ڈیجیٹل دنیا۔۔۔

’’خواتین کے لئے بھی یہ ہی ہدا یات ہیں ۔ بس جہاں  گا  ہو  گی   کر لیں اور جہاں   کا  ہو  کی  کر لیں۔۔۔‘‘  دھیمے دھیمے لہجے میں شام کے جھٹ پٹے وقت کہی گئی بات  پورے آ ڈیٹوریم میں شگفتگی بکھیر گئی۔
یہ تھے محترم لیاقت بلوچ جو ورکشاپ کے شر کا ء سے مخا طب تھے ۔ان کو بارہا سنا ہے! کبھی پس پردہ اجتما عات میں ِ کبھی دھر نوں میں!کبھی تحریری سر کلرز میں تو کبھی بالمشافہ سٹیج پر ، کبھی ٹی وی کے پر دے پر اورریڈیائی لہروں پر دیکھا اور سنا ہے مگر فر وری کی اس شام منصورہ کے آ ڈیٹوریم میں سننے اور دیکھنے کا پہلا مو قع تھا ۔ لہجہ شفقت اور نئی نئی بزر گی لئے ہو ئے ! کچھ ایسا تحفظ بھرااحساس جو والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی میں خود بخود عود کر آ تا ہے! ’’ بالکل قاضی صاحب کی جھلک ابھر رہی ہیــــ۔۔۔۔‘ ‘ اس تا ثر کو ہم نے اپنے ساتھی سے share   کیا تو انہوںنے بھی تائید کی ۔

 

یہ موقع تھا ڈیجیٹل میڈیا لیڈر ورکشاپ کا جس میں پورے ملک کے منتخب افراد شریک تھے۔ سیکھنے اور سکھا نے کے بھر پور ارادوں اور عزائم کے ساتھ ! جب اس پروگرام کی باز گشت سنی توہم نے فورا معذرت کر لی یہ کہہ کر کہ ’’ ۔۔۔۔۔۔نئے افراد کو موقع ملنا چاہئیے تاکہ وہ اس میدان میں بہترین تر بیت کو استعمال کر سکیں مگر ہمارا یہ عذر رد ہو گیا یہ کہہ کر کہ بڑوں کو بھی know how ہو نا چا ہئیے تاکہ نئے افراد کو چیک کیا جا سکے ( ہمارا بھی یہ خیال ہے کہ بچوں کو انٹر نیٹ پر  access دینے سے پہلے والدین خصو صا ماں کو سب کچھ آ نا چاہیئے تاکہ مانیٹر کیا جا سکے۔ اور یوں بھی ہر پیشے اور شعبہ زندگی میں دو نسلیں موجود ہو تی ہیں ایک دوسرے کی رہنمائی اور کام کی وسعت کے لئے، سوائے اس ڈیجیٹل ورلڈ کے ! چنانچہ یہ تو ایک ضرو رت بھی ہے)۔بات سمجھ میں آئی تو عذر واپس لے کر شر کت کی حامی بھرلی۔

 

یہ پہلی بیرون شہر ورکشاپ تھی جس میں سوائے موسم کے حوالے سے کوئی اور تیا ری نہ کر نی تھی۔جی ہا ں ! نہ کوئی رپورٹ پیش کر نی تھی نہ کوئی اسائینٹمنٹ جمع کرا نا تھا ۔نہ انتظامی امور کی کو ئی ذمہ داری تھی نہ کوریج کی کوئی تگ و دو کر نی تھی ۔گویا ایک فریش موڈ اور مائینڈ کے ساتھ سفر کر نا تھا اور ہم ذوق ساتھیوں کی سنگت نے اسے اور دلچسپ بنا دیا تھا۔PIA  کی پرواز 302کے ذریعے جب ہم وقت مقررہ پر لاہور ائر پورٹ پر اترے تو باکمال جوگ اور لاجواب سر وس کا سلو گن یاد آ گیا (پچھلے تمام برے تجر بے ذہن سے مٹ گئے بالکل اس طرح جیسے دوست کی ایک مہر بانی اس کی تمام زیادتیوں کو بھلا دیتی ہے)  ۔ایک شاک جو موسم کے حوالے سے لگا ۔کراچی جیسا ہی تو تھا موسم  خواہ مخواہ اتنا ڈرا دیا تھا لوگوں نے!

 

تقریبا ایک گھنٹے بعدہم منصورہ کے آڈیٹوریم پہنچے ۔ خواتین کے مخصوص  حصے میں جاکر بیٹھے تو ورکشاپ شروع ہو چکی تھی اور وقاص جعفری اس کے حوالے سے کچھ بریفنگ دے رہے تھے۔ اس کی اہمیت اور اغراض و مقا صد پر روشنی ڈال رہے تھے۔ اگلاپروگرام فورا ہی شروع ہو گیا موضوع تھا  سو شل میڈیا اور سیا سی تحرک ! بہترین تیاری کے ساتھ کنڈکٹر تھے زبیر صفدر ! مختلف نظر یات اور ان کا پھیلائو َ ! بڑی دلچسپی کے ساتھ پروگرام دیکھا گیا۔ سب سے اہم بات جو ابتدا میں ہی واضح کر دی گئی کہ سوشل میڈیا بذات خود کوئی نقلاب نہیں ہے بلکہ ایک تدریجی عمل ہے ۔ہمیں ڈاکٹر عطا الرحمٰن یا د آ گئے جو انفارمیشن ٹیکنا لوجی کو دھماکہ کہہ کر ڈرا گئے تھے جبکہ یہاں یہ کہا جا رہا تھاکہ انقلاب کوسوشل میڈیا  صرف promote  کر سکتا ہے ! نظر یہ کے بغیر کچھ بھی موئثر نہیں ہو تا۔ انہوں نے مثالوں سے بتایا کہ عرب بہار کے دوران Facebookمظاہروں کے شیڈول بتانے ، Twitterکو رابطے میں رہنے کے لئے استعمال کیا گیاجبکہ Youtube  کے ذریعے دنیا کو دکھا یا اور بتا یاگیا ۔ کیا؟؟ جی ہاں فرعونوں اور استعمار کے کر توت!گویا سو شل میڈیاToolہے، متبادل پریس ہے، آگاہی کا ذریعہ!

 

اس تھیوریٹیکل پروگرام  کے بعد اگلا پروگرام خالصتا پریکٹیکل تھا! یعنی ویڈیو ؍ فوٹو گرافی ؍ رپورٹنگ کے طریقے، ! جناب سلمان شیخ نے بڑی موئثر presentationپیش کی۔ ہماری دلچسپی ذرا کم تھی مگر پروگرام بے حد معلوماتی تھا۔ بنیادی Tipsدی گئیں! Vlogکی اصطلاح بہت پسند آ ئی۔ تصاویر اور ویڈیو کس طرح نظریہ کے پھیلائو میں کام کر تی ہیں ۔ اس کے بعد کھانے اور نماز کا وقفہ تھاجس کے لئے ہمیں اپنی قیام گاہ تک جانا تھا ۔اس کے لئے بھی دروازے اور اوقات وہ اختیار کر نے تھے جن کی ہدایات دی جارہی تھیں ۔ یہ ہی تو تنظیم کی خو بصورتی ہے ! کہیں بے لگام نہیں چھوڑا جا تا۔

 

تین بجے دوبارہ پروگرام شروع ہوا۔ انتخابات میں سوشل میڈیا کے کر دار پر ڈاکٹر واسع شاکر کی ورکشاپ حسب توقع بہترین تھی۔ الفاظ کا چنائو، اعداد و شمار کا استعمال گویا ہر چیز نگینے کی مانند فٹ تھی   composed,handyاور provoking! انگریزی پر معذرت مگر کیا کریں ؟ کہیں نہ کہیں آ کر اس کا سہارا لینا ہی پڑ تا ہے ! یہ وقت اونگھنے کا ہوتا ہے مگر اس ورکشاپ نے نہ مہلت دی نہ ضرورت محسوس ہوئی اور سب مگن ہو کر  اپنے اپنے اہداف کو طے کر نے میں مگن رہے ۔ درمیان میں نماز عصر کا وقفہ تھا جو زیادہ تر خواتین نے وہیں ادا کی۔

 

چند منٹوں بعد پروگرا  م شروع ہوا تو لیاقت بلوچ صا حب کی گفتگو تھی۔ موضوع تھا : سوشل میڈیا کارکنان سے توقعات! مختلف النوع ہدایات دینے کے بعد سوالات کے جواب میں انہوں نے وہ جملہ کہا جو ہم نے اس مضمون کے آ غاز میں تحریر کیا ہے۔ با خبر رہنے پر زور دیااور  مختلف options سے آ گاہی ۔ انہوں نے مز ید کہا ’’  ۔۔۔۔۔ اس ضمن میںعرب بہار کا ذکر کیا جاتا ہے تو کیا پوری جدوجہدکوئی حیثیت نہیں رکھتی؟۔۔۔۔۔وہ تمام تر قر بانیاں جوعرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کا یہ جملہ اس تھیوری کی وضاحت کر رہا تھا کہ سو شل میڈیا محض ایک ذریعہ ہے مقصد نہیں ! اپنے خیالات کی تصدیق پر بڑی مسرت تھی ہمیں! اس موقع پر اپنا ایک آ رٹیکل یاد آ یا جو اس سلسلے میں دو سال پہلے لکھا گیا تھا۔ فورا اسے upload کر نے کا سوچا۔ اذان مغرب کے ساتھ ہی گفتگو کا طلسم ٹو ٹا تو ہم خیالات کے جزیرے سے واپس ہوئے۔

 

نماز کے بعد پروگرام جب شروع ہوا تو سوشل میڈیا کی باقاعدہ بریفنگ کا اہتما م تھا۔اگریہ پروگرام مختصر ہوتا تو زیادہ بہتر ہو تالیکن کیا ہو کہ سوشل میڈیا تو ایک سمندر ہے جس میں اتر کر موتی حاصل کر نا دقت طلب کام ہے !ابر نیساں سے صدف بننے میں وقت تو لگتا ہے نا!شاہد عباسی نے بڑی تفصیل سے twitter کا موثر استعمال بتانے کی کو شش کی۔ کوشش کا لفظ ہم نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اس وقت تک ہمارے ذہن کا اندرونی دروازہ بند ہو چکا تھا لہذا بیرونی گیٹ پر جتنا کھڑ کائو کوئی رسپونس نہیں آ رہا تھا ۔ یہ ایک لحاظ سے motivational  ورکشاپ تھی جس میں ٹوئٹر کے استعمال میں بڑی عمدہ tips دی گئیں۔ خصوصا آ غاز میںپیش کی جانے والی سر گر می نے بڑی حیرت انگیز معلومات دی کہ بر طانوی اور امریکی تحقیق کے مطابق ہم 60%ابلاغ خاموشی کی زبا ن میں کر رہے ہو تے ہیں ! ہمیںاپنے  وہ تمام followers یاد آ گئے جنہوں نے آج تک کوئی ٹو ئیٹ نہیں کی! گویا وہ ابلاغ کی زبان میں صرف سامع ہو تے ہیں!

 

آج کے پروگرام کا اختتام اسی پرو گرام کے ساتھ ہو گیا اور ہم اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ کھانے اور نماز کے علاوہ کسی اور سر گر می کی نہ ہمت تھی نہ وقت!  چنانچہ ہم سب لیٹ گئے بلکہ سو ہی چکے تھے کہ ایک آ واز آ ئی کہ بہن سمیحہ راحیل قاضی سے ملنے جانا ہے۔ عام حالات میں شاید اس بات کی اتنی اہمیت نہ ہو تی مگر قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی یادوں کو تازہ کر نا ،ان کے ذاتی ورثا ء سے تعزیت کر نا ایسا محرک تھا کہ ہم بستر سے باہر آ گئے۔

 

چار خواتین کا قافلہ کوئٹہ سے آ نے والی بہن بنت مولانا عبد الحق کی سر برا ہی میں چند قدم کے فاصلے پر واقع بہن راحیل کے گھر پہنچے تو گھر کا گیٹ سر پٹ کھلا ہوا تھا۔ کراچی کے رہنے والے اس منظر کو ترستے ہیں  !!! اندر پہنچے تومنتظر اور ممنون پایا۔ ان کے یہاں چند روز قبل ہی ما شاء اﷲپوتی صاحبہ تشریف لائی ہیں ۔ خو شی اور غم کی ملی جلی فضا نظر آ ئی ۔ مومن ہر دو صورتوں میں را ضی برضا ہو تا ہے! نو مولود کا نام مر وہ رکھا گیا ہے۔ والدین کا سب سے پہلا تحفہ نام ہو تا ہے ! جس  نسبت سے رکھا جاتاہے وہ ضرور اس کی شخصیت میں جھلکتا ہے۔ اس خوبصورت ملاقات کو ختم کر نے کا کسی کا دل نہیں چا ہ رہا تھا مگر ۔۔۔

 

اگلی صبح نو بجے سے پروگرام کا دوبارہ آ غا ز ہوا ۔ سب سے پہلے ڈاکٹر نعیم صفدر نے جماعت اسلامی فورم کے بارے میں ایک ٹھوس اور سنجیدہ پروگرام پیش کیا ۔ یہ در اصل کوزے کو دریا میں بند کر نے والا معاملہ تھا۔ پوری کی پوری لائبریریاں اس میں جمع کی گئی ہیں اور ہنوز کام جاری ہے ! اﷲہمیں اس کام سے مستفید ہو نے کی تو فیق دے !  اگلا پرو گرام پچھلی رات والی ورکشاپ کا تسلسل تھا۔ اب Facebookکا موئثر استعمال بتا یا گیا۔ کچھ ایسی باتیں سمجھ میں آ ئیں جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنتی تھیں مگر اس لئے پو چھنے کی ہمت نہ ہو تی تھی کہ کیا کہیں گے انہیں یہ بھی نہیں معلوم ! یہاں سب کچھ بتادیا گیا۔

 

اس کے بعد جو دو پرو گرام تھے وہ خاص ہماری دلچسپی کے تھے یعنی بلاگنگ!! اس لفظ کاصوتی تا ئثر ہمیں بہت اچھا لگتا ہے بالکل جاگنگ کی طرح جو ہم کبھی نہ کر سکے ۔آج سے چھے سال قبل جب لفظ blogسے آشنا ہو ئے بلکہ ہم سے مطالبہ ہوا کہ آ پ اپنا بلاگ بنائیں تو ہم نے جن لوگوں سے مشورہ کیا اس سلسلے میں تو انہوں نے ہمیں شدید مایوس کیا یہ کہہ کر کے آ پ کے لئے بہت مشکل ہے ۔ لہذا اس بھاری پتھر کو ہم صرف چوم کر رہ گئے۔باوجود اس کے کہ کچھ  بلاگز پڑھ کے ہمارے اندر ابال سا اٹھتا تھا کہ جب وہ لو گوںکو misguide کر سکتے ہیں تو ہم کیوں ان کی رہنمائی نہیںکر سکتے؟ مگر ۔۔۔ لیکن آج کھلنڈرے سے فہد کیہر نے اتنا آ سان بنا کر پیش کیا کہ لگا کہ ہم بھی کر سکتے ہیں ( آخر اردو کمپوزنگ بھی تو ہم نے سیکھ ہی لی نا!) ۔ یہ پروگرام بھی بہت زیادہ معلوماتی تھا ۔کچھ تیکنکی مسائل کے حل بھی پیش کئے گئے۔رائٹر بلاگر بن سکتا ہے ،یہ بات بھی خا صی حو صلہ افزا تھی ۔ جو چار پیرا گراف لکھ سکتا ہے اس کے لئے فیس بک اور ٹو ئٹر صحیح میدان نہیں ! اس بات سے تو ہمیں سو فی صد اتفاق ہے۔کسی بھی ایشو پرone line post /tweet   لکھ کر ہم اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں جبکہ اس پر اچھا خاصہ مضمون لکھ کرتسلی بخش معلو مات اور رہنمائی دی جا سکتی ہے۔

 

بلاگز کے سلسلے کا دوسرا پروگرام زبیر منصوری صاحب کا تھا ۔ انہوں نے بھر پور طریقے سے ذہن کے مفید اور بہترین استعمال پر جاندار سر گر می کر وائی ۔intro بہتر بنانے پر توجہ دلائی۔creative positiveاس ورکشاپ کا تھیم تھا ۔ سر گر میوں سے بھر پور ! لگتا تھا کہ وہ بلاگرز کو سکہ بند اور معروف کالم نگاروںکی فہرست میں ایک ہی جست میں پہنچا کر رہیں گے! ان شا ء اﷲ!اس segmentکے بعد کھانے اور نماز کا وقفہ تھامگر جس کے دوران حلقہ خواتین کے ساتھ ذمہ داران کی نشست ہو ئی۔ کچھ باتیں specific  ہو ئیں اور اس بات پر زور دیا گیا کہ نئی افرادی قوت کو بھر پور طریقے سے virtual team   کا حصہ بنا یا جائے۔ اس کے بعد کچھ شر کاء  جماعت کے سوشل میڈیا ڈیپاٹمنٹ کا دورہ کر نے چلے گئے۔ ہم نہ جا سکے افسوس رہا!

 

دوپہر کے کھانے اور نماز کے بعد تین بجے آ خری سیشن تھا۔ ایک مذا کرہ تھا ۔ سوشل میڈیا اور انتخا بات ! بڑی اچھی اچھی تجاویز او ر کام کے طریقے سمجھ میں آئے۔ ووٹرز لسٹ کے ذریعے کام کی نئی جہت کو ہم نے بڑی دل جمعی سے نوٹ کیا کہ اپنی یو سی ناظمہ کے سامنے پیش کریں گے ۔ مگر پھر یہ سوچ کر ہم زیادہ خوش نہ ہو سکے کہ کراچی کے حالات میں ووٹرز لسٹ کے تحت کام ؟ دانتوں تلے پسینہ آ جاتا ہے ۔ بہر حال ہم جس جماعت کا حصہ ہیں وہا ں ہر طرح اور سطح کے کام کی حکمت عملی موجود ہے۔ بس توجہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی ہے۔سوشل میڈیا بہت کچھ ہے ،مگر سب کچھ نہیں ہے!جز ہے مگر کل نہیں ہے!!!جماعت اسلامی آن لائن اور آن گرائونڈ دونوں جگہ موجود ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنی ان 90%سر گر میوں کو سامنے لانا ہے جو کارپوریٹ میڈیا نہیں دکھاتا! اس پروگرام کے بعد نماز عصر کا وقفہ تھا۔خواتین نے وہیں صفیں باندھ لیں اور مرد شر کا ء مسجد کی طرف!

 

نماز کے بعد جب حضرات واپس آ ئے تو اپنے جلو میں سید منور حسن کو لئے ہو آ ئے۔ نعروں کو گونج ختم ہو ئی اور سب بیٹھے تو محترم امیر کامسکرا تا چہرہ نظر آ یا ۔ دل چاہا ان تمام اینکرز کو یہ دکھا سکوں جو اپنے  پروگرامز میں سید صاحب کے مزاج کی صرف اور صرف سختی کو ہی ہائی لائٹ کر تے ہیں !  ہو حلقہ یاراں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے خطاب کا ہر لفظ موتی تھاجسے ہم سب نے چن لیااپنے عمل کی مالا بنانے کے لئے! یوں تو ان کو سنتے ہی رہتے ہیں مگر اس براہ راست سننے کا تائثر ہی کچھ اور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے فوٹو سیشن تھا۔شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں ! ہمیں کچھ بو جھل پن محسوس ہوا ذمہ داری کے احساس سے! یہ سو چ کر کہ ہر نعمت اور ہر علم ایک ہتھیارہے جس کے درست استعمال کا جوا ب دینا ہے! اﷲہماری مدد فر ما!

 

نماز مغرب کے بعد تھوڑا وقت تھا ہماری فلائٹ میں ! چنانچہ ہم سب باتوں میں مصروف ہو گئے۔ کچھ خواتین کتب کی خریداری کے لئے تشریف لے گئیں ۔ اس دوران رات کے کھانے کی اطلاع آ پہنچی۔ چنانچہ ہم سب کھانا کھا کر ائر پورٹ روانہ ہو ئے ۔وہاں پہنچے تو بورڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ جہاز میں بیٹھے تو سخت گر می لگی۔ہمیں کچھ عر صے پہلے ہونے والاوقعہ یاد آ گیا جب جہاز میں آکسی جن کی شدید کمی کے باعث بہت سے مسافر بے ہوش ہو گئے تھے۔ یہاں ایسی کوئی بات نہ تھی ۔ہاں البتہ وہ تمام گرم ملبوسات جو ہم نے اٹھانے کے خوف سے اپنے اوپر لاد لئے تھے،ہمیں خفقان میں مبتلا کر رہے تھے۔ جہاز روانہ ہوا تو کچھ افاقہ ہوا۔

 

گھر واپس آ ئے تو ذمہ داری کے ایک نئے احساس کے ساتھ !جاتے وقت جتنے ہلکے پھلکے تھے واپسی میں اتنے ہی بوجھل !  ڈیجیٹل ورلڈ کے چیلنجز سے نمٹنا آسان ہے کیا؟علم طاقت ہے مگر گدھے پر لدے بوجھ کی طرح نہیں بلکہ کار نبوت کی طرح ! گر مقاصد واضح اور ہدف متعین ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ! دائرہ کار حلقہ خواتین ہو یا حلقہ انتخاب ! مگر شرط بس خون جگر کی ہے!
نقش ہے نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر ( اقبال)

فیس بک تبصرے

ڈیجیٹل دنیا۔۔۔“ پر 2 تبصرے

  1. بہت اچھی اور تفصیلی روداد ہے ۔پسند آئی.

  2. ماشاء الله بہت اچھی تحریر ہے، گو کہ بعض الفاظ کےہجےپکارپکارکراپنے غلط ھونے کا اعلان کر رہے تھے، مگر کسی نے تو آی ٹی ورکشاپ کی روداد لکھنی تھی۔ اللە کرے زورِقلم اور زیادە

Leave a Reply