نماز جمعہ کا خطبہ جارہا تھا‘ اتنے میں میری نظر برابر بیٹھے شخص پہ پڑی جو سنتوں کی ادائیگی کی بعد میرے برابر میں بیٹھ چکا تھا۔ بلیو جینز‘ ریڈ چیکس شرٹ میں ملبوس صاف رنگ اور خشخشی ڈاڑھی۔ درازقد‘ مضبوط جسم اس کی شخصیت کو مزید نمایاں کررہے تھے۔
صف بندی کے دوران اگلی صف میں جگہ ملنے پر میں آگے بڑھ گیا۔ نماز جمعہ میں مولانا صاحب کی نہایت خوب صورت تلاوت نے سماں باندھ دیا ۔ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے بعد جیسے ہی سلام پھیرا تو اچانک ایک اونچی مگر عاجزانہ آواز کیجانب توجہ مبذول ہوگئی ’’میرے چھوٹے چھوٹے بچے کل سے بھوکے ہیں،۔۔۔ گھر میں راشن نہیں ہیں،۔۔۔ کئی دنوںسے بے روزگار ہوں،۔۔۔ کئی روپوں کا قرض دار ہوں۔۔۔
میں نے جب پلٹ کر پیچھے دیکھا تو یقین نہ آیا کہ یہ یہی وہی شخص ہے جو میرے برابر میں بیٹھا تھا، جسے میں اگلی صف کی خواہش میں پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
اس سے پہلے کہ سائل اپنے دکھوں کی تفصیلات بیان کرتا، مسجد میں موجود اللہ والے لوگوں کی آواز میں اس کی آواز دب گئی۔ مسجد میں ہرطرف شرم نہیں آتی۔۔۔ مسجد کے آداب سیکھو۔۔۔ اس جگہ کے تقدس کوپامال مت کرو۔۔۔ باہر جا کر مانگو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ کی بڑبڑاہٹ گونج رہی تھی۔
سنتوں کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلا تو فقیروں کی جھرمٹ میں وہ سب سے نمایاں تھا۔ اس کو نمایاں کرنے میں اس کی اپنی شخصیت کے علاوہ اس کی دو معصوم سی پیاری بیٹیاں اور اس کی بیوی کا بھی حصہ تھا۔
اس جوان کی طرح اس کی بیٹیوں کے لباس اور اس کی بیوی کا عبایہ اور ہینڈ بیگ تو اس کی مفلسی کی دلالت سے عاری تھے۔ لیکن اس کی بیوی کے نیم نقاب سے نم آنکھیں ان کی بے چارگی کا چیخ چیخ کر اظہار کررہی تھیں۔
آنسوئوں کی لڑی نوجوان کے رخسار پر بھی جاری تھیں البتہ معصوم بچیاں کھیلنے میں مصروف تھیں، اس بات سے بے خبر کہ ان کے والدین اُن کے لیے مسجد جیسی جگہ کاتقدس پامال کرچکے ہیں۔
مسجد سے نکلنے والے نیکوکاروں میں سے کئی لوگوں نے اس نوجوان کے ہاتھوں میں شاید ایک دو روز کی کفالت کا سامان کردیا تھا۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے کچھ خیرات اس کے ہاتھ میں رکھی اور نصیحت بھی کی کہ ’’مسجد کے آداب کا خیال رکھا کرو۔‘‘
وہ نوجوان ان کی نصیحت سن کر خاموش لب مگر نم آنکھوں سے کہہ رہا تھا کہ
’’بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔‘‘
اس خاندان کا حال دیکھ کر مجھے یہ بات یاد آگئی کہ کسی نے کہا تھا کہ انقلاب تب آتا ہے جب پیٹ خالی ہوں اور جسم پر کپڑے سلامت نہ رہیں۔
اور آج لوگوں کے پیٹ خالی ہوچکے ہیں اور جسم پرزیب تن لباس پھٹنے کی دیر ہے۔ یہ کہانی کسی ایک نوجوان کی نہیں بلکہ ایسی کئی کہانیاں ہر روز کسی نہ کسی مسجدکے باہر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کئی لوگ ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرلیتے ہیں اور کئی ایک اپنے بچوں کی کفالت کے لیے چوری‘ ڈکیتی اور قتل جیسی وارداتیں شروع کردیتے ہیں۔ اکثر مجرم عادی نہیں بلکہ اس نظام کی پیداوار ہوتے ہیں۔
اس نظام کی بدولت غربت کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے اور اس نظام کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے ووٹ کی طاقت سے صحیح اور ایماندار افرد کو اسمبلیوں تک پہنچائیں ورنہ اگر یہ لباس بھی جسموں سے ہٹ گیا تو ان کے غضب سے کوئی بھی سلامت نہیں رہے گا۔ شاید میں اور آپ بھی نہیں۔۔۔
فیس بک تبصرے