ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور اخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ ( سورۃ النور۱۹)۔
نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’ انسان کے دل میں ایمان یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت رکھے‘‘(احمد) ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے ’’دنیا میں تقویٰ اختیار کر،خدا کا محبوب بن جائو گے اور لوگوں کے پاس جوکچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجا،لوگوں میں محبوب بن جائے گا‘‘(ابن ماجہ)۔
اصل مرکز محبت اللہ تعالیٰ کی ذات آقدس ہے جوتمام محبتوں کے حصول کے لئے واحد اور آسان ذریعہ ہے او ر اپنے باہمی رشتوں کے مضبوطی کے لئے رب العزت سے تعلق کے مضبوطی لازمی ہے۔محبت کا تقاضا یہ ہے کے صرف اللہ ہی سے محبت اور اللہ ہی کیلئے محبت کیا جائے۔ایک دوسرے سے محبت کے حوالے سے نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتے جب تک تم مومن نہ بن جائواور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو ،کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتائو جب تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو، آپس میں سلام پھیلائو (صحیح مسلم)۔
۱۴ فروری کو عالمی یوم محبت کے طور پر منایا جاتاہے۔ایک ایسی محبت کہ جس نے ہمیں ایک دوسرے سے متنفر اور جدا کردیا ہم سے درست اور غلط کے پہنچان ختم کردیا۔ایک ایسی محبت کے طور پر جو اپنے حقیقی شکل کھوکر غیر حقیقی جوش وجذبے کے شکل اختیار کرچکی ہے۔جس کے وجہ سے غیر شرعی اور غیر اخلاقی تعلقات جنم لیتے ہیں ایک ایسی محبت جس کے وجہ سے مسلمانوں میں شرم وحیاء کی صفت سرے سے ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ محبت فحاشی وعریانی کا ایک طوفان ہے جو اہل کفر کے عشرت گاہوں سے اٹھا ہے اور مسلم دنیاء خصوصا پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے جارہا ہے ۔ٹی وی ، کیبل ، ڈش ، سی ڈیز ، موبائل اور انٹر نیٹ وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جنہوں نے کفر کی اس ثقافتی یلغار کو مسلمانوں کے گھر گھر پہنچادیا ہے۔ چنانچہ بے حیائی اور اخلاق باختگی کے وہ مناظر جو باطل کا خاصہ ہیں، آج مسلمانوں میں بھی ترویج پاچکے ہیں۔
۱۴فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم محبت کے نام پرنام نہاد روشن خیالی کی انتہا کی جاتی ہے۔ انسانوں کو تاریخ کے بارے میں بیوقوف بنایا جاتاہے۔ پاکستانی نوجوان یورپ کے نقائص ذہن میں لیے ،آج کے دن کچھ نئے منصوبوں سے اپنے دن کا آغاز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی نہیں بلکہ یورپ کا ایک باشندہ تصور کرتا ہے۔ ۱۴ فرور ی ویلنٹائن ڈے کے طور پر منا کر ہم حیاء کی آخری حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک سروے میں عورتوں اور جوان لڑکیوں کا آپنے گھروں سے نکل کر بھاگنے کی شرح میں جس طرح روز بروز تیزی آرہی ہے ،یہ پاکستانی قوم کے لئے زہرِ قاتل سے بھی زیادہ ہے۔
عورت کے تقدس کو اخر کس نے پامال کیا؟وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ نے گھر کی زینت بنائی ہے ،جوگھر میں چراغ کے مانند ہے ،گھر بساتی ہے اور محبت قائم رکھتی ہے لیکن مغرب کی مادر پدر آزادی نے اسے نائٹ کلبوں میں گھسیٹ لائی او راس کی ویلنٹائن ڈے جیسے بے حیائی عام کرنے والے تہواروں سے وہ تذلیل کرائی کہ جس سے حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔عورت کا حقیقی محافظ تو صرف اسلام ہے بلکہ عورت کا فطری تقدس اور نسوانی حرمت صرف اسلام کے قلعے میں محفوظ ہے ۔اسلام نے عورت کو اپنی آغوش میں لیکر ماں کا تقدس ، بیوی کا پیار،بہن کی محبت اور بیٹی کی تربیت کی ابدی ضمانت وحمایت عطا فرمائی ۔
یورپ کی حیوانی تمدن میں آزادی اور مساوات کے نام پر عورت کی ساری متاع لوٹ لی۔ آزادئی نسواں اور تحفظِ حقوقِ نسواں کے نام پرعورت کو اس کی فطرت سے آزاد کردیا گیا ،جس کی وجہ سے عورت اپنے تمام خاصیتوں سے آزاد ہوچکی ہے ۔اوراس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔
اسلام نے عورت کو مرد کا لباس کہا لیکن مرد نے عورت کو اپنا لباس نہیں سمجھا ،بلکہ اپنے لباس کو سائن بورڈ، اشتہارات،ٹی وی چینلز اور بازار کا حسن بنالیا ہے۔ گھر کی زینت کو بازار کی زینت بنانے کے بیہودہ کوشش میں ہم آگے جارہے ہیں۔آپ کسی لڑکی کو پھول دیتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ دیکھنے یا سننے والا تمہاری بہن کو بھی دے سکتاہے، راستہ تو آپ خود دکھارہے ہیں۔ سوچ تو دوسروں کی ماں ،بہن ، بیوی اور بیٹی کی طرف جاتی ہیں لیکن خود اپنے ہی گھر کی زینت ہمارے ذہنوں سے نکل گئی ہے کہ ہم دوسرے گھر کی ماں ، دوسرے کی بیوی اور بہن اپنے نظروں سے اوپر کرنے کی کوشش تو کررہے ہے لیکن اگر کوئی دوسرا مرد ہماری گھر کی محبت کو میلی آنکھ سے دیکھ لے تو حشر کیا ہوگا۔
یہ ہمارے ساتھ کس نے کیا؟ کس نے ہمیں بے ہودہ بنایا؟کس نے مسلمان بھائیوں کو مسلمان بہنوں کے ہاتھ میں پھول دینے کا طریقہ سکھایا؟؟کس چیز نے مسلمان بہنوں کو اپنے گھر سے نکل کر بھاگنے پر مجورکیا؟ کس نے یہ سارے طریقے سکھائے؟اصل ذمہ دار ہمارا مخلوط تعلیمی نظام اور ہماری میڈیا ہیں ۔ جس نے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نئے نئے اندازسے فیشن متعارف کیے ہیں اور فیشن یہی کہ نبی اکرم ﷺ کے سنت کی خلاف ورزی فیشن سمجھی جاتی ہے۔ہماری میڈیا ہمیں بے ہودہ فلمیں اورڈرامے دکھاتی ہے ہمیں ویلنٹائن ڈے جیسی بے حیائی کوکھلِ عام منانے پر اُبھارتی ہے ویلنٹائن ڈے دراصل بے حیائی کی انتہا کرنے کا دن ہے۔ اہل مغرب بے حیاڈے منارہے ہے تو اہل مشرق حیا ڈے کیوں نہیں مناتے ؟؟؟
ایک حدیث مبارکہ ہے کہ’’ حیا ایمان کا حصہ ہے ‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے ’’ کہ جو حیا نہ کرے تو پھر جو جی چاہے کریں‘‘ اس لئے پاکستانی جوان لڑکوں اور لڑکیوں اور خاص کر طلبہ وطالبات سے گزارش ہے کہ آج کے دن کو حیاڈے کے طور پر منائیں تاکہ اہل مغرب کی طرف سے ہمیں بے حیاقوم بنانے کے اس منصوبے کو ناکام بنادیا جائے۔
فساد قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک وخیال بلند و ذوق لطیف
اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے خوب کہا تھاکہ
حیا نہیں زمانے کے آنکھ میں باقی
خداکرے کی جوانی تیری راہے بے داغ
اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم تجھ سے تیری محبت اور ہر اس شخص کی محبت کا سوال کرتے ہیں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اوراس عمل کی محبت بھی جو ہمیں تیری محبت کے قریب کردیں۔ (آمین)
فیس بک تبصرے