اس دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ایک وہ جو اپنے آپ کوحالات کے تھپیڑوں سے بچانے کے لیئے وقت کے ہاتھ اپنی لگام دے دیتے ہیں اور زندگی جیسی انمول چیز کو بے مقصدیت کی ڈھلوان پر ایسے چھوڑ دیتے ہیں کہ وقت رخصت انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ پستی و ذلت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا گویا کہ وہ زندگی نہیںگزاررہے بلکہ ز ندگی انہیں گزا رہی تھی اور دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو وقت کے ہاتھ اپنی لگام دینے اور حالات کی رو میں بہنے کی بجائے ان کے سامنے مقصدیت کی ایسی دیواربن جاتے ہیں کہ زندگی بھی اپنے او پر رشک کرنے لگتی ہے اور وقت رخصت وہ محبت اور عقیدت کی ایسی بلندیوں پر ہوتے ہیں انکے بغیر تمام چمن ویرانہ محسوس ہونے لگتا ہی۔ میرے قائد، مجاہد ملت قاضی حسین احمدؒ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی پوری زندگی جہد مسلسل کی عملی تصویر بن کر ایک عظیم نظریے کے مطابق گزاری بلکہ ہزاروں افراد کی زندگیوں کو بھی اس نظریے کا خوگر بنا دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 1995 میں جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں قیم جماعت سید منور حسن جماعت اسلامی کی رپورٹ پیش کر رہے تھے جب وہ اسلامی فرنٹ کی ہار اور قاضی صاحب کے استعفیٰ پر پہنچے تو انتہائی خوبصورتی اور دلکش انداز میں کہا کہ جب قاضی حسین احمدنے جماعت کی امارت سے استعفیٰ کی دیا سارا ماحول بدل گیاایسے لگا جیسے چڑیوں نے چہچہانا چھوڑ دیاہو ، کلیوں نے چٹخنا اورپھولوں نے کھلنے سے انکار کر دیا ہو ” اور اب کہ وہ رہبر اور قائد ہم میں موجود نہیں ہیں بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے کہ صرف دل کی دنیا ہی اداس نہیں ہے بلکہ سارہ ماحول اداس ہے نہ کسی بات پر مسکرانے کودل چاہ رہا ہے نہ کچھ کھانے کی طرف د ل مائل ہو رہا ہے ہر چہرے میں بلکہ ہر طرف ایک اداسی ہے جس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
بہر حال موت یقینی چیز ہے جو بھی اس دنیا میں آیا ہے ایک نہ ایک دن اسے چھوڑ کر جانا ہی ہی۔لیکن جس طرح قاضی صاحب رخصت ہوئے وہ بھی عجب منظر تھا ہر آنکھ اشکبار تھی۔ خواتین ہوں یا مرد، ہمخیال افراد ہوں یا سخت نظریاتی مخالف، نوجوان ہوں یا بوڑھے سبھی غمگین اور رو رہے تھے میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو تقریباً قاضی صاحب کی ہی عمر کا ہو گا یہ کہتے ہوئے انتہائی نڈھال تھے کہ قاضی صاحب کی وفات پر یتیمی کا سا احساس ہورہا ہی۔اوریا مقبول جان نے بالکل ٹھیک عکاسی کی قاضی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر ایسا لگاجیسے کمرے کی چھت ہے جو اڑ گئی ہے اور میں کھلے آسمان تلے کھڑا ہو گیا ہوں۔
“بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ۔۔۔۔ اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
قاضی صاحب کی زندگی کے ہزاروں ایسے گوشے ہیں جن پرتفصیل سے بہت کچھ لکھا جانا چاہیئے اور لکھا بھی جا رہا ہے میں صرف دو باتوں کو سب کے ساتھ شئر کرنا چاہ رہا ہوں۔
نوجوانوں سے محبت:
اسلامی جمیعت طلبا کے ساتھ منسلک ہوتے ہی جو سیاسی اور نظریاتی شعور حاصل ہوا تھا اس میں قاضی صاحب کو ہی ایک قائد، لیڈر اور مربی کی حیثیت میں دیکھا اورسنا اور جو پہلا سیاسی نعرہ لگایا وہ یہی تھا کہ “ہم بیٹے کس کے قاضی کی، ہم دیوانے کس کے قاضی کی، ہم پروانے کس کے قاضی کے ” کیا عجب مستی تھی اس نعرے میں کہ پورے جسم میںعقیدت اور محبت کی ایک بجلی سی کوند جاتی تھی اور یہ محبت صرف یکطرفہ نہیں تھی بلکہ قاضی صاحب بھی نوجوانوں کو “میرے عزیزو ، میرے جگر گوشو جیسے پیار اور محبت میں گندے الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوتے تو اپنائیت اور لگاوٹ کا ایسا رشتہ قائم ہوجاتا کہ ان کے نورانی چہرے سے لے کر ایک ایک لفظ تک دل میں اتر جاتھا۔
علامہ اقبال کے شیدائی نے اقبالؒ کی طرح ہی نوجوانوں سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں جب بھی جمیعت کے ارکان سے مخاطب ہوتے فرماتے آپ لوگ امت کا مستقبل ہو آپ لوگوں کے درمیان آ کر اپنے آپ کو جوان محسوس کرنے لگتا ہوں آپ سے کھل کر دل کی باتیں کروں گا۔نوجوانوں کے متعلق اس قدر سوچتے کہ ایسے نوجوان جو طالبعلم نہیں ہیں یا جمعیت سے منسلک نہیںرہے انہیں بھی ایک بامقصد اور منظم زندگی دینے کے لیئے پہلے پاسبان اورپھر شباب ملی بنا ڈالی ۔اور نوجوانوں سے ہمیشہ یہی امید بھی رکھی اور تلقین بھی کرتے رہے کہ تم ہی تحریک اسلامی کا اثاثہ ہو اس لیئے جہاں ظلم ہو کرپشن ہو ،اسلامی اقدار کی پامالی ہو یا بیرونی مداخلت ہو تحریک اسلامی کا ہراول دستہ بن کر سامنا کرو اور ناپاک عزائم خاک میں ملادو۔قاضی صاحب کے جنازے میں تمام نوجوان اس عزم کا بھرپور اظہار کررہے تھے کہ قاضی صاحب کے مشن کو انشااللہ ہم پورا کریں گی۔
دردِمشترک اور قدرِ مشترک:
بڑے لوگ ہمیشہ کچھ ایسی پر حکمت باتیں کہہ جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیئے اقوال زریں کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔قاضیؒ صاحب اتحاد بین المسلمین کے لیئے ایک بات بار بار دہرایا کرتے تھے کہ سب لوگ درد مشترک اور قدر مشترک پر جمع ہو جائیں۔میں نے جتنا بھی ان الفاظ کے متعلق سوچا حیران رہ گیا کتنے بڑے مفہوم کی بات کتنے مختصر الفاظ میں سمجھا گئے کہ وہ تمام خطے جہاں مسلمان تکالیف اور ظلم برداشت کر رہے ہیںاس درد کو محسوس کرتے ہوئے اورجہاں اختلافی مسائل ہیں انہیں نظر انداز کر کے ان اشوز پر سب متفق ہوں جائیں جو سب میں مشترک ہیں تو سب کچھ کنٹرول کیا جا سکتا ہی۔
بلاشبہ قاضی حسین احمدؒ داعی اتحاد امت تھے اسی لیئے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کیلیئے آپ کا دل دھڑکتا تھااور تمام اسلامی تحریکیں آپ کو امام کا درجہ دیتی ہیںجہاں بھی اسلامی تحریکوں کے درمیاں اختلافات بنتے وہ قاضی صاحب سے ہی رابطہ کرتے تھی۔کشمیر، فلسطین ، عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر تکلیف اور مضطرب میں رہتے ہوئے اوریہی کہتے اور کوشش بھی کرتے رہتے کہ جب تک سب مسلمان اکھٹے نہیں ہوجاتے ان پر ظلم ہوتا رہے گا۔ ان کے لیئے دعاگو اور فکر مند رہتے تھے اور جب کچھ عرصہ پہلے عرب ریاستوں میں تبدیلی کی لہر چلی اور اسلامی تحریکیں منتخب ہو کر سامنے آئیں تو قاضی صاحب بہت خوش اور مطمن تھے اور یہی کہتے تھے اب اس تبدیلی کی لہر پاکستان تک پہنچ کر رہے گی۔
پاکستان کو خاص منصوبہ بندی کے تحت فرقوں میں تقسیم در تقسیم کر کے تشدد کو فروغ دیا جاتا رہا ہے ان حالات میں بھی قاضی صاحب بے چین اور دکھی رہتے تھے ان حالات میں قاضی صاحب حقیقی معنوں میں اتحاد بین المسلمین کے داعی بن کر سامنے آئے اور وہ دینی قائدین جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے وہاں سب کو جمع کرکے ایک ہی صف میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے پر قائل کر لیا اورزندگی کے آخری لمحات تک اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیئے کوشاں رہی۔کبھی ملی یکجہتی کونسل اور کبھی متحدہ مجلس عمل میں قاضی صاحب نے قلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے دینی ہم آہنگی اور سیاسی طور پر بھی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
اگر واقعی امت نے متحد ہونا ہے تو وہ درد مشترک اور قدر مشترک کے فارمولے کو اپنا کر ہی ممکن ہی۔اللہ قاضی صاحبؒ کو جنت الفردوس سے نوازے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور تحریک اسلامی کے تمام کارکنان کو ان کے مشن کو پورا کرنے کی ہمت اور جرات عطا فرمائی۔ آمین
السلام علیکم ، میری یاداشت کے مطابق ”نا معلوم مخلوق” کے بعد اب قلم اٹھایا آپ نے ؟ اور جذبات سے مغلوب ہو کر ، جو تحریر کے ایک ایک حرف سے ٹپک ٹپک رہے ہیں .
اور جو لکھا ، کیا خوب لکھا ،
زخم جو ہرے بھرے تھے اب تک ..
تیری آہٹ ہی نشتر کا کام کر گئی .