ہے اور لفظ جو قلم سے تحریر کیا جاتاہے! تو بس اگر آپ کے پا س درد ہے تو اسے نظریے میں ڈھالیں۔ پہلے اپنے اندر سوز پیدا کریں اوراپنے خیالات painstaking لے کر تخلیق کے مر حلے سے گزاریں ! (یہ اتنا آ سان کام نہیں ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں !کسی بھی معا ملے پر اظہا ر رائے کرنااور بات ہے! کیے ہوئے کا م پر تنقید بھی چنداں مشکل نہیں! مگر کرب سے گزر کر کچھ تخلیق کر نا وہی سمجھ سکتا ہے جو اس راہ سے گزرے)۔
الفا ظ کے پھول چن کر تحریر کو گلدستے کی صو رت میں تر تیب دیں اور مختصر ہی سہی کچھ پیش کریں، اس بات سے پریشان ہوئے بغیر کہ اس کو پڑھنے والے چند ہی لوگ ہوں گے۔ اگر وہ وا قعی متاثر کن ہوئی تو خود بخود اس کو پر لگ جائیں گے!! جی ہاں اگر آپ کی تحریر جان داراور با مقصد ہو ئی تو وہ آن لائن ہو کر لاکھوں لوگوں تک پہنچ جائے گی۔ کسی operator کی ایک کلک سے keyboard اور mouse کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچ کر کروڑوں کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے! جی ہاں! ٹیکنالوجی کا کام یہاں سے شروع ہوتاہے۔ پہلے بنیادیں تو ڈالیں پھر تعمیر ہوتا دیکھیں خیالوں کے محل کو! بیج سے پھل تک کے سفرمیں کو ئی شارٹ کٹ نہیں! ہا ں ٹیکنالوجی سے پیدا وار میں اضافہ ضرور ممکن ہے! بارش کے قطرے سے موتی یونہی نہیں بن جاتا۔ آپ نے دیکھا کس طرح نظریہ کا ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے؟ صرف ٹیکنالوجی بھلا کیا پھیلا سکتی ہے؟محض بے لگام تفریح، بے حساب رابطے! خبروں کے نام پر پروپیگنڈہ! اور دوسری طرف اپنے خیالات اپنے ساتھ لے کر قبر میں جانے سے بہتر ہے کہ اسے تحریرکے قالب میں ڈھال کر ٹیکنالوجی پر سوار کروادیں اور پھر دیکھیں اس کی پر واز!
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ٹیکنالوجی کا حصول کوئی غلط بات ہے بلکہ صرف اسی پرتکیہ کرنا مناسب نہیں۔ اگر ہمارے پاس ہے تو اس کی قدر دانی اس کے بہتر اور درست استعمال کے ذریعے ہو اور اگر نہیں ہے تو بھی صاحب قلم کو رکنا نہیں ہے اس کے انتظار میں! اب نیا سوال کہ صاحب قلم کون ذات گرامی ہے؟ جی یہ ہم اور آپ ہیں! جی ہاں جب آپ نے یہ تحریر پڑھنی شروع کی تھی تو کیاسوچ کر کی تھی؟ محض وقت گزارنے کے لیے یا پھر دوسروں کو سمجھانے کے لیے؟ دوسروں کو بتانے کے لیے خود بھی عمل ضرو ری ہے! اور بات میں تاثیر بھی جبھی پیدا ہوتی ہے جب وہ عمل کے قالب میں ڈھلے! لہذا قلم اٹھا ئیں اور کام شروع کریں۔ ہم نے تو پہلے ہی کردیا ہے اس کالم کی شکل میں!
ہاں ایک اہم ترین بات جس پریشانی سے اس مضمون کا آ غاز ہوا تھاوہ تو ادھو ری رہ گئی! میڈیا کی اس یلغار میں کس طرح اور کیسے کام ہو؟ میڈیا تو معلومات کا بہترین ذریعہ ہے مگر ہم اس سے کیسے فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اس کے لیے اپنے لحا ظ سے اصول طے کرنے ہیں جو کچھ یوں ہو سکتے ہیں:
RMATION INFO یعنی INFOہے اسے ہم تین I کے ذریعے کنٹرول کر سکتے ہیں :
IGNORE (1 نہیں کر نا ہے۔ خبر ہو یا وا قعہ ! معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا بلکہ اس کے مقابلے پر اپنی بات کہنی ہے۔
INSPIRE (2نہیں ہونا ہے۔ دوسری تہذیب ہو یا انسان دوستی کا پرو پیگنڈا! مجھے متا ثر نہیں ہو نا ہے ۔
INTEREST(3 نہیں لینی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اسکے نشے کا عادی ہو جا ئوں !اس جھا گ میں نہیں بہنا جو محض لذت کے لیے اس ٹیکنا لوجی کا استعمال کررہے ہیں۔
بلکہ ایک اور I استعمال کر ناہے ۔ جی ہا ں ! INTERPRETE کرناہے ۔جبھی ہم سمندر سے موتی حا صل کر سکتے ہیں
ہو سکتا ہے آپ کے پاس کچھ بہتر اصول ہو ں تو قلم اٹھا ئیے ، شئیر کیجئے اور لوگوں کو مشکل سے آ سانی فرا ہم کیجئے
اور ساتھ ساتھ یہ دعا ہمیں نہیں بھو لنا چاہئیے اے اﷲ! چیزو ں کو ایسا دکھا جیسی وہ حقیقت میں ہیں۔
دو سال قبل ایک ادبی محفل میں یہ نکات میں نے رکھے تھے ان کو تحریر کی شکل دی تو اچھا خاصہ کالم بن گیا ۔خیال آ یا کیوں نہ قلم کارواں کے قارئیں سے شئیر کیا جائے ۔امید ہے کہ اس تحریر پر ضرور سوچ پیدا ہو گی۔
well said may Allah helps us to bring the real revolution
اللہم انصر من نصر دین محمد ﷺ واجعلنا منہم واخذل من خذل دین محمدﷺ ولا تجعلنا منہم