سیاسی منظرنامہ اور طالب علم

’آج تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے‘

’پیپر کینسل!‘

’راستے بند ہیں۔ کالج کیسے پہنچیں؟‘

یہ وہ چند جملے ہیں جن کی بازگزشت آج کل ہماری زندگی میں آئے روز سنائی دینے لگی ہے۔ اور جن کی وجہ سے ہمارے معصوم ذہن جھنجھلاہٹ، خوف اور ناامیدی کا شکار رہتے ہیں۔ جی ہاں یہاں ہمارے ملک کے اس طبقے کا ذکر ہے جسے ’طالب علم‘ یا ’اسٹوڈنٹ‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو بذات خود تو کسی ملکی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ذمہ دار نہیں ہوتے لیکن ہر سیاسی سانحہ کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اب یہ سانحہ کسی جدی پشتی ساستدان کا وزارت سے بیدخلی ہو یا کسی منتخب حکمران کا زندگی سے بیدخل کیا جانا۔ ٹارگٹ کلنگ کے نام پہ قتل و غارت ہو یا سی این جی کی قیمتوں کا مسلئہ۔ آپس کی مخلافتوں اور مفاہمتوں کا معملہ ہو یا ووٹ کے حصول کی جنگ۔ نقصان ہر حال میں انہیں اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ اب دیکھیے ناں اس سیاسی منظرنامے میں ’احتجاج‘ اور ’ہڑتال‘ کے بغیر تو کچھ ہونا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر ہڑتال کے دوران تعلیمی ادارے کھلے رہ گئے تو ہڑتال کامیاب کیسے ہوگی؟ خدانہ خواستہ کامباب ہو بھی گئی تو احتجاج کے لئے تو تمام راستے بند کرنے پڑیں گے۔ اب اگرآپ بھی میری طرح طالب علم ہیں اور آپ کا پرچہ ہے اور امتحانی مرکز پہنچنا ضروری ہے تو ہوائی جہاز چارٹرڈ کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ پیدل پہنچنے کا فیصلہ کریں۔ ایسی صورت میں گھر والوں سے ملنا مت بھولیے گا کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں خاص کر اگر کراچی میں رہتے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راستے میں ہی آپ کو پرچہ ملتوی ہونے کی خوشخبری مل جائے اور آپ رات بھر جاگ کر کی جانے والی محنت پر پانی پھرتے ہوے واپس لوٹ آیں۔

 

مجھے یاد ہے ہم نے اپنی اسکول کی کتاب میں پڑھا تھا اور یقینا ہمارے ڈگری ہولڈر حکمرانوں نے بھی پڑھا ہوگا کہ نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ پر یہاں تو امید و نا امیدی کے بھنور میں پھنسے عجیب معمار پروان چڑھائے جا رہے ہیں جو اب تک یہی فیصلہ نہیں کر پارہے کہ افسوس کس پر کرنا ہے؟ اپنے تعلیمی سیشن کے ایک اور دن کے ضایع ہونے پر یا کراچی میں لاشوں کی آج کی گنتی پوری ہونے پر۔ سوگ کس کا منایا جائے؟ خوف و دہشت کا شکار اپنی مرنے والی صلاحیتوں کا یا کوئٹہ میں اجڑے انگنت خاندانوں کا۔ احتجاج کس پر کریں؟ پرچہ ملتوی ہونے پر یا مجرموں کی عدم گرفتاری پر۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply