جون ٢٠١١ میں امریکی صدر بارک اباما نے پہلی بار افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ امریکا مستقبل میں اپنے افغان مشن کو جنگی کے بجاۓ افغان مدد گار کے رخ پر ڈھال دیا جائے گا لیکن ٢٠١٤ تک مکمل انخلا کا کوئی با قاعدہ منصوبہ نہیں دیا گیا تھا ٢٠١٢ سے محدود انخلا کا آغاز ہو گیا اور خطے میں موجود ممالک نے اپنی اپنی پالیسیز بدلنا شروع کر دیں اس وقت افغانستان میں ٦٦٠٠٠ امریکی فوجی موجود ہیں حال ہی میں امریکی صدر نے دوحہ میں افغان صدر حامد کرزئی سے ایک کامیاب ملاقات کے بعد اس انخلا کی با قاعدہ تاریخ مقرر کر دی ہے جس کی رو سے موسم بہار سے پہلے ٩٠ فیصد امور افغان حکومت کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔ خطے کے عسکری اور سیاسی تناظر میں یہ ایک اہم پیش رفت ہو گی بھارت ، چین اور پاکستان اس جزوی خلا میں اپنے مفادات کا تعین کرنے میں پہلے سے ہی مشغول ہیں – چین ، پاکستان کی مدد سے خطے میں اپنی طاقت منوا سکتا ہے جو کسی صورت بھی بھارت اور امریکا کو قبول نہیں ہو گا اس لیے دونوں طاقتوں کی طرف سے اپنے اپنے مفادات پر راہیں ہموار ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
پاکستان کی لاء اینفورسمنٹ ایجنسز نے اندرون ملک پھیلی ہوئی صورت حال کی اہمیت کو محسوس کر لیا ہے جوملکی سلامتی کے دیمک کی صورت امریکی آمد کے بعد پاکستان کے گلی کوچوں میں پہنچ چکی ہے اس کے لیے پہلا اہم قدم پالیمان سے ” فری ٹرائل بل ” کی منظوری کی شکل میں اٹھایا گیا جس کا اصل مقصد ملک میں موجود دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے جس کا اظہار اس بات میں موجود ہے کہ اس بل کا اطلاق صرف پاکستانی شہریوں پر نہیں بلکہ غیر پاکستانیوں پر بھی ہو سکے گا ، بات صرف یہیں تک نہیں رکی اس منصوبے کو تقویت اس وقت ملی جب فوج نے اپنے ڈاکٹرائن میں تبدیلی کر دی جس میں مشرقی باڈر کو اولین ترجیح سے ہٹا کر اس درجے پر اندروں ملکی مخدوش صورت حال کو رکھ دیا گیا اس نئی تبدیلی کی تفصیل سے مزید یہ بات واضح ہوتی ہے یہ تبدیلی کسی جہادی گروپ کے بجاۓ ملکی سلامتی کے لیے اصل خطرہ غیر ملکی عناصر کے لیے ہی کی گئی ہے کیوں کہ اس ڈاکٹرائن میں سلاله اور ابیٹ آباد کے واقعات کو حوالے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے -یہ تبدیلی امریکی اور بھارتی حتی کہ افغانی عوامل کے لیے سیدھا پیغام تھا جو پاکستان میں بلعموم اور بلوچستان میں بلخصوص کام جاری رکھے ہوۓ ہیں امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستانی فوج جو وار آن ٹیرر پر امریکی مفادات کے خلاف کام کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے اور اب بھی وضاحت کے ساتھ ارادہ نہیں رکھتی ، مذکورہ اقدامات محض ملکی سلامتی کے طور پر اٹھائے گئے ہیں جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان کے خلاف نئے محاذ پیدا کیے جا رہے ہیں اور گھمبیر صورت حال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
٦ جنوری کو بھارت نے پاکستانی باڈر پر آٹھ سے زائد پوسٹس پر فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا جو آٹھ دن گزرنے کے باوجود تا دم تحریر جاری ہے اس سرحدی کشیدگی میں ٤ اموات ہو چکی ہیں لیکن دونوں طرف کے فریقین کسی امن میز کی طرف بڑھتے نظر نہیں آتے لیکن ہو سکتا ہےآج پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور پر کمزور کرنا ان عناصر کے لیے ماضی سے زیادہ ضروری ہو چکا ہے اس لیے وہ مشرقی بارڈر پر محاذ گرم ہی رکھنے کو ترجیح دیں گے اور جنگی پیش رفت سے بھی گریز نہیں کریں گے پاکستان نے ١١ جنوری ٢٠١٣ کو پاکستان میں بھارتی سفیر شرارت سبھروال کو وزارت خارجہ طلب کر کے بھرپور احتجاج کرتے ہوۓ کہا کہ بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ ناقابل قبول ہے ساتھ ہی بھارتی حکومت کو پیغام بھیجا کہ ٢٠٠٣ میں کیے گئے سیز فائر معاہدہ پر عمل کرے اور ان واقعات کی تحقیقات کرواۓ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ملٹری آبزرورز فار انڈیا اینڈ پاکستان سے تحقیقات کی تجویز بھی دی گئی بھارت نے جارحانہ طور پر دہلی میں پاکستانی سفیر سلمان بشیر کو طلب کر کے نہ صرف اس تجویز کو رد کر دیا بلکہ وا قعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ، بھارتی ایئر چیف نے دھمکی دی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جواب کےدوسرے زرا یح پر بھی غور کیا جاۓ گا اس سرحدی کشیدگی کو مزید ہوا بھارت کی حیرت انگیز طور پر غیر متنازعہ شخصیات کی طرف سے دیکھنے میں آئی جن میں انا ہزارے ، اجے دیوکں اور شاہ رخ خان نمایاں ہیں جس میں واضح طور پر بھارتی فوج کو جنگ کے لیے اکسایا گیا ایک ریٹائر بھارتی کرنل کا ٹویٹ عسکری ماہرین کے نہایت اہم ہے جس میں پاکستان کے اندروونی مخدوش حالات کا فائدہ اٹھا کر ان واقعات کا رد عمل ظاہر کرنے پر زور دیا گیا اس رد عمل کے پہلے پہلے مرحلے میں انہی حالات میں بلوچستان میں ہزارہ قبائل کے ٨٦ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بظاہر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اس میں فرقہ وارانہ عنصر شامل ہے اس نوعیت کے واقعات کا مرکز صرف بلوچستان ہی کیوں ہے اگرچہ اسی قسم کے واقعات کراچی جسے کاروباری حب میں بھی کیے جاتے جن کا واضح مقصد اس خطے میں انتشار پیدا کرنا ہے – یہ خلفشار امریکی جزوی انخلا کے بعد پاکستانی حیثیت کو کمزور کرے گا نتیجتا مستقبل کے عسکری اور سیاسی حالات میں پاکستان لاچار نظر آئے گا اس کے ساتھ ساتھ “گریٹر بلوچستان ” جیسے امریکی ملٹری پلان کی راہ بھی ہموار کرے گا جو نہ صرف بلوچستان کے طویل ساحل ، معدنیات اور قدرتی وسائل کی وجہ سے اامریکی دلچسپی کا باعث ہے بلکہ آئندہ ٢٠ سے ٣٠ سال بعد چین کے وسائل اور سنٹرل ایشیا پر دنیا کے انحصار میں کمی کی وجہ سے بھی اہم ہے اس سارے تناظر میں ایران خطے کا مرکزی نقطہ ہے- اسی وجہ سے امریکن بلیک واٹرز نے کوئٹہ میں( سیٹلائٹ ٹاؤن اور چمن ہاؤسنگ سوسائٹی ) ١٠٠ سے زائد گھر کراۓ پر لے رکھے ہیں اس کے علاوہ دنیا کی ٢٠ خفیہ ایجنسیز بلوچستان کے خطے میں اپنے اپنے مفادات کے لیے موجود ہیں یہ واقعہ انہی عناصر کا شاخسانہ ہے اسی افراد کے انسانیت سوز قتل کو اپنے اپنے مفاد کے لیے موڑنے کی بھرپور کوشش جاری رہی کوئی نہیں جانتا کہ اسی کویٹہ کے علمدار روڈ پر دھرنے میں بیٹھے افراد اس بات کیوں مصر تھے کہ فوج کے آنے تک ان لاشوں کی تدفین نہیں کی جاۓ گی بظاھر فوج کو بلا کر خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونا یقینی تھی اگرچہ فوج کسی حکمت عملی کے تحت کویٹہ میں کریک ڈاون کرتی تو غیر ملکی عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا تھا جو نئی گرین بک کے عین مطابق ہوتا لیکن بوجوہ مغربی باڈر پر بھارتی جار حیت کے فوج اس محاظ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اسی لیے وزیر اعظم پرویز اشرف نے طویل مشاورت کے بعد گورنر راج نافذ کر دیا گیا یوں ظاہری طور پر بلوچستان میں امن کی امید پیدا کر دی گئی ہے لیکن اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ گورنر راج کوئی اچھے نتائج دے سکے گا اس واقعے میں ایران کی دلچسپی صرف ایک فرقہ کی بنیاد پر نہیں تھی جس کا اشارہ علامہ شہنشاہ نقوی کے حالیہ بیان میں ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ خامنہ ای سے رابطہ میں ہیں اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں ایران کی مدد پہنچ سکتی ہے ہر دو صورتوں اگر فوج کی کوئٹہ آمد کا مطالبہ یا ایران کی براہ راست کاروائی ایرانی مفادات کا تقاضا تھا کیوں کہ بلوچستان میں موجود استعماری قوتیں نہ صرف پاکستان کی سلامتی اور وجود بلکہ ایران کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
ان واقعات کی کڑی میں طاہر القادری کا کردار بھی واضع طور پر مشکوک ہے جو اس وقت اسلام آباد میں ایک بڑے جدید کنٹینر میں ایک بڑے مارچ کی قیادت کیے ہوئے ہیں ان کے مطالبات بظاہر پاکستانی قوم کے لیے بہت دلکش ہیں لیکن پس پردہ بیرونی سازش کی بو سے بھرپور ہیں، جب وہ 500 ملین روپے کی خطیر رقم میڈیا پر خرچ کر کے ایک گولی و بم پروف کنٹینر میں اپنا لشکر لے کر اسلام آباد روانہ ہوئے تو نہ صرف اس بو میں مزید شدت آئی بلکہ ان کی کامیابی کے آثار میں یقین کا اضافہ ہوا، وہ اپنے کنٹینر میں تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات سے خوب مزین ہیں اور راتیں امریکی سفارت خانے میں گزار رہے ہیں تمام سیکیورٹی ہٹا لینے کے بعد جب پاکستانی سیکیورٹی ایجنسز نے جب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی توردعمل میں بھی کمانڈو ایکشن دیکھنے میں نظر آیا اور ان کو ہاتھ تک نہ لگنے دیا گیا جس طرح اس کوشش میں ان کی گاڑی کو چلایا گیا اس کی مہارت بہت سارے سوال اٹھا تی ہے اس پر اگلے ہی دن امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ وہ ہر قیمت پر طاہر القادری کا تحفظ چاہتے ہیں اور انہیں پاکستان کی طرف سے سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے میں یہ منظر نامہ کیوں اہم ہے اور اس کے ممکنہ اہداف کیا ہو سکتے ہیں امریکی خواہش ہے کہ فوج کی واضع حمایت امریکی مفادات کو حاصل رہے جس کے پیچھے جنرل کیانی کا کردار نمایا ں ہے امریکہ ضرور چاہے گا کہ اس کے انخلا تک یہ پاکستانی فوجی قیادت ان کے ساتھ رہے کیوں کہ کسی بھی نئی فوجی اور ممکنہ نئی سیاسی قیادت سے اس نہج پر رشتہ استوار کرنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے جس پر یقینی طور پر پاکستانی عوام کا دباؤ بھی ہو گا اسی ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جس سےفوج خود مارشل لاء کی ضرورت کرے اب اس بارے کہنا ناممکن ہے کہ کیا فوج بھی اس امریکی سوچ سے اتفاق کرتی ہے یا نہیں، دوسری طرف امریکہ کے ،بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں کسی ایڈونچر کرنے کے امکان کو بھی خارج نہیں قرار دیا جا سکتا جس میں انہیں اسرائیلی انٹیلی جنس حمایت بھی حاصل ہو گی اس خدشے میں باقاعدہ پلان کے ساتھ کراچی اور پشاور پر پاکستانی ائیر کرافٹ کو نشانہ بنانا نہایت اہم ہیں اور اس ایڈونچر کا نشانہ پاکستانی ایٹم بم ہی ہو گا۔
اچھا تجزیہ ہے،باقی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا،اگر ہو سکے تو طاہر القادری کے امریکی سفارتخانے میں قیام کے کچھ ثبوت بھی سامنے لایے
پاکستان کی اللٰہ حفاظت کرے ۔ آ مین