سال 2012ء اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا روشنیوں کے شہر میں کرسمس اور ہیپی نیو ایئر کی تقریبات اپنے عروج پر تھیں مسز عامر کی جوان پوتیاں بھی کسی ایسی ہی تقریب میں شرکت کی تیاریاں کررہی تھیں۔ جو لباس انہوں نے پہن رکھے تھے انہیں دیکھ کر مسز عامر کے دل میں ہُوک سی اٹھنے لگی، وہ انہیں روکنا چاہتی تھیں، انہیں منع کرنا چاہتی تھیں کہ ایسا لباس مت پہنو، جس سے جسم کے تمام خدوخال نمایاں ہوں مگر وہ انہیں روک نہیں سکتی تھیں اور روکتیں بھی کیسے! بقول ان کی پوتیوں کے وہ ان کی خواہشات اور ان کی پسند کے درمیان بولنے کا کوئی حق نہیں رکھتیں۔
مسز عامر ان حالات میں بہت دکھی ہو جاتیں اور جب یہ سوچتیں کہ ان تمام حالات کی ذمہ دار وہ خود ہیں تو ان کا دکھ اپنے عروج پر پہنچ جاتا اور وہ دبی آواز میں سہمی سہمی سسکیوں کے ساتھ رونے لگتیں، ایسے لمحوں میں ان کے بہتے ہوئے آنسو بھی اُس افسوس اور پیشمانی کی آگ کو بجھا نہیں پاتے جو ان کے دل میں بھرک اٹھتی تھی اور تو اور ضمیر کی طرف سے آنے والی لعنت و ملامت کی تیز ہوائیں اس آگ کو اور بہت دور تک پھیلا دیتیں۔وہ اس آگ کوبجھاناچاہتی تھیں، لوگوں کو بتانا چاہتی تھیں کہ یہ آگ کیسے لگی، وہ بتانا چاہتی تھیں کہ وہ آسمان سے منہ کے بل زمین پر کیسےگریں مگر! انہیں سنتا کون؟ کون ان کے پاس بیٹھتا؟ کسی کو فرصت نہیں تھی سب اپنی اپنی فراغت میں مصروف تھے سچ تو یہ ہے کہ صبح سے شام تک گھر میں رہنے کے باوجود مسز عامر گھر کے کسی بھی فرد کے آنے جانے کے اوقات سے آگاہ نہیں تھیں۔بہو، پوتے اور پوتیاں تو درکنار انہیں اپنے بیٹے ہی کے آنے جانے کا صحیح وقت معلوم نہیں تھا تو وہ اور کسی سے کیا کہتیں۔
مہینوں بعدکبھی ایک دو دفعہ بیٹے سے سامنا ہوبھی جاتا تو وہ ہیلو ہائے کرکے اپنی بے پناہ مصروفیات میں مصروف ہوجاتا۔ حسبِ معمول آج بھی صبح سے کسی کی خبر نہیں تھی شام ہوئی تو جوان پوتیوں کی چہکار سے ذرا دیر کو یہ محسوس ہوا کہ اس سجے سجائے کھنڈر میں لوگ بھی رہتے ہیں مگرچندگھنٹوں بعدبالشت بھر اسکرٹس اور گندمی جسموں سے حشرانگیزطورپر چمٹے ہوئے سنہرے ٹراؤزرز میں ملبوس پوتیاں اپنی نمائش کروانے جا چکیں تو گھرمیں پھر سے اُلوّ بولنے لگے۔
مسزعامر کا اس طرح کی صورتحال سے اکثرسامنا ہوتا تھاکبھی بسنت توکبھی ویلنٹائن ڈے غرض یہ کہ اس طرح کے متعددغیرمذہبی اورفضول موقعوں پر،مگر آج نجانے کیوں طبیعت میں اک عجیب سی بے قراری تھی ایسا لگتا تھا کہ برسوں سے دل کے آتش فشاں میں پلنے والا، لاوا آج ابل پڑے گا اور ہوا بھی یہی… جانے کیا سوچ کر مسز عامر نے لرزتے ہاتھوں میں پکڑی لاٹھی کی مدد سے خود کو کھڑا کیا اور دو قدم کا فاصلہ دس قدموں میں طے کرتے ہوئے ڈراز تک آئیں، ڈراز سے ڈائری اور پین لینے کے بعد واپس پلنگ پر آبیٹھیں… کتنے برسوں بعد آج انہوں نے کچھ لکھنے کی غرض سے ڈائری کھولی تھی، مصنوعی عدسوں کی آنکھ اپنی ناک پر ٹکاتے ہوئے انہوں نے لکھنا شروع کیا…
24 دسمبر،رات 10 بجے
آج اس پرفتن دور میں کہ جب میرے پوتے، پوتیاں اپنی جوانی کے بھرپور دور سے گزر رہے ہیں ہم بڑھاپے کی آخری سیڑھیوں پر کھڑے ہیں ،ہم سے مراد وہ لوگ جو آج سے تقریباً 60 یا 65 سال پہلے میرے پوتے پوتیوں کی طرح اپنی عمر کے سترہویں اٹھارویں سال میں زندگی گزار رہے تھے، اس وقت کے حالات آج جیسے نہیں تھے معاشرہ، معاشرہ تھا عورت عزّت و تعظیم کی علامت اور وجاہت و بہادری مرد کی شناخت ہوا کرتی تھی مگر پھر کسی نے ہمارے معاشرے پر ضرب کاری شروع کی۔ نجانے انہیں کیسے پتہ چل گیا کہ مسلم معاشرے کی عمارت میں عورت ستون کی حیثیت رکھتی ہے، اسے گرا دیا جائے تو معاشرہ خود بخود تباہ ہو جائے گا کیونکہ عورت ہی عورت پیدا کرتی ہے اور اُس مرد کو بھی کہ جو معاشرے میں باپ، بیٹا، بھائی اور شوہر کی حیثیت سے رہتا ہے… مرد کے تمام روپ عورت کی کوکھ میں بنتے اور عورت کی گود میں پروان چڑھتے ہیں بس یہی کچھ سوچ کر دشمنوں نے ہماری عورت کی لگام پکڑی اور اسے معصومیت کی راہ سے ہٹا کر مظلومیت کی راہ پر ڈال دیا، اس میں بے معنی سا احساس پیدا کر دیا کہ عورتو..! تم مظلوم ہو، تمہیں چاردیواری کی قید میں رکھا جاتا ہے، بس اسی احساس نے ہماری پردے کی پابند عورت کو خواہشات کی زنجیر میں جکڑ کر آزادیٔ نسواں کی سولی پر چڑھا دیا، وہ اپنی آزادی اور اپنی خواہشات کیلئے چیخنے لگی ، شرم و حیا کی چادر کو اس نے ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اتار پھینکا حالانکہ وہ ترقی کر سکتی تھی پردے میں رہتے ہوئے بھی چار دیواری کے اندر بھی مگر اس کے ذہن میں یہ بات پختگی سے بٹھا دی گئی کہ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے سرکا ڈوپٹہ گلے میں ڈالنا ضروری ہے بلکہ بہت بہتر ہے کہ اتار پھینکا جائے۔ وہ عورت جس کا حق تھا کہ جائز باتوں میں اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے اس کے سامنے تیز آواز میں بولنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگی۔ اس میں قصور کس کا تھا… ؟ اس میں قصور آزادیٔ نسواں کی طرفدار اُن ماؤں کا تھا کہ جو اپنی بیٹیوں کو وقتِ رخصت سسرال والوں کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری کی نصیحت کرنے کے بجائے یہ کہتیں کہ ’’اپنا خیال رکھنا ، کسی سے دب کر یا کسی کی ڈانٹ سن کر اپنا دل مت جلانا‘‘ اس میں قصور ان باپ اور بھائیوں کا بھی تھا کہ جو اپنی بیٹی بہنوں کو بجائے یہ کہنے کے کہ ’’اب تمہھارا سسرال ہی تمہارا گھر ہے اور تمہارا جینا مرنا اب اسی گھر کیلئے ہے ‘‘ یہ حوصلہ دیا کہ ’’فکر مت کرو، پریشان مت ہو، اگر کچھ ہوا تو ہم ہی ناں ، دیکھ لیں گے…‘‘
عورت کو کس نے بگاڑا …؟ عورت خود نہیں بگڑی… میں سمجھتی ہوں کہ عورت کو عورت نے کم اور مرد نے زیادہ بگاڑا ہے کہیں اس کے حقوق دبا کر اور کہیں اس کے حقوق سے زیادہ حق دے کر… نپولین نے کہا تھا ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دونگا‘‘ مگر ہم نے اپنی بیٹیوں کو اچھی بیوی یا اچھی ماں بنانے کے بجائے خود سر عورت بنا دیا اس کے ذہن میں صرف اس کے اپنے حقوق کا نقش رہ گیا اور اس نے باقی تمام حقوق فراموش کر دیے، عورت اتنی خود سر ہوگئی کہ ہر فیصلہ خود کرنے لگی، اسے یہ پتا ہی نہیں چل سکا کہ جسے وہ ترقی اور عورت کی آزادی سمجھ رہی ہے وہ ایک دیمک ہے جو اس کی بنیادوں کو چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہے۔
میں بھی تو اسی دور میں جوان ہوئی تھی کہ جب آزادیٔ نسواں کہ نعرے فضاؤں میں بلند ہو رہے تھے… نعرے کون لگا رہا تھا..؟ عورتیں لگا رہی تھیں اور انہیں میں میَں بھی کہیں نہ کہیں شامل تھی… وہ عورت جسے حکم ہے کہ ’’آہستہ بات کرو! کہیں کوئی تمہاری آوازغیر محرموں تک نہ پہنچ جائے‘‘ چیخنے لگی… چلاّنے لگی اسے اس وقت بہت اچھا لگا کہ وہ اپنے حقوق کیلئے لڑ رہی ہے مگر اسے خبر نہیں تھی کہ اس کی چیخوں کی ضرب کاری سے عزت کا وہ مینارہ زمیں بوس ہو جائے گا جسے لوگ ’’عورت‘‘ کہتے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ وہ عیّاش مرد جنھیں عورتوں کے ننگے سر، چمکتی گردنیں، جوانی کی اُمنگوں سے بھرے ہوئے سینے اور سڑکوں پر پردے سے آزاد پھرنے والی عورتوں کے نمایاں جسم دیکھنے کا شوق تھا بخوشی آزادیٔ نسواں کہ قائل ہوگئے، انہوں نے عورت کو شرم و حیاء کی قید سے آزاد کر دیا، شروع شروع میں یہ وباء ’’اسٹینڈرڈ‘‘ کے لوگوں میں پھیلی اور پھر بیماری کی طرح نچلے طبقوں تک پھیلتی چلی گئی۔ نئے نئے جوان ہونے والوں کو بھی یہ بہت اچھا لگا کہ جنسِ مخالف اس کے شانوں سے شانہ ملا کر چلے انہوں نے بھی عورت کی آزادی کے حق میں ووٹ دیے اور دیتے کیوں نہ ! اگر عورت آزاد نہیں ہوتی تو ان کی جوانیاں رنگین کیسے ہوتیں…؟
اس وقت میں بھی اس بات کی قائل تھی کہ عورت کو گھر میں قید نہیں رہنا چاہیے، اسے بھی وہ تمام کام کرنے چاہئیں جو مرد کرتے ہیں… واقعی کرنے چاہئیں تھے مگر ایسے نہیں جیسے کہ ہم نے کیے… ہمیں مردوں کے شانہ بشانہ ایسے چلنا چاہیےتھا کہ جیسے تاریخ کے اوراقوں میں ہماری اسلاف کی عورتوں نے چل کر دکھایا۔
میرے امی ابو اس چیز کے خلاف تھے کہ میں بے پردہ گھر سے باہر جاؤں… مگر میں کہاں مانتی تھی… مجھ پر تو بے معنی سی آزادی کا دھن سوار تھا، اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ واقعی عورت چھپی ہوئی چیز کا نام ہے، شرم و حیاء کا نام ہے اگر عورت شرم و حیاء کا لبادہ اتار دے تو عورت، عورت نہیں رہتی ایک اشتہار بن جاتی ہے جسے ہر آنے جانے والا شخص پڑھتا رہتا ہے… میں نے اپنے آپ کو آزاد کروالیا تھا۔ میں گھر میں کم اور باہر زیادہ رہتی، تحریک آزادیٔ نسواں کے فروغ کیلئے میں نے دن رات ایک کر دیا۔ امی ابو پریشان ہوئے تو انہوں نے ایک حل نکالا اور میری شادی طے کر دی جس کیلئے میں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ میرا موقف تھا کہ عورت کو اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی آزاد ہونا چاہیے… اسلام بھی یہی کہتا ہے پر اُس وقت میری نیّت کچھ اور تھی… نام نہاد آزادی کے جنون نے مجھے اندھا کر دیا، ماں باپ کی محبتیں بھی مجھے قید لگنے لگیں… ان کی نصیحتیں مجھے اپنے پاؤں کی بیڑیاں معلوم ہوتیں… بالآخر انہوں نے میری ضد اور مرضی کے مطابق میری شادی عامر سے کر دی… عامر میرا کلاس فیلو تھا۔ تھا تو بہت اچھا مگر میں نے اس کی قدر نہیں کی کیونکہ شادی کے بعد دوسرے مردوں کی طرح اس نے بھی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا، مجھے آزادیٔ نسواں کی تنظیمی سرگرمیوں سے روکنے لگا… اس کی خواہش تھی کہ میں گھر کو وقت دوں… گھرسنبھالوں… میں نے اس سے کہا میں تمہاری باندی یا نوکرانی نہیں ہوں جو صرف تمہارا گھر ہی سنبھالتی رہوں… وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا۔
اپنی ان غلط کاریوں کو اب میں سوچتی ہوں تو اپنے آپ سے شرم آنے لگتی ہے کہ واقعی اس کا گھر میرا گھر بھی تو تھا، اگر اس وقت میں اپنا گھر سنبال لیتی تو آج مجھے سنبھالنے والے ہوتے، مگر اس وقت تو میں نے اپنے آپ کو سنبھالا لیکن! اب میں اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتی اور نہ ہی مجھے کوئی سنبھالنے والا ہے… ہوگا بھی کیوں میں تو ہمیشہ یہی کہتی رہی تھی کہ میں خود کو سنبھال سکتی ہوں مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں… بلکہ کسی بھی عورت کو سہارا درکار نہیں ہوتا … اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی گزار سکے۔ عامر کے سمجھانے کے باوجود میں اپنی ڈگر پر رہی۔ جب میرے بچے بچپن سے لڑکپن میں داخل ہونے لگے تو میری لاپرواہی اور میرے غم نے عامر کو کوئے عدم کا مسافر کر دیا، اس کے مرنے کے بعد بھی میں اسی عورت کا حوصلہ بڑھانے میں مصروف رہی کہ جو اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گرنے جا رہی تھی۔ پلک جھپکتے دن گزرنے لگے اور میرے بچے بڑے ہوگئے کسی ایسے درخت کی ٹیڑھی میڑھی شاخوں کی طرح کہ جسے کبھی تراشا نہ گیا ہو، بچیاں بڑی ہوئیں تو وہ مجھ سے بھی کہیں زیادہ آزاد خیال نکلیں مجھے انہیں بتانا ہی نہیں پڑا کہ انہیں اس معاشرے میں کیسے جینا ہے مجھے دیکھ دیکھ کر وہ بھی بیباک ہوگئی تھیں۔
مجھے اب شرمندگی ہوتی ہے کہ میں نے انہیں آزادی بھی دی، انہیں بہادر بھی بنا دیا مگر ان میں نسوانیت پیدانہیں کرسکی اور کرتی بھی کیسے میں نے کسی کی نصیحت پر کان ہی کب دھرے تھے، میں نے کسی کی صحیح بات اپنے ذہن میں رکھی ہی کب تھی جو اُن میں منتقل کرتی ، وہ بھی میری طرح مردوں جیسی زندگی گزار رہی تھیں۔ مجھے اپنا آپ فنا ہوجانے کے بعد اب یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو نسوانیت کے زیور سے آراستہ نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی کیونکہ عورت کی شرم وحیاء ہی اسکی اصل شناخت ہے، مگرصدافسوس کہ عورت نے عورت کوبقا دینے کے بجائے اسے فناکردیا۔
والدین سے اپنی نافرمانی کا احساس مجھے تب ہوتا جب میری بیٹیاں میری کسی بات سے انکار کر کے اپنی خواہش کے مطابق اپنے کام انجام دیتیں، یہ باتیں 1976 ء کی ہیں میری لڑکیوں کی عمریں 20 اور 22 سال کے درمیان تھیں، لڑکے بھی تھے ایک سب سے بڑا اور دوسرا سب سے چھوٹا، لڑکیاں درمیان میں تھیں۔ لڑکیاں جب بوائے فرینڈز کے ساتھ آنے جانے لگیں تو میں نے ان سے کہا اگر تم لوگوں کو تمہارے فرینڈز پسند ہیں تو تم لوگ شادی کر لو… میں نے یہ اجازت خوشی سے نہیں دی تھی بلکہ سچی بات تو یہ تھی کہ مجھے اپنا ہی اُگایا ہوا پھل کڑوا لگ رہا تھا، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا کہ میری لڑکیاں غیر لڑکوں کے ساتھ رات گئے تک باہر رہیں اسی لیے ایک دو سال کے اندر ہی میں نے اپنی دونوں لڑکیوں کو جیسے تیسے بیاہ دیا اور کربھی کیاسکتی تھی کیونکہ یہ میری ہی دی ہوئی آزادی تھی کہ جسکا لڑکیوں نے کچھ اور ہی مطلب لےلیاتھا۔
میں نے اب اپنی مصروفیات بھی کم کر دی تھیں زیادہ تر گھر میں رہنے لگی ، تنہائی سے بچنے کیلئے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کا سوچا… اس سے بات کی تو اس نے اپنی گرل فرینڈ کی شرط رکھ دی، میں سمجھ گئی تھی کہ کیکر کے درخت میں کیکر ہی لگے گا جس طرح میں نے اپنی مرضی کی شادی کی تھی اسی طرح میری اولاد بھی کر رہی تھی،یہ کچھ غلط بھی نہیں تھا مگر شادی کیلئے آپ کا انتخاب تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے ۔ میں نے تو 1954ء یا 55ء میں شادی کی تھی اس وقت کچھ ماحول بھی صحیح تھا مگر اس وقت نہ تو میں اپنی بیٹیوں کی پسند پر خوش تھی اور نہ ہی اپنے بیٹے کی اس کے باوجود بھی میں ان پر اپنی مرضی یا اپنی خواہش کا اظہار نہیں کرسکتی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میری دی ہوئی آزادی نے ہی انہیں خود سر بنایا ہے، ماں باپ کیا ہوتے ہیں میں اگر انہیں بتادیتی، ان کے بچپن سے جوانی تک اگر انہیں وقت دیا ہوتا، ان کی صحیح تربیت کی ہوتی تو انہیں پتا ہوتا مگر اب کیا ہو سکتا تھا شاخ کچی ہو تو جدھر موڑو اُدھر مڑ جاتی ہے سوکھنے کے بعد موڑنے کی کوشش کی جائے تو نتیجتاً ٹوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میں اپنے بیٹوں سے الگ رہنا نہیں چاہتی تھی حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنے شوہر عامر کو اس کی ماں سے مکمل طور پر علیحدہ کروا دیا تھا۔
خیر 1980ء میں میں نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کر دی،مشکل سے سال بھر ساتھ رہنے کے بعد بہو نے بیٹے سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کر دیا۔ بیشک علیحدہ گھر کا مطالبہ عورت کا حق ہے مگر جس طریقے سے اور جس وقت یہ ہوا اُس سے مجھے دکھ تو ہوا مگر میں اس کا ماتم نہیں کر سکتی تھی مجھے پتا تھا کہ عورت جب آزاد رہنا چاہتی ہے تو وہ یہی کچھ کرتی ہے جو کچھ میری بہو نے کیا، میں نے بھی تو یہی کیا تھا۔
میں پھرسے تنہا ہوگئی تھی اسی طرح 3 سال گزارے چھوٹے بیٹے کی شادی اس لیے نہیں کی کہ وہ ابھی چھوٹا تھا، ان تمام صدمات کے بعد میں نے چھوٹے بیٹے پر توجہ دی اسے محبت دی مگر مکمل طور پر بگڑے ہوئے حالات سے نہیں نکال سکی کیونکہ اچانک تو آسمان بھی رنگ نہیں بدلتا… مجھے معاش کی کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ عامر اپنی زندگی میں ہمارے لیے اتنا کر گیا تھا کہ ہمیں پریشانی نہیں ہوئی، اس کی پینشن بھی باقاعدگی سے ملتی تھی لہٰذا میں نے 1985ء میں چھوٹے بیٹے کی بھی شادی اس کی پسند سے کر دی، میں پسند کی شادی کے کبھی خلاف نہیں رہی اور ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت دیتا ہے مگر اب میں اس بات کی قائل ہوں کہ اس میں والدین کی رضا مندی بھی شامل ہو تو اچھا ہے، میرے بیٹے کی شادی میں میری پسند بھی شامل تھی۔ میرے بیٹے نے میری مختصر سی تربیت کا یہ صلہ دیا کہ اپنی بیوی کی خواہش کے برخلاف مجھے ابھی تک اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میری بہو اور میرے پوتے پوتیاں اس کی دسترس سے باہر ہیں یہی حال میری اپنی بیٹیوں کا ہے، میرے داماد بھی میرے بیٹوں کی طرح بے بس ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے پوتے، پوتیوں کو اچھے ماحول میں پالوں، ان کی پرورش میں وہ غلطیاں نہ کروں جو میں نے اپنی اولاد کی پرورش میں کی لیکن میری بہو نے انہیں آزاد ہی رکھا، اس قدر آزاد کہ پوتیاں راتوں رات گھر نہ آئیں تو بھی کوئی نہیں پوچھتا کہ رات کہاں رہیں … میری بہو نے مجھ سے بھی کچھ سبق نہیں سیکھا… اس نے کبھی میری بات ہی نہیں سنی اور سنے بھی کیسے، اُسے اپنی تفریحات و تقریبات سے فرصت ہی نہیں ہوتی جو میرے پاس بیٹھے… میں یہ ساری باتیں کبھی نہیں لکھتی صرف اس لئے لکھ رہی ہوں کہ میری بہو اسے پڑھ لے اور میرے ماضی کے آئینے میں اپنے حال اور مستقبل کا عکس دیکھ لے… وہ دیکھ لے کہ اس رستے پر پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں… میری خواہش ہے کہ میری بہو ایک بار اسلامی تعلیمات کا مطالعہ ضرور کرلے… میری بدقسمتی کہ میں اتنی غافل رہی اور سب کچھ تباہ ہوجانے کے بعد اب جاکر میں نے اسلام کو سمجھا… میں اللہ کی قسم کھاکر کہتی ہوں کہ اسلام سے زیادہ روشن خیال مذہب کوئی نہیں ہے… عورت کو جتنی پُروقار آزادی اور اختیار اسلام نے دیا ہے وہ کوئی اور دے ہی نہیں سکتا…
اب میں بہت پرسکون ہوں کیونکہ میں نے آزاد رہ کر کبھی بھی سکون محسوس نہیں کیا ہمیشہ یہ احساس دل کے کسی کونے میں چیختا رہا کہ عورت ایسی نہیں ہوتی… عورت کو ایسی زندگی نہیں گزارنی چاہیے اور آج میں اقرار کرتی ہوں کہ و اقعی عورت کو ایسی زندگی نہیں گزارنی چاہیے جس کا اختتام شرمندگی اور جرم کے احساس سے لبریز ہو… گناہوں کا اقرار قلبی سکون کا باعث ہوتا ہے اور آج میں پُرسکون ہوں…. بہت پُرسکون…
رخسانہ عامر
25 دسمبر 2012ء
صبح 4 بجکر 7 منٹ
مسز عامر کی تحریر اختتام کو پہنچ چکی تھی، انہوں نے ڈائری بند کی، چشمہ اتار کر سرہانے رکھا اور نم آنکھوں کو پونچھتے ہوئے آرام سے لیٹ گئیں، ڈائری کو اپنے سینے پر رکھ کر انہوں نے کبھی نہ کھلنے کیلئے اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر اب انہیں بند آنکھوں سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگا۔ انہیں اپنی وہ پوتیاں بھی نظر آنے لگیں جو چنگھاڑتے ہوئے میوزک کے شور میں اپنے بوائے فرینڈز کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر محوِ رقص تھیں وہ بہو بھی نظر آئی جو اپنے آفس کولیگ کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی تھی اور ان کی آنکھیں اس بیٹے کو بھی دیکھ رہی تھیں کہ جو کسی اور کلب میں اپنی اور اپنی بیوی بیٹیوں کی زندگی سے بے خبر شراب کے نشے میں د ھت پڑا تھا۔
صبح کی پَو پھٹنے والی تھی اور رات بھر کیف و سرور کے آسمان پر پرواز کرنے والے مدہوش پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ مسز عامر کی بہو اور پوتیاں بھی گھر واپس آچکی تھیں مگر دماغ پر ابھی بھی رات کا خمار حاوی تھا… مسز عامر کی بہو جب کمرے میں داخل ہوئی تو اُس کی آنکھیں جو ٹھیک طرح سے کھل بھی نہیں رہی تھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں… اپنی ساس کاسیدھا اور اکڑا ہوا جسم دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کی راہ میں حائل کمزوردیوار گر چکی ہے….. پھر بھی خوف کے عالم میں اپنی بیٹیوں کو آواز دی…… بیٹا اور شوہر توا بھی نہیں تک نہیں لوٹے تھے نجانے شہر کے کس کلب میں گئے تھے… بیٹیوں کو آواز دے کر مسز عامر کی بہو نے قریب آکر ڈائری اٹھائی اور کھول کر دیکھنے لگی… مست ہاتھیوں کی طرح لڑکھڑاتی ہوئی بیٹیاں کمرے میں داخل ہوئیں اور انہوں نے پوچھا’’ کیا ہوا مام…؟ ‘‘ تو اس نے ڈائری دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ تمہاری گرینڈ مام مرگئیں ہیں… چھوٹی بیٹی بڑبڑانے لگی’’دھت…نئے سال کی ساری خوشیاں غارت کردیں… دوسری نے کہا شِٹ یار… انہیں بھی ابھی ہی مرناتھا…‘‘ پوتیوں کے یہ الفاظ سن کرمسزعامر کی رُوح انکے مردہ جسم میں چیخنے لگی’’نہیں نہیں… میں ابھی نہیں مری..! ہاں…میں ابھی نہیں مری…میں…میں تو اُسی دن مرگئی تھی کہ جس دن میں نے اپنے باپ کے گھر سے قدم باہر نکالا تھا… اپنے سر کا ڈوپٹہ اتار پھینکا تھا… ہاں میں اُسی دن مرگئی تھی…اُسی دن….اُسی دن…..‘‘مسزعامرکی رُوح چیخ رہی تھی مگرمردہ جسم سے نکلنے والی چیخیں کون سنتا… بھلاکبھی کسی نے مردہ جسم کی آوازبھی سنی ہے؟؟؟
بہت زبردست تحریر ۔۔۔۔۔ خواتین کے لئے پڑھنے اور غور کرکے سبق سیکھنے والی کہانی۔
اس تحریر میں ہمارے معاشرے کے ایک طبقے کی نشاندہی کی گءی ہے جو واقعی اخلاقی قدروں کو کھو چکا ہے اس کی بنیادی وجہ صرف بیرونی اثرات ہی نہیں بلکہ ہمارا حکمران طبقہ بھی ہے جو معاشرے کو اسلامی دینے میں رکاوٹ ہے۔الحمدٗللہ ابھی معاشرے کا بہت بڑا حصہ ان قبیح اثرات سے پاک ہے۔
بہت عمدہ اور دلوں کو چھو لینے والی تحریر ہے.