بچنے والے شخص نے ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں کہا اور حسرت سے سمندر کی طرف دیکھا جہاں اس کے پیارے ڈوبتے جارہے تھے۔
ٹھہر ئیے قارئین ! یہ کوئی فلمی سین نہیں ہے اور نہ یہ سیلاب میں بہنے والوں کا کوئی فسانہ ہے۔ یہ جیتے جاگتے انسانوں کا ایک واقعہ ہے!
بات ذرا پرانی ہے! یہ 80ء کے اوائل شاید 83ء کا واقعہ ہے کہ پنجاب کی رہا ئشی ایک نوجوان خاتون کو بشارت ہوئی کہ تم اپنے
پورے خاندان کے ساتھ سمندر کے ذریعے زیارت کو جائو۔لڑکیوں کا کتنا قدر دان کنبہ تھا کہ اس پر حرف بہ حرف عمل کیا گیا؟ چنانچہ بڑے بڑے جستی ٹرنک تیار کیے گئے اور ستر پچھتر افراد بشمول بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان ان میں بیٹھے اور قافلہ کراچی کے ساحل ہاکس بے سے روانہ ہوا۔ اس کا انجام بیشتر افراد کا زندگی سے ہاتھ دھونا تھا۔
اس واقعے کی جزئیات تو یاد نہیں (اس زمانے میں چینلز تو تھے نہیں ورنہ یہ واقعہ ہفتوں تک ان کے لیے غذا بن جاتا۔ ہر زاویے
سے رپورٹنگ ہوتی) ہاں اخبارات میں ضرور شائع ہوا اور موضوع بحث بناتھا۔ ہماری یاد داشت میں اس سانحے پر کہا گیا ایک برجستہ جملہ محفوظ ہے۔
“اگر اس لڑ کی کی شادی کر دی جاتی تو بشارت نہ ملتی بلکہ بشارت حسین پیدا ہوا کر تے۔” (جیسے آ جکل یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کولمبس کی شادی ہو جاتی تو وہ ہر گز امریکہ دریافت نہ کر پاتا اور دنیا کتنے امن میں ہو تی!) یہ تبصرہ اس وقت تو اتنا سمجھ میں نہ آیا تھا مگر کچھ عر صے بعد اسی قسم کا جملہ سننے کو ملا تو اس کا فہم بھی حا صل ہوگیا۔
یہ قصہ تو 85ء کے بعد کا ہے مگر ہنوز چونکہ جاری و ساری ہے اسلئے اس کی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ بی فارمیسی میں پڑھنے والے ایک نو جوان کے اندر کچھ با غیانہ سے خیالات اٹھے اور رات کی تاریکی میں’’الطاف حسین کو رہا کرو‘‘ کی چاکنگ کر تے ہو ئے پکڑے گئے۔ لوگ حیران ہوئے کہ الطاف حسین حالی قید میں ہیں؟ تو طلباء کو ناحق ان کا سن وفات یاد رکھنی پڑ رہی ہے۔مگر پولیس نے تحقیق کی تو پتہ چلا موصوف خود ہیں اور توجہ حاصل کرنے کا یہ انوکھا طریقہ دریافت کیا ہے۔ آ گے بتانے کی ضرورت نہیں سب کو یاد ہے ذرا ذرا! جب شہرت کا چاند چڑھا تو دنیا نے دیکھا کیسی نادر ہستی ہے! اسی حوالے سے ہماری والدہ کو ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی ایک عزیزہ کے لئے الطاف حسین کا رشتہ آ یا تھا مگر انکار کر دیا گیا تھا کہ لڑکا کچھ لیڈری کے جرا ثیم رکھتا ہے۔ اس پر کسی دوسری خاتون نے تبصرہ کیا کہ ’’اگر ہوجاتی تو صرف ایک لڑکی کی ہی زندگی بر باد ہو تی پورا شہر تو یر غمال نہ بنتا‘‘۔
دیکھا قارئین آپ نے؟ اس جملے میں بالکل وہی کاٹ ہے جو بشارت کے واقعے میں ہے! لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رشتے سے انکارنے ان کے اندر اتنی آ گ بھردی کہ وہ پوری قوم کو بھسم کر نے پر تل گئے۔ جی ہاں! پوری مہاجر قوم جس کی پہچان شرافت اور تعلیم تھی، دھونس اورجہل کا نمونہ بن گئی۔ انکار پر پوری فیملی سے انتقام تو عام بات ہوسکتی ہے مگر اس کے شعلے پورے شہرکو نگلتے چلے گئے۔یہ صرف مہاجر ٹیلنٹ ہی کام تھا۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان کا داخلہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے میڈیکل میں نہ ہوسکا ہوگا جس کے باعث ان کو نظام کی اکھاڑ پچھاڑکا موقعہ مل گیا۔ چنانچہ ہم اس شادی والے جملے کو یوں تبدیل کر سکتے ہیں ’’اگر الطاف حسین کو میڈیکل میں داخلہ مل جاتا تو چند سو مریض ہی ان کے ہاتھوں اس جہاں سے رخصت ہوتے! چندہزار لوگوں کی جیب کٹتی پوری قوم ڈاکوئوں کے حوالے نہ ہوتی۔۔۔ بلکہ وہ جعلی ڈومیسائل ہی بنواکر ڈاکٹر بن جاتے (ہمارے جاننے والے بہت سے لوگ اسی طرح ڈاکوئوں۔۔۔معاف کیجئے گا ڈاکٹر ز کی فہرست میں شامل ہوئے) جیسا کہ بعد میں فنکاریاں کی گئیں۔ تو کم از کم کراچی تو ان کی ستم زد گیوں سے بچارہتا!‘‘
اگر شادی والا مفروضہ درست تھا تو 2001ء میں ان کی شادی کے بعد تو ان کا حال اور کراچی کے حالات یکسر تبدیل ہوجانے
چاہیے تھے؟ جیسا کہ یادآ رہا ہے کہ ان کی شادی کی خبر ہمیں ایک کالج میں ملی تھی بطوربر یکنگ نیوزا ورجس پر کالج کے پرنسپل نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا یہ کہہ کر کہ
’’بہت اچھا ہوا! کاش یہ بیس سال پہلے ہوجاتا۔۔۔!‘‘ ان کی آ واز میں نہ جانے کتنے بجھے چراغوں کا دکھ تھالیکن ابھی تو اور تباہی آ نی تھی جبھی تو شادی ناکام ہوگئی حالانکہ اسی لئے مہاجرسے متحدہ بنی۔ کاش یہ شادی ہی چلتی رہتی تو اہل کراچی کی تو جان چھوٹ جاتی!
دیکھا آپ نے بالکل وہی کولمبس والی بات ہے نا! کسی شاعر نے بھی اس موضوع پر بات کی ہے کہ مکھی کو باغ میں جانے سے روک دو تاکہ پروانے کی جان نہ جائے! جنہیں اس شعر کا فہم ہے وہی اس کو enjoyکر سکتے ہیں ،باقی سے معذرت کیوں کہ یہ کالم ہمیں مکمل کر نا ہے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ دھرنے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں!
معزز قارئین ! آپ کا ہکا بکا ہونا بالکل بجا ہے کہ اس ساری گفتگو کا اسلام آباد دھرنے سے کیا تعلق ہے؟ جی بالکل تعلق ہے بلکہ اسی کنٹینر کو دیکھ کر ہی تو یہ گم گشتہ باتیں یاد آ ئی ہیں۔ اس پر کتنا لکھا اور کہا سناجاچکا ہے کہ اب مزید کی گنجائش نہیں ہے مگر جیسا کہ اس کی باز گشت مستقبل میں بھی سنائی دے رہی ہے لہذا اس پر بات کر نا ضرو ری ہے۔اس دھرنے پربہت سے سوالات اٹھے اور ان کے جوابات بھی سامنے آئے مگر اس پوری فلم کو دیکھ کر یہ ہی کہنا پڑا ’’اگر ہماری فلم انڈسٹری مولانا کوفلم میں چانس دے دیتی تو سینما بین حضرات وخواتین ہی متاثر ہوا کر تے ہزاروں کا مجمع تو یو ں موسم کی شدت نہ سہتا‘‘ ویسے ٹی وی کے سامنے بیٹھے شائقین کے لئے یہ سب کچھ کسی فلم سے کم تو نہ تھا۔ وہاں بھی تو بارش میں سب بھیگ رہے ہو تے ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ہمارے سامنے تو اس مضمون کے مندرجات گھوم رہے ہیں جس میں Rand Corporation( امریکن تھنک ٹینک)نے مسلمانوں کے مختلف گروپ سے نمٹنے ( ختم کرنے) کے لئے حکمت عملی تجویز کی تھی۔ اس میں وا ضح طور پر مشرف کے بعد کرپٹ حکمران اور اگلے مر حلے کے طور عمران خان اور اب طاہر القادری ایجنڈے پر ہیں!اس پالیسی کا ایک نکتہ ( ہم کو شش کے باوجود اس کا link نہیں ڈال سکے!) یہ ہے کہ روایتی (traditional) مسلمانوں کو بنیادپرستوں کے بالمقابل کھڑا کرو۔ اس نکتے پرحرف بہ حرف عمل ہو رہا ہے!
میڈیا پر جس طرح عید میلاد النبیﷺ منایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ محلے میں اکا دکا گھروں میں چرا غاں تونظر آ تا تھا مگر اس دفعہ ایسی سجاوٹ تھی جو کبھی نظر نہیں آ ئی۔صبح ہی صبح توپوں کی سلامی اور 63من وزنی کیک کی خبر حیران کن تھی بلکہ اس دفعہ ہم نے زندگی میں پہلی باراپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے فل ڈیک پر چلنے والا میلاد سنا۔گیتوں بھری کہانی کا نام یقیناآپ نے سنا ہوگا( اﷲ اس تشبیہ پر ہمیں معاف کرے)۔ اس محفل کا بھی یہ ہی اسٹائل تھا! پہلے تو اردو اور دیگر علاقائی زبا نوں کی نعتیں پڑ ھی گئیں ہم سمجھے اب کچھ ذکر ہوگا مگر وہ تو طرزبدل کر محتر مہ نے اپنے (اور ہمارے بھی) بچپن کے پسندیدہ گانوں کی دھن پر نغماتی نعتیں پڑھنی شروع کیں تو پڑ ھتی ہی چلی گئیں اور ہم سمیت یقینا شر کاء بھی ان گم گشتہ فلموں کی کہانی میں الجھ کر رہ گئے ہوں گے! حتٰی کہ وہ لمحات آئے جب ادب کا مقا م تھا۔ یوں تو وہ مستقل بچوں کو باآواز بلند خا موش کرا رہی تھیں مگر اب تو اتنی ڈا نٹ پڑی کہ مائیں اپنے روتے دھوتے بچوں کو لے کر باہر آ بیٹھیں! سخت سردی میں بچے کلبلا رہے تھے اور ہمیں پیغمبر رسول ﷺ یاد آ گئے جو نماز مختصر کر دیا کر تے تھے بچے کے رونے کی آ واز سن کر۔۔۔یاد تو ہمیں اسلام آباد میں ٹھٹھر تے بچے ، جوان اور بو ڑھے بھی آ گئے جو۔۔۔خیر دیگ کی آ مد پر شر کاء کی جان چھوٹی۔
یہ منظر اس مضمون میں شامل کر نے کا ہمارا مقصد صرف اس ایجنڈے کی وضاحت ہے جس کے تحت کچھ مذہبی رسومات کو دین بنا کر پیش کرنا ہے۔ وہﷺ جنہوں نے اپنی جان گھلا دی مدینے کی ریا ست قائم کر نے کے لیے ۔ صرف جشن میلاد ہی اگرمقصود ہوتا تواس کے لیے اتنی تکلیف اٹھانے کی ضرو رت کیا تھی؟ ہر سال ماہ ربیع الاول آ تے ہی عقیدت مند محفلیں سجا نے پر مستعد ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کے خلاف دلائل اور فتوئوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، حدیثیں کہنے اور سنانے لگتے ہیں اور بقیہ لوگ ٹک ٹک دیدم دشمنان اسلام کے ٹھٹھول پر تلملاتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ پورے سال سچے دین کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا رہے بلکہ اس کی عملی تفسیر بن جائیں پھر شاید ان تقریبات کا انداز ہی بدل جائے۔ او ر پھر لوگ صرف نعت پڑھ کر شیرینی کھا کر جو چاہیں اور جیسا چاہیں کے نعرہ کے بجائے سنتوں کے حصول میں لگ جائیں!
باتیں تو اور بہت سی ہیں مگر کہنا صرف یہ ہے کہ بشارت تو چودہ صد یوں پہلے ہی مل چکی تھی اب تو بس اس پر عمل کر نا ہے۔ جی ہاں! اس بشارت کی روشنی کو ہر فرد تک پہنچا نا ہے اسی میں ہماری نجات ہے ورنہ ٹھٹھر تے اور ڈو بتے ہوئے عقیدت مندوں میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا!
اٹھیں علماء اٹھیں اپنا کردار ادا کریں! او ر صرف علماء ہی کیوں؟ ہر ذی شعور فرد کو اپنا کردار اداکرنا ہے صرف تنقید نہیں لوگوں کو بھٹکنے اور ظلمات میں ڈبکیاں لگانے سے بچائیں اور علم کا نور ہر ایک تک پہنچائیں! اگر عقائد کی درستگی نہ ہوئی تو ایسے ہی خود ساختہ پیر اپنی اپنی بشا رتیں لے کر آتے رہیں گے!
جواب نہیں ہے اس تحریر کا
کمال کی تفریح لی ہے آپ نے قائد تحریک کی۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ مجھے یہ نہ کہنا پڑے کہ کاش میرا تبصرہ شائع کردیا جاتا تو۔۔۔۔۔۔
چلو آپ نے اپنی سیاسی مخالفت کی آڑ لے کر اچھا رنگ جمانے کی کوشش کی ہے اور درمیان میں اپنی مسلکی وابستگی کا بگار بھی لگادیا تاکہ سیاسی آسودگی کے ساتھ ساتھ مسلکی راحت کا سامان بھی ہوجائے۔کاش اچھا ہوتا اگر آپ ایسے تمام پاکستانی کرداروں کے بارے میں لکھ دیتے کہ اگر وہ نہ ہوتے یا اُن کے ساتھ ایسا کچھ واقعہ یا اتفاق پہلے ہوجاتا تو پاکستان کے ہزاروں بے گناہ لوگ موت سے ہمکنار ہونے سے وقتی طور پر بچ جاتے۔ مثال کے طور پر اگر ضیا ء الحق ساٹھ کے عشرے میں جب اردن کی پہاڑیوں پر فلسطین کے حریت پسندوں کی سرکوبی کے لیے تعینات کی گئی امن فورس میں ہی کسی حادثے کا شکار ہوجاتے یا کسی فلسطینی فدائی کے ہاتھوں انجام کو پہنچ جاتے تو پاکستان کے ہزاروں افراد اِن کی وجہ سے موت سے بچ جاتے،لاتعداد نوجوان نشے کے ہاتھوں بے وقت کی موت سے بچ جاتے اور پاکستان فرقہ وارانہ، نسلی اور علاقائی تعصبات جیسے عارضوں سے بچ جاتا۔لیکن کیا کریں کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ضیاالحق پاکستان میں امیرالمومنین بننے کی خواہش میں ایسا مبتلا ہوا کہ پورا خطہ ہی بے امنی اور دہشت کی گود میں چلا گیا۔اگر ستتر میں پاکستان کے مذہبی سیاست دان ضیاء الحق کے ساتھ سازش میں شریک ہوکر مارشل لاء کی راہ ہموار نہ کرتے تو پاکستان کتنے امراض سے محفوظ ہوجاتا۔بے گناہوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوڑوں ،پھانسیوں اور جلاوطنی سے بچ جاتے۔پاکستان میں فرقہ پرستی اور لسانی تضادات کی فضاء ہموار نہ ہوتی اور پاکستان سی آئی اے کی دولت سے جہاد جیسے اسلامی فریضے کے نام پر جنوبی ایشیاء میں دہشت اور انتہا پسندی کی کاشت نہ کرتا۔آج پاکستان کو یہی مقدس جہادیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں اور اِن جہادیوں نے اپنی ہی محس پاک فوج کو نشانہ بنا ڈالا۔کئی ہزار فوجی جہادیوں کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔کاش پاکستان ایک ڈکٹیٹر اور ملاوں کی وجہ دنیا میں بدنام ہونے سے بچ جاتا۔ایک الطاف حسین ہی اس “کاش” کے زمرے میں نہیں آتا سینکڑوں مذہبی لیڈر اور مذہبی جماعتیں بھی “کاش” ایسا نہ ہوتا تو سب ٹھیک ہوجاتا کے زمرے میں آتی ہیں۔کاش کی یہ تفصیل بہت طویل ہے بس زرا قلم میں سیاہی ہونا چاہیے پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کے سیاسی ومذہبی کرداروں کے بارے میں تاسف بھرے ہزاروں کاش لکھے جاسکتے ہیں اور اُن نقصانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ان کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کو اُٹھانا پڑے۔
خیر اندیش
خامہ بگوش
کہنے کو تو بہت کچھ اس کاش کے زمرے میں آتا ہے اور کسی چھوٹی سی تحریر میں بندہ کہاں تک آحاطہ کرے لیکن وہ خامہ بگوش جو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف سانچوں میں حلقہ بگوش ہوئے جاتے ہیں، اپنے من پسند موضوع کو ہرجگہ گھسیڑنے کی عادت سے مجبور ہیں۔ بیچاروں کی تاریخ ضیاء الحق سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر جس نے اپنے اقتدار کے لیے اسلام کو استعمال کیا، لیکن پھر بھی اتنا کچھ کرگیا کہ اسے اتنی جلدی ختم کردینا ان حضرات کے بس میں نہیں۔ چاہے نصاب تعلیم ہو یا آئین و قانون پاکستان وغیرہ وغیرہ۔ لہذا پیٹ میں مروڑ اٹھنا تو بنتا ہی ہے۔ (نوٹ: ضیاء الحق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔) 😉
.
تو کہانی یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین کے بعد ایک نااہل شخض گورنر جنرل بنا، جس کا بوریا بستر گول کرکے ایک فوجی ڈکٹیٹر بسر اقتدار آگیا۔ کاش اگر وہ نہ آتا تو آج اس ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ ملک فوجی آمریت کے طویل سیاہ دور سے بچ جاتا۔ ملک دولخت نہ ہوتا، عدل و انصاف کا دور دورہ ہوتا۔ پاکستان کے دریاء نہ بیچے جاتے، نہ صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوتی۔ نہ ون یونٹ کا ڈرامہ رچایا جاتا نہ اکثریت سے جان چھڑانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ نہ لاکھوں افراد جنگوں میں کام آتے۔۔۔
.
کہانی پھر ذولفقار علی بھٹو تک پہنچتی ہے۔ جنہیں 1965ء کی جنگ کا مسٹر مائنڈ کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ اگر بھٹو ایوب خان کو ڈیدی نہ بناتا تو شاید ایوب کی کابینہ میں نہ ہوتا پھر شاید آپریشن جبر الٹر اور گرینڈ سلم کو عملی جامہ نہ پہنایا جاتا ساتھ ہی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح آمریت کو شکست دیکر ایک جمہوری فلاحی پاکستان کی ابتدا کرتیں لیکن افسوس۔۔۔
.
پھر کہانی پاکستان کے دولخت ہونے کی جب سارے مفاد پرست اپنی ملک کو دولخت کرنے پر رضا مند اور ادھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگارہے تھے، مٹھی بھر محب وطن پاکستان جو اس ملک کو جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگارہے تھے۔ اور پھر ملک ٹوٹ گیا۔ کاش یہ لبرل مفاد پرست فاشسٹ اس ملک کی تقدیر میں نہ لکھے ہوتے تو ملک سلامت رہتا۔۔۔
.
پھر آگے بڑھتے ہیں۔ دنیا کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی طرف۔۔۔ 😉
کچھ اور آگے بڑھیں تو پھر افغان جہاد کا رولا ہے۔ ہوا کچھ یوں کے افغانستان میں انقلاب ثور کے بعد جب، استاذ ربانی، گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تو مسٹر بھٹو نے انہیں کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کرنے کی ٹھانی اور اوپر ذکر کیے گئے تمام افراد سے مسٹر بھٹو کی ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں افغان مجاہدین کی مدد و حمایت اور پاکستان میں ان کے تربیتی کیمپ قائم کیے گئے۔ بیچارے بگواش اسے ضیاء کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔۔۔ 😉
.
پھر کہانی ہے روس کی جب وہ ہمارے پڑوس افغانستان میں باقاعدہ براجمان ہوا۔ ارباب اقتدار کی ٹانگیں کانپنے لگیں کہ روس جہاں گیا وہاں سے واپس نہیں ہوا۔ اور پھر اس کی نظریں گرم پانیوں کی سرزمین پاکستان پر تھیں۔ سرحد پر چھوٹی موٹی جھڑیں شروع ہوگئیں۔
دوسری طرف ہمارے بگواشوں کو خواب میں چھیچڑے نظر آنے شروع ہوگئے۔ یعنی بیچارے پشاور میں سرخ ڈولی اتارنے کے خواب دیکھنے لگے۔
پھر بات جہاد تک پہنچ گئی۔ اب ان قادیانی برانڈ اسلام کے متوالوں کو جہاد کیسے ہضم ہوسکتا ہے؟ اور تو اور ان بیچاروں کو آج کل جہاد کو بدنام کرنے کا درد ستانے لگا ہے۔ لیکن خیر کہانی آگے بڑھاتے ہیں۔ بات ہورہی تھی خواب کی سُرخ ڈولی پشاور اُتارنے کا خواب لیکن۔۔۔
ایسے میں مجاہدین نے انکے خواب چور چور کردیے۔ اے کاش یہ مجاہدین نہ ہوتے تو اب تک سرخ ریچھ کے زیر سایہ یہ طبقہ خوب مزے کررہا ہوتا لیکن اے کاش۔۔۔۔۔۔۔
کہانی کچھ لمبی ہوگئی لیکن ختم نہیں ہوئی۔
آگے کی کہانی بھی آئے گی فکر نہ کریں۔۔۔ 😉
وقار بھائی!
آپ نے تو اینٹ کے جواب میں پورا پہاڑ ہی دے مارا ہے۔ 🙂
وقار صاحب
بہت خوب لیکن پہلے بلاگ مالکان کی اجازت لے لیں ،یقین کریں اس ًکاشً کے زمرے میں بڑے بڑے مقدس کردار بھی شامل ہو جایں گے۔بس آپ کو اپنی روایتی بندوق یعنی ًتوہینً کو زرا نظر انداز کرنا پڑے گا۔کیوں کہ جب آپ دوستوں سے جواب نہ بن پڑے تو فوراً توہین کی بندوق میں بارود بھرنے بیٹھ جاتے ہیں۔میں تیار ہوں یہاں میدان لگا لیں یا کسی دوسری جگہ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ًکاشً کی درجہ بندی کو آخری حدوں تک پھیلا دیں گے۔
جواب کا منتظر
خامہ بگوش
مقدس کرداروں کی توہین کا بڑا شوق ہے صاحب؟
جن میں اتنی اخلاقی جرات نہ ہو کہ اپنے نام سے تبصرہ کرسکے اس سے اور کیا توقع کی جائے۔
آخری بات یہ کہ میدان جہاں چاہیں سجائیں ہم تو مرد میدان ہیں بھیا اور اس کاش کی درجہ بندی کی ہر حد سے ہم بھی کچھ نہ کچھ آگاہ ہی ہیں کیا سمجھے؟ 😉
دیکھا ناں
آپ ایک جملے ہی میں مولویت پر اُتر آئے؟
کہ اخلاقی جرات کی تعریف متعین کردی۔آپ کو نام سے غرض ہے یا میرے خیالات سے؟
اور معذرت کے ساتھ آپ کون سا شناختی کارڈ کا نمبر شائع کرتے ہیں اپنے نام کے ساتھ؟
خود کو مرد میڈان کہا نہیں ثابت کیا جاتا ہے۔
کب شروع کرنا ہے ًکاشً کی حد بندی کا کاروبار؟ میں تیار ہوں۔
خامہ بگوش
ہائیں یعنی کہ یہ حملہ تھا؟
اس طرح کی باتیں تو بہت سنی ہیں ہم نے کہ اگر کہیں پھڈا ہوجائے تو ایسے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اب کی مار کے دیکھ. اور جوابآ ایک اور جھانپڑ رسید کیا جائے تو پھر یہی کہتے ہیں کہ اب تو مار کے دیکھ ذرا. 😀
آپ تو بڑے پھٹو لگ رہے ہیں. میدان سجانے کے لیے ہم سے پوچھ رہے ہیں؟ ارے بھائی شروع ہوجائو. ہم نے تو بگواشوں کی اوقات یاد دلانے کے لیے کسی سے پوچھا نہیں تھا 😉
جہاں تک شناختی کارڈ کی بات ہے تو لگتا ہے کہ ابھی حضرت خامہ بگوش کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے بلاگنگ کی دنیا میں. میاں ہمارے بارے میں تو الف سے ے تک سب کو معلوم ہے کہ ہم کون ہیں، کیا کرتے ہیں. مختلف میٹ اپس میں دیگر بلاگران سے ملاقات ہوتی ہے. آپ کی کیا اوقات ہے جی؟
ہم نے تو اپنے نام سے آپ کو اتنا کھسیانا کردیا کہ میدان سجانے کی بات کررہے ہیں جیسے بڑا تیر مارلیں گے آپ اب. خیر جی ہمت ہے تو اپنے نام کے ساتھ آجائیں اور اپنی شناخت ظاہر کریں. ورنہ چھپ کر بکواس کرنے سے کس نے روکا ہے لگے رہو منا بھائی. بس یاد رکھیں کہ ہم بھی یہیں موجود ہیں 😉
خامہ بگوش کی تفصیلات بہت زبر دست ہیں ! اس پر تبصرہ کیا پورا کالم لکھا بلکہ کئی لکھے جاسکتے ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جو جبر کی علامت تھے ان کا تذکرہ اس کالم کا موضوع نہیں تھا صرف عقیدت کے نام پر بے وقوف بننے والوں کی مظلو میت کو نمایاں کر نے کی کوشش کی ہے۔۔
مسئلہ یہ ھے کہ تاریخ کے صفحات میں درج حالات و واقعات انسانی خواھشات کے عین مچابق نہیں ہوسکتے ۔ لہذا حقائق کھلے دل سے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ۔ جس نے قوم کا جتنا وقت وسائل اور صلاحیتیں برباد کی اسی حساب سے مواخذہ بھی ہوگا۔ جو مر کھپ گئے ان کا بھی اور جو باہر بیٹھے یا باہر سے آ کر ملک میں انتشار پھیلا ئیں ان کا بھی