فروری کی اس شام۔۔۔

  معزز قارئین! آ پ یقین کریں ہمارا یہ بلاگ ہر گز اس غیر مقدس تہوار کی ہجو یا پھر یادمیں نہیں ہے جس کا چر چا چہار سو ہے۔ بلکہ کہنا یہ ہے کہ اس تہوارکے زبان زدعام ہونے سے پہلے بھی ہماری زندگیوں میں یہ خوبصورت مہینہ آ یا کر تا تھا۔موسم کی تبدیلی کی نوید لے کر۔۔۔ (سنا ہے کہ کھلے لانز میں ہونے والی تقریبات میں یکم فروری سے اوپر کی قناتیں نہیں مہیا کی جاتیں خواہ اس کے بعد اولے ہی کیوں نہ پڑیں!) خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات توایک ایسی ہی شام کی ہے جب ہم تین بہن بھائی جامعہ کراچی کے طالبعلم کی حیثیت سے سمسٹر کے امتحان سے گزر رہے تھے اور سب سے بڑے بھائی  چند ماہ پہلے ہی بطور لیکچرر منتخب ہوچکے تھے یوں ہماراگھر جامعہ میں ہونے والی ہر حرکت سے مرتعش ہوتا تھا۔ اس تعارفی جملے کے بعدآگے بڑھتے ہیں۔

 

ہاں تو اس روز ہم سب کا پیپر تھا۔ چونکہ طارق (بھائی) اور میرا ایک ہی مضمون کا پیپر تھا اسلئے بہت اچھی مشترکہ تیاری کے بعدہم اپنے اپنے ڈیپاٹمنٹ بڑے ولولے کے ساتھ پہنچے۔ پیپر ہاتھ میں آیا تو خوشی دیدنی تھی کہ مکمل طور پر ہماری دسترس میں تھا۔ ابھی پیپر شروع  ہی کیا تھا کہ بائیکاٹ بائیکاٹ کے نعرے لگاتے طلباء آ دھمکے۔ ہمارے ہاتھوں سے جب پیپر لے لیا گیا تو ہم ہکا بکا رہ گئے۔ جب امتحان گاہ سے باہر نکلے تو صورت حال کا علم ہوا۔ جی ہاں !! ضیاء الحق صاحب نے طلباء یونینز پر پابندی لگادی جس کے بعد احتجاج کے طور پر طلباء  امتحانات کا بائیکاٹ کررہے تھے (یاد ماضی! بہت سے قارئین شاید اس واقعے سے لاعلم ہی ہوں گے! بلحاظ عمر!)  یاد آ یا ہم نے رات کو یہ خبر سنی تھی( BBC اس وقت واحد ذریعہ تھا)، مگر چونکہ ہم جامعہ میں رہائش پذیر ہونے کے باعث پوائنٹ پر ملنے والی تازہ ترین اطلاعاتی ناشتے (پمفلٹس) سے محروم تھے لہذا دیر میں مطلع ہوئے اس فیصلے کے ردعمل سے۔۔۔ اور پھر یہ کہ ڈیپارٹمنٹ دور درازہونے کی وجہ سے بھی اس احتجاجی گروپ کے پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ موبائیل کازمانہ تو تھانہیں کہ چشم زدن میں کوئی واقعہ ہونے سے پہلے ہی بریکنگ نیوز بن جائے!

 

اساتذہ نے پیپر واپس لے لئے زیر لب یہ کہتے ہوئے کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کا کیا فائدہ! ہم حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے کہ اتنا اچھا پیپر تو زندگی میں پہلی دفعہ ہی دیکھا تھا!  بہرحال ہمیں اپنے حقوق کی سلبی پراحتجاج بھی تو کرنا تھا۔ گھر کو واپس ہوئے! امتحانات کے خاتمے کے منتظر نہ جانے کتنے پروگرامز جوں کے توں سولی پر لٹک گئے۔ مگر پھر جو احتجاجی پروگرامز شروع ہوئے تو سر اٹھانے کی فر صت نہ ملی۔ سب سے پہلے تو محضر نامے پر دستخط کروانا، جنرل ہیڈ کوارٹر میں ٹیلی گرام بھیجنا! ہمیں یقین ہے یہ طریقے سن کر جدید نسل حیران ہوگی کہ ای میلز کیوں نہ بھیجیں، ویب سائٹ پرکیوں نہ گئے، فیس بک پیج پر کیوں نہ پوسٹ بھیجیں؟ یا ٹوئٹر کا راستہ کیوں نہیں اختیار کیا؟ وہ تو ضرور کھولتے ہیں متعلقہ افراد !آسانی سے اپنی بات پہنچاسکتے ہیں۔ اب کیا کہیں شرم آتی ہے یہ وہ زمانہ ہی نہیں تھا سماجی رابطوں کا! مگر ایک بات تو طے ہے کہ طلبا ء وہی تھے جو آج ہیں وہی بے باکی، حق کو حق کہنا اور سمجھنا ! کسی غلط مطالبے پر no sir!کہنا تو طلباء برادری کو ہی زیب دیتا ہے۔اصو لوں پر ڈٹ جانے کا سبق تو اسی مخلوق کو یاد رہتا ہے۔باقی بے چارے تو روزگار کے ہاتھوں ہر بات پر yes Sir ! کہنے پر مجبور ہو تے ہیں۔

اب بھلا بتائیں ، محض دو ماہ پہلے تو تعلیمی اداروں میں الیکشن ہوئے تھے!  ہمارا خیال ہے کہ اس بات پر جدید نسل کا منہ ضرور کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔ یہ کون سا  event ہو تا ہے بھلا؟  یہ اس سوال کا جواب ہے جو سماجی رابطوں اور چینلز کی عدم دستیابی پر اٹھتا ہے کہ پھر آپ لوگوں کا وقت کیسے گزر تا تھا؟؟ جی ہاں! اس زمانے کاطالبعلم خصوصا جامعات کے طلباء اور طالبات مصروف ترین وقت گزارتے تھے۔ نصابی  سرگرمیوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں مگر ہم نصابی سرگرمیاں اس کو ہر دم رواں رکھتی تھیں۔

 

ایک تو منتخب یونین ہوتی تھی جس میں صدر ، نائب صدر کے علاوہ جنرل سیکریٹری ،جوائنٹ سیکریٹریز ( طالبات کی نمائندگی بھی ہوتی تھی) پھر پوری کابینہ ہوتی تھی۔۔۔ گویا مستقبل کے معماروں کے سامنے پورا الیکٹورل سسٹم ہوتا تھا اور صرف یہ ہی نہیں ہر ڈیپارٹمنٹ کی علیحدہ کابینہ ہوتی تھی۔۔۔ یوں صوبائی نظام کی سمجھ بھی آ تی تھی کہ کس طرح مرکزی طور پر رہتے ہوئے اپنے حالات و وسائل و صلاحیتوں کے لحاظ autonomously  کام کرنا ہے۔ مثلا شعبہ سیاسیات کے حالات اور محل وقوع شعبہ کیمسٹری سے بالکل جدا ہو سکتی ہے! پھر ہر ڈیپارٹمنٹ میں ہر ہر کلاس ( سال اول سے سال آ خر تک) کے گرلز اور بوائز representativeبھی ہو تے تھے۔ کسی کی فیس جمع کرانے کا مسئلہ ہے یا کسی کو پوائنٹ سے کوئی شکا یت ہے یا پھر نوٹس کی فراہمی حتٰی کہ سموسے منگوانا ہیں CR موجود۔۔۔۔۔۔۔گویا بلدیاتی کونسلرز کی تیاری بھی ہاتھ کے ہاتھ ہو رہی ہوتی۔

 

امیدواران ؍ نمائندگان پہلے دن سے کسی نہ کسی سینئر کو مثال بنا کر انکے مشوروں کی روشنی میں اپنا کام کرتے رہتے۔ اپنی صلاحیتیں بڑھانے کا ،اپنی شخصیت کو منوانے کا کریزجنون کی حد تک تھا۔ اپنے آپ کو بہترین نمائندہ جو ثابت کرنا ہو تا تھاانتخابات کے لئے! مگر ہو تا یہ تھا کہ وہ سب کچھ ذات کا اور شخصیت کا حصہ بن جاتا تھا ۔ اساتذہ کی آ نکھ کاتارہ، تو ساتھیوں کا ہر دم معاون و مددگار! ایڈ منسٹریشن بلاک سے لے کربنک کیمپس کی کلینک تک کوئی نہ کوئی بھائی مدد کو موجود ہوتا ! یہ سارا نظام ایک باشعور اور جمہوری روایات کے مطابق کام کر تا تھا۔جب اس موضوع پر لکھنے بیٹھے تو تو اتنا مواد نظروں کے سامنے آ گیا کہ اپنے ideas کو lock  کر نا مشکل ہو گیا جو کہ اس تحریر کو مکمل کر نے کے لئے بے حد ضرو ری ہے لہذا اپنی یا دوں کے چرا غ کو بجھا تے ہو ئے ہم اسی بات پر واپس آ تے ہیں۔

 

جی ہاں !۔۔۔  احتجا ج کر تے طلبہ سے جیلیں بھرگئیں۔ فر وری کی بہت سردشاموں میں طلبہ کو برف کی سلوں پر لٹایا جاتا تھاکہ یونین کو بحال کرنے کا مطالبہ واپس لو! جبر کی مشکل یہ ہی ہے وہ طاقت سے اپنی بات منوانے کی کو شش کرتی ہے مگر طلبہ بھی ڈٹ گئے ! انہوں نے اپنے مستقبل کی پروانہ کی۔ موسم بدلا ،انداز بدلے مگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا! تعلیمی ادارے بند تھے تا حکم ثانی !تمام طلبہ سمیت ہم اتنی طویل بندش سے عا جز آگئے تھے۔ ہماری امی نے اس دوران ہمیں وہ ہنر سکھانے کا ارادہ کرلیا جو ہم اپنے تعلیمی شیڈول کی وجہ سے نہ کر پائے تھے۔

 

ایک بڑی سی بیڈ شیٹ پر ڈیزائن چھپوا کر موتی ٹانکے سے کڑھائی ! ہم لاکھ ضعف بصارت کا بہانہ کرتے رہے مگر۔۔۔ کئی ماہ ان سرگرمیوں میں گزر گئے۔ قریب تھا کہ ہماری آنکھیں ہی موتی بن جاتیں کہ اچانک مئی کی ایک شام رمضان سے چند دن پہلے یونیورسٹی کھلنے کا اعلان ہوگیا۔ ادھوری چادر امی کے حوالے کرکے ہم دوبارہ سمسٹر میں جت گئے۔

 

عزیز قارئین ! فروری سے مئی تک کوئی ایونٹ نہیں تھا کہ آ یا اور گزرگیا تھا یہ تو ایک سیلاب تھا جو ہمارے ہاتھوں سے جمہوری روایات اور  شعور سمیت بہت کچھ بہا کر لے گیا! پھر تو جبر کا وہ نظا م آیا جس نے طلبہ کونسل کے نام پر دھڑے بندی کی۔ اور پھر علاقائی جماعتیں پروان چڑھائی گئیں۔ جامعہ کراچی جہاں اس سے پہلے پولیس داخل نہ ہوسکی تھی رینجرز کی قیام گاہ بن گئی۔ اس بات کو کم و بیش 25،سال گزر گئے۔ جب بھی رینجرز کی روانگی کی بات ہوتی ہے بدامنی کی ایک نئی لہر شروع ہوجاتی ہے۔

 

فرو ری کی اس شام جب یہ تحریر مکمل کی جارہی ہے تو کوئٹہ میں شہید ہونے والے اسی افراد کے سوگ میں دھرنا جاری ہے اور اسکول بند اور امتحانات ملتوی۔۔۔ اس موقع پرجبر کے ذریعے کیا گیا ایک فوجی حکو مت کا ناروا فیصلہ موضوع بن گیا اس کا حق تو ادا نہ ہو سکا کہ جز ئیات کے بغیر بات سمجھنی مشکل ہوتی ہے اور ربع صدی کی تاریخ کو چند پیراگراف میں پرتا ثیر طریقے سے بیان کر نا ممکن نہیں خصوصا جب اندازہ ہو کہ اس کی قاری وہ نسل ہوگی جس نے جبر کے نظام میں آ نکھ کھولی ہو!

 

بات صرف اتنی کہنی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوا کرتے تھے ،(جہاں کی سرگرمیاں بی بی سی، ریڈیو ماسکو اور وائس آف امریکہ سے مانیٹر ہوتی تھیں۔ آج بھی پنٹاگون میں زیر بحث ہوتی ہیں مگر زاویہ الگ ہے)۔ وہاں سے اسے اکھیڑ دیا گیا تو اب نہ وہ قیادت ہے نہ وہ روایات! جی ہاں پہلے تو جبر کا نظام ٹھونسا گیا پھر آہستہ آہستہ تعلیم سے وہ روح نکال دی جو حمیت اور حس پیدا کر تی تھی۔
جبھی توآج کا دس سالہ بچہ بھی وہ بن چکا ہے جو ہمارا دشمن چاہتا تھا۔۔۔
یہ صرف نوحہ نہیں ہے !
بلکہ ایک یاد دہانی ہے کہ اٹھ کر ان ہاتھوں کو پکڑلیا جائے جو ایک بار پھر پورے ملک میں جبر کا نظام چاہتے ہیں۔۔۔
جمہوری اور پارلیمانی طریقہ کار کو سبو تاژکر کے۔۔۔

فیس بک تبصرے

فروری کی اس شام۔۔۔“ پر 6 تبصرے

  1. ابھی اس تحریر کو پوسٹ کیا ہی تھا کہ اطلاع آگئی کہ رینجرز کو پولیس کا درجہ 3 ماہ کے لئے بڑھا دیا گیا جس کی مدت 22 فر وری کو ختم ہو رہی تھی۔ دیکھا! یہ سچ ہے کہ کراچی میں رینجرز اور بد امنی ساتھ ساتھ ہے۔ ہمیں بے اما ن کر نے والوں ، علم کا بیڑہ غرق کر نے والوں ، مایو سی اور خوف پھیلانے والوں کا محاسبہ ضرو ری ہے۔

  2. کراچی کے بارے سن رکھا ہے کہ وہاں کے طالب علم چھٹیوں کو نہیں ترستے انہیں تھوک کے حساب سے سالانہ پیکیج ملتا ہے ، آپ نے درحقیقت اس کی تشریح کر دی ، آپ سے یہ بھی اتقاق کہ ایسے عناصر کا محاسبہ ضروری ہے لیکن کون کرے گا محاسبہ؟ صرف ایک جرات مند ووٹ بس

  3. جی ہاں! ووٹ کی طاقت کو سمجھنا ضروری ہے! 5 سال قبل جعلی انتخاب کا جو ڈول ڈالا گیا اس نے قوم کو مز ید پیچھے کر دیا ہے۔ اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے اب استعفٰٰٰٰی دے کر اپو زیشن میں شامل ہو کر ان آ خری حدود کو بھی چھو لیا ہے جو انسان کو اس درجہ پر فائز کر تی ہیں

  4. اعلی تحریر ہے. اس تلخ حقیقت کے ساتھ کہ طلبہ یونین پر پابندی کے ذریعے قوم میں نئی اور نچلی سطح سے آنے والی قیادت پر بھی پابندی لگ گئی اور وہ دن ہے اور آج کا دن، ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے…

  5. صرف ڈکٹیٹرز کو ہی نہیں جمہوری لوگوں کو بھی نچلی سطع پر انتخابات سے خوف آتا ہے.
    جامعہ کراچی میں رینجرز کے قیام کی مدت میں اضافہ قابل مذمت ہے.

  6. آج طلباء کو جمہوری حق کے علاوہ تمام دیگر حقوق حاصل ہیں مگر بنیادی حق سے محروم

    اٹھو میری ملک کے نوجوانوں ایوانوں کو ہلادو

Leave a Reply