کوئٹہ دھماکے، پاکستانی تاریخ کی بد ترین دہشت گردی

گذشتہ روز بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں تین مختلف دھماکوں میں تادم تحریر81افراد جاں بحق اور مجموعی طور سے دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ان میں سے بیشتر زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ ہماری نظر میں گذشتہ پانچ سالوں ہونے والی وارداتوں میں سے سب سے بڑی واردات ہے۔ یوں تو گذشتہ دس سال سے وطن عزیز دہشت گردی اور بد امنی کی لپیٹ میں ہے اور آئے روز مختلف خود کش حملوں، بم دھماکوں ، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں روزانہ بیس سے پچیس افراد روزانہ جاں بحق ہورہے ہیں لیکن محترمہ بے نظیر کی آمد پر کراچی میں دھماکہ، سانحہ عاشورہ، سانحہ نشتر پارک، سانحہ بارہ مئی نمایاں ہیں اور اب کوئٹہ میں ہونے والا سانحہ ۔ اس وقت ملک میں شائد ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جس کا دل اس سانحے پر خون کے آنسو نہیں رو رہا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوات میں بھی تبلیغی جماعت کے مرکز پر ہونے والے ایک دھماکے میں بائیس افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر 110سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔

 

سمجھ نہیں آتا کہ قانون ، حکومت، حکومت کی رٹ، صرف ٹی وی والے وزیر داخلہ ان سب کا کہیں کچھ پتا نہیں ہے۔ وزیر داخلہ صاحب ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے بجائے سیاسی داؤ پیج کھیلنے میں مصروف ہیں۔ان کو گیدڑ ببھکیوں سے فرصت ملے تو شائد وہ اپنی اصل ذمہ داری یعنی امن امان کے قیام پر بھی کچھ دھیان دیدیں۔وزیرداخلہ صاحب ہر واردات کے بعد کہتے ہیں ہمیں ایسی دہشت گردی کی اطلاعات تھیں اور ہم نے صوبائی حکومت کو مطلع کردیا تھا۔ کبھی وہ فرماتے ہیں کہ فلاں جگہ اور فلاں موقع پر دہشت گردی کا خدشہ ہے، کبھی وہ مختلف شہروں میں دہشت گردوں کے داخل ہونے کی اطلاع فراہم کرتے ہیں۔ جان کی امان پائیں تو ان کی خدمت میں عرض کریں کہ جنابِ والا! یہ دہشت گردی کے خدشات اور دہشت گردی کی امکانات کا اظہار کرنا اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی اطلاع فراہم کرنا تو ہم عوام اور میڈیا والوں کا کام ہے، آپ کا کام عوام کو اطلاع دینا نہیں بلکہ ان چیزوں کو روکنا ہے۔ اب براہ مہربانی آپ مانڈوی گیری چھوڑ کر عوام کی جان و مال کے تحفظ کا بھی کچھ کام کرلیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔

 

صدر مملکت، وزیر اعظم، حکومتی ادارے، سیاسی جماعتیں( حکومت حزب مخالف اور پارلیمنٹ سے باہر والی ) سب کے سب ہر واردات کے بعد صرف مذمت کرکے رہ جاتے ہیں ، کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔عوام پس رہے ہیں، عوام مرر ہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہدہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں ۔ارکان پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف صرف قانون نہ بنائیں بلکہ جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد یقینی بنائیں تو یہی عمل دہشت گردی کو روکنے کے لیے بہت مو ؤر ثابت ہوگا۔ دہشت گردی روکنے کے لیے دہشت گردوں کی بیخ کنی ضروری ہے اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے قانون کی بالا تری کو یقینی بنایا جائے۔ دہشت گرد کوئی بھی ہوں، طالبان، بلیک واٹر، کسی سیاسی جماعت کے کارکنان یا پیشہ ور قاتل کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے ، وارداتوں میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں تو پھر تو دہشت گردی اور خون خرابہ ختم ہونے کی امید ہے وگرنہ یہی کچھ ہوتا رہے گا۔

 

ایک بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جب ای میل ایڈریس کے ذریعے لوگوں کے ٹھکانوں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے، آئی پی ایڈریس ٹریس کیے جاسکتے ہیں، موبائل فون کی لوکیشن کی نشاندہی تو اب پرانی بات ہوگئی ہے اور سیٹلائٹ فون کو ٹریس کرنا تومشکل ہی نہیں ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود معلوم دہشت گرد نامعلوم مقام سے میڈیا اور وزارت داخلہ کے ذمہ داران کو فون کرکے اپنی وارداتوں کی فخریہ اطلاع دیتے ہیں اور ان کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہوپاتا ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔کہاں ہے حکومتی رٹ؟؟؟ کہاں ہے سلامتی کے ادارے؟؟ کہاں ہے انٹیلی جنس بیورو جو کہ سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرنے، ان کی جاسوسی کرنے ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ مرتب کرنے میں طاق ہے لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔

 

دہشت گرد کوئی بھی ہو اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ۔ اور جو لوگ بھی اسلام اور طالبان کے نام پر دہشتگردی کررہے ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں ان کا قلع قمع ہونا چاہئے۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ جب کوئی واردات ہوتی ہے تو وزیر داخلہ فوراً تحریک طالبان پر اس کی ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔ تحریک طالبان اگر کسی واردات کی ذمہ داری قبول کرے تو اسے درست مانا جاتا ہے لیکن جب تحریک طالبان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو دھمکی دینے سے بریت اظہار کیا تو یہی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ہم طالبان کے جعلی نمائندوں کو نہیں مانتے۔ یاخدا یہ کیا ماجرا ہے ؟ جب یہ فرد کسی واردات کی ذمہ داری قبول کرے تو ٹھیک اور کسی واردات سے لاتعلقی کا اعلان کریں تو وہ جعلی نمائندے بن جاتے ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریک طالبان کے نام سے خود وزیر داخلہ صاحب ہی بیانات جاری کرتے ہوں اسی لیے انھوں نے دھمکی سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والوں کو جعلی نمائندہ کہہ دیا۔ ہمیں نہیں پتا کہ کون اصلی ہے کون جعلی؟؟ واردات تحریک طالبان پاکستان کرے، بلیک واٹر ، کسی سیاسی جماعت کے لوگ ، کوئی پیشہ وار قاتل یا کوئی اور اس سے ہمیں غرض نہیں کہ ہمیں ان درندوں سے نجات دلائی جائے چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔ چاہے پورے ملک میں آپریشن کرنا پڑے، لوگوں کو پھانسیاں دینی پڑیں کچھ بھی کریں عوام کو تحفظ دیں، ایسا نہ ہو کہ عوام کسی بھی قسم کے نظام سے بد ظن ہوکر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ملک میں انارکی پھیل جائے اور اگر ایسا ہوا تو یاد رکھیں کہ پورا ملک بد ترین خانہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا ،یہاں جنگل کا قانون نافذ ہوگا اس سے پہلے ہی کچھ کرلیں۔

 

آخری بات ! اللہ تعالیٰ سوات، کوئٹہ اور کراچی میں دہشتگردی کا شکار ہونے والوں اور امریکی ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ، زخمیوں کو جلد صحت یابی عطا فرمائے اوربے گناہوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور انہیں عبرت ناک انجام سے دوچار کرے۔ آمین

فیس بک تبصرے

Leave a Reply