کوئی دو سو سال پرے کی بات ہے۔ مہینہ جولائی کا اور محل ورسائی کا ہے۔ محل میں برسات کی حبس اپنے عروج پر ہے۔ حبس تو ویسے محل کے باہر بھی بہت ہے۔ اور اس کا دائرہ سینکڑوں سال کے زمانی اور سینکڑوں میل کے مکانی فاصلوں پر محیط ہے مگر اس کی وجوہات عارضی موسمی تبدیلیوں کی بجائے مستقل سیاسی اور انتظامی بندشیں بیان کی جاتی ہیں۔محل کے بالائی کمرے میں ایک نوجوان خاتون سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم ہے۔ نہروں، جھیلوں اور وسیع میدانوں والے زرخیز ملک آسٹریا سے آنے والی ملکہ کو شاید فرانس کا مرطوب موسم راس نہیں آیا۔قریب سے آنے والی ہوا اور ہزاروں کلومیٹر دور سے آنے والی یادوں کے سلسلے کو راستہ دینے کے لیے کھڑکی کے پٹ کھولتی ہے۔ نیچے ایک ہجوم صدائے احتجاج بلند کررہا ہے۔ وجہ روٹی کی عدم دستیابی معلوم ہوتی ہے۔دانشور ملکہ حیران ہو کر سوال کرتی ہے ’’اگر ان لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی تو کیک کیوں نہیں کھا لیتے‘‘۔عوام کو یہ سادہ حل ابھی تک نہ سوجھا تھا۔مگر حکمران صائب الرائے ہوں اور عوام عمل پر آمادہ تو مشکلیں یوں ہی آسان ہو جاتی ہیں۔عوام آگے بڑھتے ہیں اور اقتدار کا کیک حکمرانوں کے ہاتھ سے دبوچ لیتے ہیں۔ اس کیک کی تیاری میں سولہ سو برس لگے تھے۔ اسے حلق تک پہنچنے میں سولہ سال بھی نہیں لگتے۔ مئورخ اس واقعے کو انقلاب لکھتے ہیں۔ اقبال اسے سلطانیٔ جمہور سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس کا نام استعمال کر کے عوام کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں اور حکمران اسے ’’ اساطیر الاولین‘‘ سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں۔
میں انقلابِ فرانس کی تاریخ بند کرکے ٹی۔وی کا سوئچ آن کرتا ہوں۔ ایک شعلہ نوا مقرر اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں مصروف ہے۔ ہاتھ عوام کی نبض پر ہے اور زور عوامی مسائل پر۔ گرانی، فحاشی، ملکی خودمختاری و سا لمیت غرض کتنے ہی ایشوز ہیں جن کا واحد سبب اس کے نزدیک حکومتِ وقت ہے۔سو تمام تر قوت اسی کو للکارنے میں صرف ہو رہی ہے اور رہی سہی کسر مجمع میں سے بلند ہوتے نعرے پوری کر رہے ہیں۔حکمرانوں کو ڈرانے کے لیے فرانس، روس اور ایران کے سرخ انقلابات سے ہوتے ہوئے مصر، تیونس اور لیبیا تک کی مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔عدلیہ، فوج اور ناقص جمہوریت سب زدِ تیغ پر ہیں اور اختیارات بزور عوامی طاقت چھیننے کا برملا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ان کی سادگی پر مسکرایا جائے یا کم فہمی کا نوحہ پڑھا جائے۔
کیاسرخ انقلاب میں اپنا روشن مستقبل تلاش کرنے کا خواہاں یہ ابن الوقت سیاستدان جانتا ہے کہ ایرانی انقلاب کے بیشتر لیڈران انقلاب کے بعد شروع ہونے والے فسادات میں لقمۂ اجل بنے تھے۔ کیا سرخ انقلاب کو اپنا حاصل سمجھنے والا یہ مجمع فرانسیسی انقلاب کی بیس لاکھ بے گوروکفن لاشوں کو مذاق سمجھتا ہے۔ کیا انصاف کے لیے سرِ بازار عوامی کچہریاں لگانے کا خواہشمند یہ نوجوان طبقہ تہران کے ہر چوک میں لگی قریباً چالیس ہزار کچہریوں اور ان سے ملنے والے’’فوری انصاف ‘‘ کو بھلا بیٹھا ہے۔ کیا حالات کی خرابی کو محض اپوزیشن کا پروپیگنڈہ سمجھنے والا حکمران ٹولہ روس کے حکمرانوں کے انجام سے آگاہ ہے۔کیا یہ تمام فریق خانہ جنگی اور انارکی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔
سرخ انقلاب ایک جوئے کی مانند ہے۔اِس تخصیص کے ساتھ کہ اس میں اکثر دونوں فریق ہار جاتے ہیں۔جیتتی کوئی تیسری قوت ہے۔ایک تابکاری عمل کہ جس کا شروع ہونا تو اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر روکنا اپنے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جب تک بات بنتی نظر آتی ہے اس وقت تک بات دور نکل چکی ہوتی ہے۔تصادم کسی کو راس نہیں آتا۔عجب افراتفری کا سماں برپا ہوتا ہے۔مارنے والے غازی، مرنے والے شہید۔زمین سرخ، آسمان سرخ، شاہراہیں اور تاریخ لہو میں ڈوبی ہوئی۔ اخبارات کے صفحات سے ٹپکتالہو انسانی جذبات کو لہو رنگ کرتا چلا جاتا ہے۔بھلا سرخ انقلاب بھی کوئی مانگنے کی چیز ہے۔ سرخی تو فقط گلاب، شراب اور شباب کو سزاوار ہے۔میں لغت کی کتاب اٹھا لیتا ہوں۔
انقلاب کا لغوی معنی یہ ہے کہ جدھر کو پشت ہے ، ادھر کو منہ ہو جائے۔ یاانسان اپنی اصل کو لوٹ جائے اور اصل تو صرف حق ہے۔ سو اگر حق مل جائے تو پھر انقلاب ورنہ محض اضطراب۔منزل پا لینے کا گمان ،حقیقت میں منزل سے کوسوں دور۔آمریت کے آسمان کاگراجمہوریت کے کھجور میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔فرانسیسی عوام سولہ سو سال سے ملوکیت اور جبرواستبداد کے خنجر تلے زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک نسل میں اضطراب نے جوش پکڑا۔ نہوں نے شکنجۂ آہن سے ظالم کی کلائی کو جھٹکا دیا اور خنجراس کے ہاتھ سے چھین لیا مگر تلف کرنے کی بجائے نظامِ جمہور کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔ یہ خنجر پھر سرگرمِ عمل ہوا اور بہت سی ضروری اور غیر ضروری چیزیں اس کی زد میں آکر کٹتی چلی گئیں۔ سلطانیت اور رہبانیت۔ اخلاقیات اور انسانی رشتے۔ ہاں اس نے تمام تر انسانی بندشوں کو بھی کاٹ ڈالا ہے۔ اب انسان آزاد ہے۔ ہر بندھن سے آزاد، روایات سے آزاد، مذہب سے آزاد، علم میں آزاد، عمل میں آزاد اور ا س ا ٓزادی کی سرشاری میں بگٹٹ بھاگتا چلا جارہا ہے۔ گردوپیش پر غور کی ضرورت نہیں، فرصت بھی نہیں۔ فرصت تب ملے گی جب ٹھوکر کھا کر کہیں گرے گا۔
انقلاب ایک طویل مضمون کا نام ہے جس کے ذیلی عنوانات ظلم کی چکی میں پستی انسانیت، بغاوت، قربانی، استقامت، امیدِ بہار اور نویدِ صبح ہیں۔ ایک اہم باب جس کا ذکرسوائے تاریخ کی کتابوں کے کسی کتاب میں نہیں ملتا وہ حد سے بڑھتا انتقام ہے۔نفرت کی دہکتی آگ سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ ظالم حکمران، بے حس جاگیرداراور غیر منصفانہ قوانین سے لے کر انسانی روادار ی اور اعلٰی ظرفی تک۔ انقلابِ فرانس کے بعد معتوب قرار دیے جانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایسی مشینیں بنانی پڑیں جو فی منٹ کے حساب سے پانچ سو سر کاٹنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔روس کے کمیونسٹ انقلاب میں’’ زار‘‘ بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔ ایرانی انقلاب میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہو گئے اور یہ تین برس ہزاروں بے گناہوں کا لہو چاٹ گئے ۔انقلاب میں خوراک اور لباس کا ہی قحط نہیں پڑتابلکہ انسانی سرشت بھی ناپید ہو جاتی ہے۔ خدا قرآن میں افراط و تفریط سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے راہِ اعتدال پر چلنے کاحکم دیتاہے۔ ایک دانشور کے قول کے مطابق راہ ِاعتدال ہی صراطِ مستقیم ہے اور صراطِ مستقیم تو بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔ ایک قدم اِدھر تو نافرمانی ، ایک قدم اُدھر تو گستاخی۔ایک قدم اِدھر تو بے غیرتی کی حد تک برداشت،ایک قدم اُدھر تو ظلم کی حدوں کو چھوتا انتقام!میں صوفے پر سر ٹِکائے آنکھیں موندھ لیتا ہوں۔
شعور کے در وا ہوتے ہیں اور ایک اور انقلاب کا منظر سامنے آتا ہے۔ ایک روشن انقلاب۔ایک طویل تر جدوجہد کا ثمر بار شجر۔صبر اور استقامت کی روشنائی سے لکھی دس برس پر محیط جہدِ مسلسل کی داستان۔ ایک لشکر شہر میں داخل ہو رہا ہے۔ حکمران، کامران، فتح مند۔ سردارانِ شہر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ شرمندہ، ترساں، لرزاں۔ فاتح اور مفتوح اقوام کے درمیان جو رشتہ ازل سے قائم ہے وہ ان کے دلوں کو دہلا رہا ہے۔اور خصوصیت یہ کہ لشکر کا سپہ سالار بمع اپنے ساتھیوں کے ،یہیں سے جلا وطن کیا گیا تھا۔جلاوطن کرنے والے یہی سر جھکائے کھڑے سردار تھے۔ اور پھانسی پر لٹکنا اتنا تکلیف دہ نہیں جتنا اس کا انتظار ہے۔ مگر آج کا تو دن ہی انقلاب کا ہے۔ فاتح لشکر اپنی بڑائی بیان کرنے کی بجائے ’’ایک خدا ‘‘کی بڑائی بیان کررہا ہے۔ فتح مندی کے نعرے بلند کرنے کی بجائے خدا کی حمدو ثناء کی جا رہی ہے۔ طاقت ، رعونت، شکوہ کے تمام ممکنات حاضر اور تمام امکانات مفقود ہیں۔وقتِ تعزیر قریب آپہنچا ہے۔سپہ سالار لب کشائی کرتا ہے۔ ’’تم پر کوئی مواخذہ نہیں ۔جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔ یہ سنتے ہی ستے چہروں پربہار آگئی ہے۔ دلوں کے میل دُھل گئے ہیں۔اکثریت خدا کی قدرت اور حقانیت پر ایمان لا چکی ہے۔انقلاب پوری طرح برپا ہو چکا ہے۔ انسان اپنی اصل کو لوٹ چکا ہے۔کوئی قطرہ خون کا نہیں بہا۔ کسی قبر کی بے حرمتی نہیں ہوئی۔ کوئی عزت تار تار نہیں ہوئی۔حد یہ کہ ان تمام احسانات کو جِتلایا بھی نہیں گیا۔ ضبطِ نفس کی بھی کوئی حد ہوا کرتی ہے۔
دینِ کامل ہمیں جس انقلاب کی ترغیب دیتا ہے وہ ایک ذہنی انقلاب ہے۔ فِکروعمل کا انقلاب ہے۔یہ انقلاب ایک خاص فرد کے خلاف نہیں ایک جاہلی نظام کے خلاف ہے۔ اس میں دوسروں کی اصلاح سے کہیں زیادہ اہم اپنی اصلاح ہے کہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلی جاتی جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہ ہو۔فرسودہ روایات میں جکڑے ،اپنے گریبان میں جھانکنے سے عاری اذہان ایک طویل جدوجہد کے بعد چند چہروں کی تبدیلی کا مئوجب تو بن سکتے ہیں لیکن کسی حقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتے۔ایک بار اذہان تبدیل ہو جائیں پھر طویل بادشاہتیں، شخصی حکمرانیاں اور کفریہ نظام بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اذہان کی تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے جو نسلوں تک محیط ہو سکتا ہے لیکن یہی رستہ پرامن بھی ہے اور مئوثر بھی۔ آج تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے خود کودُہرا رہی ہے۔ کیا ہم اس تاریخی لمحے سے کچھ سیکھ سکتے ہیں!
انقلاب کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے ۔۔۔ دیگر افرادکو بھی پڑھناا چاہیئے ۔۔۔۔ اِس کو فیس بک پر بھی شیئر کیا جانا چاہیئے ۔۔۔۔ جزاک اللہ