شاہ باغ میلہ

شاہ باغ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کا ایک معروف علاقہ ہے۔ یہ علاقہ اندورون و بیرون شہر نقل و حمل کا مرکز بھی ہے۔ یہ پرانے اور نئے ڈاھاکہ شہر کو آپس میں ملانے کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ اس کے شمال میں پرانا شہر اور جنوب میں نیا شہر آباد ہے۔ شاہ باغ کو سترہویں صدی عیسوی میں مغلوں کے دور میں آباد کیا گیا۔ شروع میں اسکا نام “باغ بادشاہی” تھا جو اب بگڑ کر “شاہ باغ” ہوگیا ہے۔

 

بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں شاہ باغ کا نام ایک نئے تناظر میں سامنے آنے لگا ہے۔ 5 فروری 2013ء کو جب اہل پاکستان کشمیرویوں سے اظہار یکجہتی کے لیے “یوم یکجہتی کشمیر” منارہے تھے۔ بنگلہ دیش کے قوم پرست اور اسلام بیزار عناصر نے بزعم خود “شاہ باغ” میں ایک نیا تحریر اسکوائر سجانے کا آغاز کیا اور اس بار نعرہ ملک کو ڈکٹیٹر شپ سے پاک فلاحی ریاست بنانے کا نہیں بلکہ نام نہاد “بین الاقوامی کرائمز ٹرائبیونل” کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کو سزائے موت دینے اور حکومت کو جلد از جلد جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترا شیبر پر پابندی لگانے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں خود عوامی لیگی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔

 

 

انٹرنیشنل کرائمز ٹرائبیونل جو کہ صرف نام کا ہی انٹرنیشنل ہے میں کسی بین الاقوامی ادارے کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس ٹرائبیونل کوعوامی لیگ کی حکومت نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران کئے گئے نام نہاد جنگی جرائم کی تحقیقات اور ذمہ داران کو سزا دلوانے کے لیے قائم کیا ہے جبکہ درپردہ وہ اس کی آڑ میں بنگلہ دیش کے اسلام پسندوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا اور جماعت اسلامی کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے نکال پھینکنا چاہتے ہیں۔ خود اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل اس ٹرائبیونل کے قیام پر سوال اٹھاچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ٹرائبیونل کے ایک جج “نظام الحق” کی ذاتی ای میلز اور اسکائپ پر ہونے والی گفتگو منظر عام پر آچکی ہے جس میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں کہ حکومت جلد از جلد فیصلے کے لیے دبائو ڈال رہی ہے۔ گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استفعیٰ دیدیا تھا۔

 

مقتول احمد رجیب حیدر

اسی نام نہاد کرائمز ٹرائبیونل نے 5 فروری کو جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مولا پر لگائے گئے چھ الزامات میں سے پانچ میں قصوروار قرار دیکر عمر قید کی سزا سنادی۔ یہ خبر بنگلہ قوم پرستی کے متوالوں کے لیے غیر متوقع تھی جو شاید سزائے موت کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اب انہوں نے اپنی پوری قوت شاہ باغ کے علاقے میں جھونک دی ہے تاکہ بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کا راستہ روکا جاسکے۔ مختلف حیلے بہانوں سے اپنی تحریک میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 15 فروری کو احتجاج میں شامل اسلام بیزار بنگالی بلاگر احمد رجیب حیدر کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے جس کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری جماعت اسلامی پر ڈال دی گئی ہے۔

 

الجزیرہ کی ویب سائٹ پر محسن الدین احمد مذکورہ بلاگر کے بارے میں اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ “اسے بلاگر کے بجائے حکومتی تنخواہ دار ایجنٹ کہنا مناسب رہیگا۔ ان کا بلاگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا تبصروں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب سے بھرا پڑا ہے۔ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دیندار رہے یا بے دین لیکن مقتول مذہبی معاملات پر کسی منطقی دلیل سے بحث کرنے کے بجائے حیران کن طور پر انتہائی واہیات انداز میں صرف اسلام پر ہی حملے کرتے تھے۔ ان کا مقصد شاید ملک میں انتشار پیدا کرنا تھا یا وہ جلد از جلد کسی بھی طرح مشہور ہونا چاہتے تھے۔ بہت سوں کو یہ یقین ہے کہ موصوف حکومتی حمایت سے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں ہی مارے گئے ہیں تاکہ اسلام پسندوں پر اس کا الزام عائد کرکے شاہ باغ تحریک کو مضبوط کیا جاسکے۔ اور قاتلوں کی گرفتاری کی آڑ میں عوامی لیگ کی حکومت بڑے پیمانے پر اسلام پسندوں کو گرفتار کرسکے۔

 

بنگلہ میڈیا میں حکومتی سرپرستی میں اسلام پسندوں خاص کر جماعت اسلامی کے خلاف مہم ذوروشور سے جاری ہے۔ ایسے حالات میں معروف بنگلہ رونامہ “امار دیش” کے ایڈیٹر محمود الرحمٰن نے ایک پریس کانفرنس میں شاہ باغ کے مظاہرین پر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور اسلام اور بیغمبر اسلام کے خلاف مہم چلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ یاد رہے کہ “امار دیش” کے آن لائن ایڈیشن کو بنگلہ دیش میں بند کردیا گیا ہے۔

 

دوسری طرف گذشتہ چند دنوں میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترا شیبر کے درجنوں کارکن عوامی لیگ کی حکومتی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 22 فروری کو نماز جمعہ کے بعد 9 اسلامی جماعتوں کی جانب سے کیے گئے احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس اور حکومتی دہشت گردوں نے مظاہرین کو انتہائی بیدردی سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہوئے۔ لیکن مظاہروں کا سلسلہ ہے کہ تھمتا نظر نہیں آتا۔

 

حکومتی غنڈوں کی بربریت کا شکار ایک اسلام پسند

نماز جمعہ کے بعد مسجد میں پولیس کی دہشت گردی

شاہ باغ کے انتہاپسندوں کے خلاف اسلام پسند جماعتوں کے مشترکہ احتجاجی مظاہرے کا ایک منظر

 

قطعہ نظر اسکے کہ حکومتی سرپرستی میں دین بیزار عناصر کی مدد سے شاہ باغ میں لگائے گئے میلے کے کیا نتائج نکلتے ہیں لیکن بات اب جماعت اسلامی کی مخالفت سے آگے نکل کر اسلام اور اسلامی شعائر کی توہین اور انہیں بنگلہ دیش سے دیس نکالا دینے تک پہنچ گئی ہے۔ اور اس کے خلاف بنگلہ دیش کے اسلام پسند عناصر متحد ہوکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

فیس بک تبصرے

شاہ باغ میلہ“ پر 3 تبصرے

  1. ان شا ئ اللٰہ حق غاب ہو کر رہے گا۔ جتنا ظلم ہو گا اتنا ہی یہ ابھرے گا ۔ یہ اس کی فطرت ہے!

  2. حسینہ واجد۔ بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمان کی زندہ بچ جانے والی بیٹی ہیں۔ جو برصغیر میں روایتی طور خاندانی سیاست کی بناء پہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنی ہیں۔ تو ایک بات تو طے ہے کہ وہ اپنے باپ کے سیاسی نظریے یعنی قوم پرستی کو ہوا دیتی ہوئے ہر اُس نظام اور ازم کے خلاف جو قوم پرستی کے زہر کا تریاق ہو قوم پرستی کو ہوا دینے کے لئیے اسلام کی مخالفت کی جارہی ہے۔اسلئیے حسینہ واجد اسلام اور اسلام لیواؤں کا رستہ روکنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔ قوم پرستی کے زہر کا تریاق مسلمان ملکوں میں اسلام ہے ۔ جو کہ ایک فطری اور قدرتی بات ہے۔ اور بالآخر اسلام کی کا بول بالا ہو کر رہتا ہے اور اسلام پسندوں کے سامنے نام نہاد قوم پرستوں کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ لیکن تب تک بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اپنے ہونے کا باعث ”قوم پرستی “ کو بڑھ چڑھ کر کندھا دے گی۔ کیونکہ ایسا نہ کرنا موجودہ حکومت کی سیاسی موت ہوگا۔ اسلئیے حسینہ واجد کی حکومت اسلام پسندوں سے بار بار الجھنے کی کوشش اور ملک میں سیاسی افراتفری اور انتشار پھیلانے کی کوشش کری گی۔ کیونکہ اگر حکومت یوں نہ کرے تو کیسے اپنا سیاسی نظریہ ۔(اگر تو اسے کوئی سیاسی نظریہ کہا جاسکتا ہے)دوسروں پہ مسلط کرنے سے باز آئے ؟۔ یعنی گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کر لے تو کھائے کیا؟۔ اگر یہ لوگ اسلام پسندوں کو تنگ نہ کریں تو اپنے ہونے کا ثبوت کیسے مہاء کریں؟ اور اپنے آپ سیاسی موت مر جائیں۔
    امید کافی ہے ۔ جیسے ہی بنگلہ دیش میں حکومت بدلے گی تو مشرف کی نام نہاد روشن خیالی کی طرح حسب سابق حسینہ واجد کی نام نہاد قوم پرستی کے بھوت سے جان نکل جائے گی۔ کیونکہ بنگلہ دیش اور بنگالی مسلمانوں میں اسلام کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔

  3. بہت عمدہ جناب۔۔۔۔
    بنگلہ دیش کی حکومت بھارت دیگر کفار کی غلامی میں اس حد تک چلی گئی ہے جس حد تک ہمارے فوجی جرنلز تک نہیں جاسکے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ تشدد سے تحریک اسلامی کو مظبوط تو کیا جاسکتا ہے کچلا نہیں جاسکتا۔ حسینہ واجد پتا نہیں کونسی دنیا میں رہ رہی ہے۔ تحریکوں کو کچلنے اور دبانے کے یہ حربے ناکام، فرسودہ اور متروک ہو چکے ہیں۔
    انشاء اللہ تحریک اسلامی بنگلہ دیش اس دور کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ،طاقتور اور مقبول ہو کر نکلے گی۔

Leave a Reply