لاہور میں ہونے والے 27 ویں کتاب میلے میں جانا ہوا۔ یہ کتاب میلہ دراصل لاہو رسطح کی ایک بہت بڑی سرگرمی تھی ۔پہلے یہ کتاب میلہ فورٹ ریس سٹیڈیم میں منعقد ہوتا تھا اور اب ایکسپو سنٹر لاہور میں ہوتا ہے ، کچھ ہی سال پہلے بننے والایہ ایکسپو سنٹر لاہو رکی بڑی سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہے۔ لاہور سیاسی، علمی اور تہذیبی طور پر رجحان ساز شہر ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس کی یہ حیثیت برقرار ہے۔ لاہور سے اٹھنے والی تحریکیں اپنے منطقی انجام کو پہنچیں اور ان تحریکوں کے دورس اثرات اپنے نتائج تک پہنچ کر رہے۔
دور جدید کو کمپیوٹر کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر میدان میں اپنا لوہا منوارہی ہے ا ور ہر آنے والا دن اس کی نئی فتوحات کی خبر دیتا ہے۔ اب کتابیں بھی ڈیجیٹل ہونے لگی ہیں۔ اور اس جدید ٹیکنالوجی کی طرف نوجوان نسل کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ امریکہ اور یورپ میں انٹر نیٹ ،فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال کے باوجود چھپنے والی کتابیں لاکھوں میں ہوتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں ۔ اس لئے آنے والے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہ ہوسکے گی۔ لاہور میں سجنے والا یہ کتاب میلہ ، کتاب دوستی کی رجحان کو فروغ دیینے اور پروان چڑھانے کا ایک عمدہ اور اہم ذریعہ تھا۔ اقبال نے کہا تھا کہ
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگرصاحب کتاب نہیں
صاحب کتاب ہونا بڑی بات ہے یہ ہر کس وناکس کے بس کی بات بھی نہیں۔ اس موقع پر مجھے امام غزالی ، ابن تیمیہ ، ابن جوزی، امام سرہندی،شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اور موجودہ زمانے کے صاحبان کتاب اقبال، شبلی نعمانی ،سید سلیمان ندوی، حمید الرین فراہی، اشرف علی تھانوی، عبد الماجد دریا بادی، محمد علی جوہر، سید مودودی، امین احسن اصلاحی، سید ابو الحسن ندوی، مسعود عالم ندوی، اسعد گیلانی اور نعیم صدیقی یاد آئے۔ کتاب لکھنا اتنا آسان تو نہیں۔ ویسے آج کل کے دور میں کتاب لکھنا کوئی کام نہیں رہا، ہر روز کتنی ہی نئی کتابیں چھپتی ہیں لیکن جن کتابوں کو پذیرائی حاصل ہو وہ کم ہی لکھی جاتی ہیں۔ ان کے لیے دلسوزی ، رتجگا اور اخلاص کے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے کتاب کے ساتھ دوستی سے انکار نہیں ۔ لیکن جن کو کتابوں کے بغیر نیند نہیں آتی اور جن کا اوڑھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے وہ شاید اور لوگ ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔
ایک زمانے میں لائبریریاں علم دوستی، کتاب دوستی کو فروغ دیتی تھیں۔ آج بھی دیتی ہوںگی۔ لیکن لائبریوں سے استفادہ کرنے والے گنے چنے لوگ ہوتے جنہیں کتابوں کا لپکا بلکہ چسکا ہوتا ہے اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے گھروں کی سجاوٹ کا ایک ذریعہ کتابیں بھی ہوگئی ہیں ۔ ایک ہی رنگ کے درو دیوار ، اسی رنگ کے پردے اور شیلف میں اس رنگ کی سجی کتابیں۔
ایکسپو سنٹر میں کتابوں کا شہر ،واقعتاً خوبصورت شہر تھا۔ بچوں ، بوڑھوں خواتین، مردوںاورنوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کتاب میلے کی رونق تھی۔ سٹالز میں نمایاں دینی کتب کے سٹالز تھے، سکول کے بچوں کے لئے نئی طرز کی کتابیں، نئے نئے ڈیزائن ، کتابوں کے ساتھ CD’sیعنی بولتی کتابیں ، انگریزی کتب کے سٹال پر کتابوں کی ایک دوسری دنیا تھی۔ ناول ، ڈرامے، ریسرچ تھیسس، مغرب، اسلام، اکنامکس ۔ بچوں کے حوالے سے نصابیات، سکولنگ کام کرنے والے زیادہ تر ادارے کراچی سے تعلق رکھنے والے تھے۔بچوں کے حوالے کام کی کئی جہتیں ہیں ۔ جس میں تمام تربیت وتہذیب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ گو کہ کراچی اب وہ کراچی نہیں رہا ۔جو پہلے ہوتا تھا جہاں علم و ادب کی سرپرستی ہوتی تھی۔ اب تو یہاں بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ کا راج ہے۔ بی بی سی اور ریڈیو جرمنی نے بھی اپنے اپنے اداروں کی ترویج و ترقی کے سٹال لگائے ہوئے تھے۔ بی بی سی کے سٹالز پر وسعت اﷲ خان موجو د تھے جبکہ وائس آف جرمنی کے سٹال پر ہمارے دوست تنویر شہزاد۔
چند سٹال زیادہ توجہ لے رہے تھے۔ آفاق نصابی کتب کا ادارہ ہے۔ اس کے سٹال پر عمر وسیم ، سیف الرحمن ، عثمان ایوب مل گئے۔ کتابوں کے اس شہر میں لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ ، نئی بات کے ایڈیٹر عطاء الرحمن ، دنیا نیوز کے کالم نگار عامر خاکوانی ، جنگ کے سید ارشاد عارف اور رئوف طاہر، سید وقاص جعفری اور نذیر احمد جنجوعہ بھی علم دوستی کا دم بھرتے نظر آئے۔ جماعت اسلامی دینی جماعت ہے مگر اس کے ساتھ علمی وفکری اور ، عصر حاضر میں اسلام کا حرکی تصور پیش کرنے والے سید مودودی کی جماعت ۔اظہر اقبال حسن، ذکر اﷲ مجاہد، عبد العزیز عابد اور ظہور وٹو سے بھی ملاقات رہی۔ یہ سب اسلامی جمعیت طلبہ کے واسطے سے جماعت میں آئے۔
لبرٹی، الائیڈ، گابا، سنگ میل ، مکتبہ اسلامیہ، اسلامک پبلی کیشنز، دارالسلام ڈوگر، مکتبہ عائشہ، الفیصل ، انجمن ترقی اردو، نشان منزل، اذان، احسن الکلام،ترک کتابوں کا ہارمنی ، نگارشات، آکسفورڈ ، دارالہدیٰ، ریڈنگز، ملٹی لائن پیر ا مائونٹ، مطبوعات سلیمانی اور خدام القرآن نمایاں تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ایرانی کتابوں کا اسٹال موجود تھا ،جہاں پرانی کتب بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔ پنجاب حکومت کے بعض ادارے اپنا اپنا سٹال سجائے بیٹھے تھے اورلوگوں کی رہنمائی کررہے تھے۔ یہ کتاب میلہ ایک مثبت اور رجحان ساز سرگرمی تھی جس سے کتاب دوستی کو فروغ ملا۔ کتاب دل و نظر کے ساتھ ساتھ معاشروں کو بھی انقلاب سے آشنا کرتی ہے۔
نبی مہربانؐ پر نازل ہونے والی کتاب ’’ القرآن‘‘ نے پہلے مکہ پھر سارے عرب کو انقلاب سے آشنا کیا تھا اور انہوں نے بہت ہی کم اور تھوڑی مدت میں دنیا کو بدل ڈالا۔ جو خود سیدھی راہ سے دور تھے وہ دوسروں کو راستہ دکھانے والے بن گئے۔ لوگ بدلے، معاشرہ بدلا اور زندگی کے تمام اطوار بدل گئے۔ آج بھی اس کتاب انقلاب سے وابستگی معاشروں میں انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ضرور ت ہے کہ سچے جذبوں اور اخلاص کے ساتھ اس کا دامن تھاما جائے۔ دور جدید کا انسان بدلے گا تو معاشرہ بدلے گا ۔ جب معاشرہ بدلتا ہے تو تبدیلی کے اس عمل کا آغاز ہوجاتا جس سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے اور عروج و سربلندی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
گستاخی معاف تو ایک بات عرض کئے دیتا ہوں
درج بالا مضمون میں . . . سید مودودیؒ . . . کو ” رح ” اور باقی علما ء اکرام . . .؟؟؟
کم از کم . . . . . . . . امام غزالی ، ابن تیمیہ ، ابن جوزی، امام سرہندی،شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی . . ان پر بھی تو کرم کرتے . .. بقایا کی بات تو نہیں کر رہا ہوں ..
اگر برا لگے تو معافی چاہتا ہوں .. . …
نور محمد صاحب یہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا ہے۔ میں نے اپنی تحریر میں کسی کے ساتھ (رح) نہیں لکھا تھا۔ غالباً کمپوزر کی غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ آپ کے توجہ دلانے پر اسے ٹھیک کردیا گیا ہے۔
شکریہ جناب.. . میری بات کو غلط نہ لینا. .. . اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے . آمین
بہت اچھا مضمون ہے۔پرھ کر اور تشنگی بڑھ گئی کہ کاش ہم بھی وہاں کی سیر کر سکتے۔اللہ ہمارے دلوں میں علم کی وہ شمع روشن رکھے جو ماحول میں اجالا بکھیر دے۔