فروری کے پہلے ہفتے میں امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی عوام کو پہلی بار اعتماد میں لینے کے لیے متنازعہ ڈرون حملوں پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ” یہ ڈرون حملے اپنے اہداف پر مرکوز ہوتے ہیں اور زیادہ شہری اس کی زد میں نہیں آتے، ان حملوں کے نتیجے میں ایسے دہشت گرد نشانہ بنتے ہیں جو افغان سرحد عبور کر کے امریکیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں” اگلے ہی دن بیورو آف انوسٹی گیٹو جنزلزم کی ایک جاندارتحقیقاتی رپورٹ نے اعتماد پیدا کرنے کی اس کوشش کا بھانڈا پھوڑ دیا اور واضع طور پر بتایا گیا کہ سی آئی اے وار آن ٹیرر کے نام جاری جنگ میں ڈرون حملوں سے اب تک درجنوں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا چکی ہے جو یا تو متاثرہ جگہ پر زخمیوں کی مدد کو پہنچتے ہیں یا ہلاک شدگان کے جنازہ میں شامل ہوتے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے جاری ڈرون حملوں میں اب تک 2629 سے 3461 افراد مارے جا چکے ہیں اور 1267 سے 1431 زخمی رپورٹ ہو چکے ہیں 2004سے بش انتظامیہ کی طرف سے شروع کی جانے والی اس ڈرون مہم میں اس وقت شدت آگئی جب باراک اوباما نے صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ اب تک کیے جانے والے 363 حملوں میں سے 311 حملے باراک اوباما کے دور حکومت میں ہو ئے ہیں جو کہ کل کیے جانے والے ڈرون حملون کا 86 فیصد بنتا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہےاوسطا چار دنوں میں ایک حملہ ضرور ہو جاتا ہے جس میں مرنے والوں کی غالب اکثریت معصوم قبائیلیوں کی ہوتی ہے چونکہ یہ حملے انٹیلی جنس زرائع مراد سی آئی اے کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اس لیے ہلاک شدگان کے اعداد و شمار منظر عام پر نہیں لائے جاتے- ایسی صورت میں درست اعداد و شمار کا حصول ایک کٹھن کام بن چکا ہے کیونکہ یہ علاقہ نہ تو عالمی میڈیا کی دسترس میں ہے اور نہ ہی پاکستانی میڈیا یہاں تک پہنچ پاتا ہے نتیجتا اب تک اس حوالے سے معلومات منظر عام پر آتی ہیں وہ زیادہ تر مفرضوں اور مقامی زرائع سے حاصل کی جاتی ہیں لیکن اس بات سے کسی صورت انکار ممکن نہیں کہ وزیرستان میں ڈرون حملوں سے معصوم شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔
16 مئی 2009 کو شمالی وزیرستان میں پہلا ڈرون حملہ کیا گیا جب چند طالبان مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد قریبی کسی کاروائی کی تیاری کرنے لگے اس حملے میں درجن بھر طالبان نشانہ بنے حملے کے چند لمحوں بعد مقامی لوگ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور نعشوں اور زخمیوں کو اٹھانے ہی لگے کہ امریکی ڈرونز نے دوبارہ حملہ کر دیا گیا اس بار دو میزائل پھینکے گئے جس سےکل 29 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- بیورو آف انوسٹی گیٹو جنزلزم نے اس ضمن میں ایک اور واقعہ کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں عام شہری ڈرون حملے کی زد میں آئے 23 جون 2009 کو طالبان کے ایک اہم رہنما خواز ولی محسود کو نشانہ بنایا گیا اور ایک شرمناک پلان ترتیب دیا کہ جیسے ہی ولی محسود کے نماز جنازہ میں بیت اللہ محسود آئیں گے نماز جنازہ پر ڈرون سے حملہ کر دیا جائے گا ایسا ہی کیا گیا 5000 سے زائد لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے جس میں ایک بڑی تعداد عام قبائلیوں کی بھی تھی پھرحملہ کر کے 83 افراد کو شہید کر دیا گیا جس میں غالب اکثریت عام شہریوں کی تھی، امریکہ کو اس حملے میں حزیمت اس صورت بھی اٹھانی پڑی کہ بیت اللہ محسود محفوظ رہا – قبائلی کونسل کے اجلاسوں میں بھی معصوم لوگ ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ مارچ دو ہزار گیارہ میں قبائلی جرگے پر حملہ کیا گیا جس میں چالیس افراد ہلاک ہوگئے۔
امریکہ اس بات کو ماننے پرتیار نہیں جس کا اظہار اوباما نے اپنی حالیہ گفتگو میں بھی کیا کہ عام شہری کم ہی نشانہ بنتے ہیں لیکن وزیرستان میں موجود تمام طبقات اس بات کے گواہ ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں طالبان کے بجائے عام شہریوں کو جانی و مالی نقصان اتھانا پڑ رہا ہےحتی کہ وہاں ڈیوٹی دینے والے پاکستانی فوجی کمانڈر عبد اللہ ڈوگر نے تسلیم کیا کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کو اڑایا جا رہا ہے اور کہا کہ “میں یہاں موجود ہوں اور مجھے سب معلوم ہے لیکن ہمارے دوست (امریکی) کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے” عبد اللہ ڈوگر نے نومادا بس ڈپو میں ہونے والے امن جرگہ پر حملے کا بھی حوالہ دیا جس میں بمشکل ایک یا دو طالبان نمائندے موجود تھے لیکن ڈرون سے حملہ کر کے 42 سے زائد معصوم امن پسند قبائلیوں کو شہید کر دیا گیا۔
ان ڈرونز کو دہشت گرد ڈرونز کا بجا نام دیا گیا ہے کیوں کہ بغیر کسی ثبوت اور احتیاط کے انسانی حقوق کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہےاور جولوگ جذبہ انسانیت کے تحت زخمیوں کی مدد کو پہنچتے ہیں اور پتھروں سے نکالنے کی جرات کرتے ہیں وہ ان ڈرون حملوں سے اڑا دیے جاتے ہیں ، ریڈ کریسنٹ اور ریڈ کراس کے کپڑوں کے بجائے سادہ کپڑوں میں ملبوس ان معصوم ریسکیو کارکنوں پر حملہ کرنے کے لیے امریکہ کے پاس اتنا جواز کافی ہے کہ وہ وہاں پر موجود لوگوں کی مدد کو پہنچے تھے یا ان کا جنازہ پڑھ رہے تھے۔
(جاری ہے)
يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے کہ پاکستان اور امريکہ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ ميں باہم اتحادی ہيں اور اس سلسلے ميں دی جانے والی مالی امداد اور فوجی اساسوں کے استعمال ميں شراکت دونوں ممالک کے درميان اس باہمی اتحاد کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان کی سول حکومت اور عسکری قيادت دونوں نے اس ضمن میں اپنی پوزيشن کا اعادہ کيا ہے اور عوامی سطح پر امريکہ اور پاکستانی کے درميان پاکستانی حدود کے اندر ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے ليے تعاون جاری رکھنے کی توثيق بھی کی ہے۔
ايک اندازے کے مطابق پاکستان ميں دہشت گردی کی کاروائيوں کے نتيجے ميں اب تک ايک ہزار سے زائد پاکستانی فوجی اور سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہيں۔ يہ حقيقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں ميں دہشت گرد تنظيميں سرگرم عمل ہيں اور ان کی کاروائياں صرف سرحد پار نيٹو افواج تک ہی محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستانی شہری بھی اس سے محفوظ نہيں ہيں۔ دہشت گرد امريکہ، پاکستان اور عالمی برادری کے مشترکہ دشمن ہيں اور اس خطرے کے خاتمے کے ليے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فريقين کو اپنے دائرہ کار کے اندر کوششيں کرنا ہوں گی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ