مکمل تاریکی، خود غرضی اور نفسانفسی کے دور میں بھی ایک موہوم سی امید تو باقی ہی رہتی ہے۔ روشنی کی کرن کہیں نہ کہیں سے جلوہ گر ہونے کے لیے بے قرار ہوتی ہے اور پھر کچھ لوگ اپنے خوابوں کو، اپنے مستقبل کو دوسروں کے آنے والے کل کے لیے قربان کردینے کے عزم کے ساتھ مصرف عمل ہوجاتے ہیں تاکہ انکا رب ان سے راضی ہوجائے اور دین غالب ہوجائے۔ یحییٰ انہی لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے آزادی اقصٰی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تاکہ اہل فلسطین کے وقار کو ایک بار پھر سے بلند کیا جاسکے جسے بیسویں صدی کے آغاز میں صیہونی غاصبوں نے گہنادیا تھا۔
یحییٰ عبدالطیف عیاش مغربی کنارے کے شہر رفاح میں 1966ء میں پیدا ہوئے جو فلسطین میں مزاحمت و انقلاب کی جائے پیدائش بھی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس دن ارض فلسطین اپنی ہاں ایک مجاہد کی تشریف آوری پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہوگی۔ یحییٰ کی شخصیت میں سب سے عجیب شے ان کا نام ہے۔ یحییٰ جس کا مطلب “زندہ رہنا” اور عیاش سے مراد “ایسا شخص جو ایک طویل زندگی جیئے”۔ اور حقیقت یہی ہے کہ یحییٰ اپنے نام کی طرح زندہ و جاوید ہیں۔ اور فلسطینی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے حُریت پسند مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
یحییٰ نے ابتدائی تعلیم آبائی قصبے “رافات” سے حاصل کی جہاں ان کا شمار بہترین طالبعلموں میں ہوتا تھا۔ 1988ء میں انہوں نے جامعہ بیر زائیت” سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ یحییٰ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے تھے لیکن صیہونی قابض حکومت انکی اعلی تعلیم کی راہ میں حائل ہوگئی۔ 1992ء میں یحییٰ حماس کے القسام بریگیڈ میں متحرک ہوئے جہاں انہوں نے مقامی ذرائع سے دستیاب اشیاء کی مدد سے دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں مہارت حاصل کی۔ وہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف صیہونیوں پر “فدائی حملوں” کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔
جن افراد کو یحییٰ سے ملاقات کی سعادت ملی ان کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ وہ ایک عام فرد کی طرح ہی اپنے خاندان، اپنے آس پاس کے لوگوں اور اپنی سرزمین سے محبت رکھنے والے انسان تھے۔
یہ یحییٰ عیاش ہی تھے جن کی بدولت غیر مسلح فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بہادرانہ فدائی حملوں کا آغاز ہوا۔ فروری 1994ء میں جب ایک جنونی صیہونی دہشت گرد “براک گولڈاسٹائن” نے الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں عین نماز کے وقت فائرنگ کرکے 30 سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور 120 سے زائد افراد کو زخمی کردیا، حماس نے اس عزم کا اظہار کیا صیہونی جنونیوں کا اس قتل عام کی قیمت چکانی ہوگی۔ اس کے کچھ ہفتوں بعد ہی جارح صیہونیوں پر فدائی حملوں نے اسرائیلی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان تمام حملوں کے تانے بانے یحییٰ سے ملنے لگے اور جلد ہی یحییٰ عبدالطیف عیاش صیہونی ریاست کو مطلوب افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگئے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں دو سالوں تک یحییٰ کو پانے کی کوششیں کرتے رہے۔ محدود وسائل کے باوجود اپنی خداداد صالحیتوں سے دشمن کو زچ کردینے پر ان کا نام “المهندس” یعنی “انجینئیر” پڑگیا۔ انہیں یہ نام فلسطینیوں نے نہیں دیا تھا بلکہ اسرائیلی خفیہ ادارے انہیں اس نام سے یاد کرنے لگے۔ یحییٰ یہ بات جانتے تھے کہ وہ کہیں بھی چلے جائیں ان کا پیچھا کیا جائے گا اور صیہونی دہشت گرد انہیں آزاد نہیں چھوڑیں گے لہذا ان کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو دھماکہ خیز مواد کی تیاری کی تربیت فراہم کریں جوکہ انہوں نے کیا اور درجنوں افراد ان سے تربیت حاصل کرکے اسرائیلی حکومت کے لیے درد سر بنے رہے۔
جمعہ 5 جنوری 1996 کی ایک سرد صبح جب ماحول پر ایک نامانوس سی سوگواریت چھائی تھی۔ سمندر کی پرشور موجیں غزہ کے ساحل سے دیوانہ وار ٹکرارہیں تھیں، تیز ہوائیں جب غزہ کے بام و در سے ٹکراتیں تو ایک عجیب اجنبیت کا احساس طاری ہوتا۔ لوگ غزہ کی سڑکوں پہ جمع چہ مگوئیوں میں مصروف تھے کہ ضرور کوئی سانحہ رونما ہونے والا ہے اور پھر اچانک ایک آواز سنائی دی “یحییٰ عیاش شہید ہوگئے”۔ اس خبر کے سنتے ہی عزہ سمیت پورا مقبوضہ فلسطین غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ لوگ اپنے اس عظیم سپوت کو یاد کرکے رونے لگے جو طاغوت کے بالمقابل عزیمت و مزاحمت کی علامت تھا۔ غزہ کے ساحل پر سمندر کی پرشور موجیں اچانک پرسکون ہوگئیں۔ شور مچاتی طوفانی ہوائیں اچانک خاموش ہوگئیں جیسے وہ بھی یحییٰ کی شہادت پر غمزدہ ہوں۔ ہاں اسرائیل میں ضرور جشن کا سماں تھا کہ وہ شاید یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب سرزمین فلسطین کو ہتھیانے میں کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوگی لیکن ان کی یہ خوش فہمی اس وقت بھیانک خواب میں تبدیل ہوگئی ہوگی جب یحییٰ کی شہادت چند ہفتوں بعد ہی اسرائیل فدائی حملوں سے گونج اٹھا۔
یحییٰ کی شہادت ایک “بوبی ٹریپ موبائل فون” کے ذریعے ہوئی جو شین بیت (اسرائیلی خفیہ ایجنسی) نے اپنے ایک مقامی مددگار (غدار) کے ذریعے ان تک پہنچایا تھا۔ ان کے جنازے پر تو ایسا لگتا تھا کہ جسیے سارا غزہ ہی امڈ آیا ہے۔ آج پھر اہل فلسطین اپنے اس عظیم مجاہد کو یاد کررہے ہیں اور ساتھ ہی اس عزم کا اعادہ بھی کررہے ہیں کہ سرزمین مقدس فلسطین کی آزادی تک مزاحمت جاری رہیگی اور اس کے بیٹے یحییٰ عیاش کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لہو سے تاریخ عزیمت و مزاحمت رقم کرتے رہیں گے۔
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد انتقال فرما گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔