کسی ملک میں جب جمہوری نظام رائج ہو تو وہاں عوام کو کسی بھی معاملے پراحتجاج کرنے کا جمہوری حق حاصل ہوتا ہے۔ خواہ مہنگائی کا مسئلہ ہو، حکومتی پالیسیاں ہوں، یا کوئی اور معاملہ یہ عوام کا بنیادی جمہوری حق ہے کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ اگر کبھی ایسا معاملہ پیش آجائے کہ کوئی پارٹی یا گروہ اپنے موقف کے حق میں کوئی تحریک یا احتجاج برپا کرنا چاہے اور فی لواقع ان کا موقف درست اور آئینی نہ ہو بلکہ غیر جمہوری اور غیر آئینی ہو تو ایسی صورت میں پہلے مذاکرات یعنی فریقین ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کریں، اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل دیں اور ایسے دوسرے کو قائل کریں اور پھر جو فریق غلطی پر ہو وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے دوسرے فریق کے مطالبات مان لے۔ ( بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس کا رواج کچھ کم ہی ہے) ۔ مذاکرات ناکام ہوجانے کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اب حکومت اس معاملے سے کیسے نپٹتی ہے۔ اگر حکومت مناسب سمجھے تو سختی بھی کرسکتی ہے اور چاہے تو فریق مخالف کو فری ہینڈ دیکر خود عوام سے رجوع کرے اور عوام کی عدالت میں یہ سارا معاملہ رکھ دے اور ان سے فریق مخالف سے لاتعلق رہنے کی اپیل کرے۔ ( یہ طریقہ بھی ہمارے یہاں نہیں اپنایا جاتا) ۔ تیسرا اور آخری راستہ یہ ہوتاہے کہ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کو( خواہ وہ درست ہو یا غلط) طاقت کے بل پر دبا دے اور یہ جمہوریت میں یہ سب سے برا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن اس سے بھی بری بات یہ ہوتی ہے کہ حکومت اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کے بجائے عوام کو باہم دست و گریبان کرنے کی کوشش کرے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق گذشتہ روز رحمن ملک صاحب نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے اسلام آباد کے تاجروں کو اکساتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے لیے بنائے گئے ٹوائلٹس اور کیمپس اکھاڑ پھینکیں میں اس کی اجازت دیتا ہوں۔ یہ صریحاً قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بات ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے بجائے انتشار پھیلائیں۔ مجھے نہ تو طاہر القادری صاحب سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کی اس میں شرکت سے کوئی تعلق ہے۔ یہ لانگ درست موقف کی بنیاد پر کیا جارہا ہے یا غلط موقف پر؟ یہ لانگ مارچ قانونی اور آئینی ہے یا غیر آئینی ؟ ان سب باتوں پر لمبی بحث کی جاسکتی ہے لیکن تھوڑی دیر کے لیے ان سب باتوں کوبھولتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ صاحب کے بیا ن جائزہ لیں تو یہ خانہ جنگی اور عوام کو عوام سے لڑانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
ذرا چشم تصور سے یہ نظارہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اسلام آباد کے تاجروں نے وزیر داخلہ صاحب کی شہہ پر لانگ مارچ کے خلاف کارروائی کردی ہے، ان کے کیمپس اکھاڑ پھینکے ہیں، ان کے عارضی بیت الخلاء توڑ دیئے گئے ہیں، اور دو دن بعد لانگ مارچ کے شرکاء جب وہاں پہنچتے ہیں اور جواباً وہ تاجروں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ملک میں ایک افراتفری ، انتشار کا سماں ہوگا۔ اگر خدانخواستہ یہ ہوجاتا ہے تو پھر یہی رحمن ملک صاحب ایک بار پھر میڈیا پر جلوہ گر ہوکر کہیں گے کہ دیکھا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لوگ امن وامان خراب کرنے کے لیے آئے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح وہ تو اپنی سیاسی دکانداری چمکا کر چلے جائیں گے اور ویسے بھی اب تو ان کو جانا ہی ہے لیکن جاتے جاتے وہ عوام میں نفاق کا بیج بو دیں ۔ اس قبیح حرکت سے دلوں میں جو کدورتیں پیدا ہوں گی وہ برسوں تک نہیں ختم ہوسکیں گی، ہماری دعا ہے کہ ہماری خدشات غلط ثابت ہوں اور دارالحکومت کے تاجران وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کونظر انداز کردیں ۔ وزیر داخلہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے ۔اول توانہیں لانگ مارچ کرنے دیں ان کو فری ہینڈ دیدیں اور اگر آپ کو تحفظات ہیں تو مذکرات کریں، اگر سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہیں تو پھر جو کارروائی مناسب ہو وہ کریں لیکن وہ کارروائی حکومت کی سطح پر ہونی چاہیے عوام کو باہم دست و گریبان کرنے کی مذموم کوشش نہ کیجیے۔
ادھر دوسری جانب بھارت نے پاکستان پر دوبارہ جارحیت مسلط کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور گذشتہ چھے روز سے بھارتی افواج مسلسل پاکستانی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی چوکیوں اور دیہات پر گولہ باری کررہی ہیں جس ہمارے جوان اور عوام شہید ہورہے ہیں۔ اس اچانک جارحیت کی کوئی وجوہات بیان کی جارہی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا اور اندرونی طور پر یہ طے کیا گیا تھا کہ سال دوہزار بارہ اختتام پر باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا لیکن ابھی تک اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے، اس کی جھنجھلاہٹ ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب گذشتہ ماہ دہلی میں طالبہ کے ساتھ چلتی بس میں اجتماعی زیادتی اور بعد ازاں اس طالبہ کی موت کے باعث بھارتی حکومت شدید دباؤ میں ہے۔ اس واقعے کے بعد سے عوام سڑکوں پر تھی اور طالبہ کی موت کے بعد تو گویا ایک لاوا پھٹ پڑا تھا، بھارتی حکومت کو اس دباؤ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا اس لیے انہوں نے اس معاملے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سرحدوں پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع کیا اور ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے اس وقت بھارتی میڈیا سے طالبہ کا کیس غائب ہوگیا ہے اور سرخیوں میں پاکستان کے ساتھ جھڑپیں چھائی ہوئی ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو اور میڈیا کچھ بھی کہے لیکن خودبھارت کے گھر کے بھیدیوں نے لنکا ڈھا دی ہے اور بھارتی وزارتِ دفاع اور داخلہ نے ان معاملات پر تحقیقاتی رپورٹس پیش کی ہے اس میں واضح طور پر بھارتی فوج کو جارحیت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پہل بھارتی فوج نے کی اور پاکستان نے ان کا بدلہ لیا ہے۔
ایک جانب بھارتی وزارت داخلہ اور دفاع کی یہ رپورٹس دوسری جانب ہماری وزیر خارجہ کا افسوس ناک رویہ اور بیان ملاحظہ کیجیے۔ ان کو بھارت کی جارحیت، پاکستانی جوانوں کی شہادت اور پاکستانی فوج اور عوام کے جذبات کے بجائے اس بات کی زیادہ فکر ہے کہ بھارت کو اب بھی پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیدیا جائے اور وہ فرماتی ہیں ’’کہ ان جھڑپوں سے آپس کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،مذاکرات کا عمل جاری رہے گا اور بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے میں چند ہفتوں کی تاخیر بری بات نہیں ہے‘‘
وائے ناکامی کہ متاعِ کاروان جاتا رہا
کاروان کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کیا اب بھی بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دیدیا جانا چاہیے؟؟ میرا آپ سب سے صرف ایک سوا ل ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو کیا اس وقت بھارتی حکومت کا بھی یہی رویہ ہوتا؟؟ کیا وہ اس وقت بھی مذاکرات کی بات کرتے؟؟ اور کیا زندہ قوموں کا یہی چلن ہوتا ہے؟ صرف یاددہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ ممبئی حملوں کے وقت اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اور بھارت نے کسی بھی قسم کے مذاکرات اور بات چیت سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت بھی بھارت جو مذاکرات اور بات چیت کررہا ہے وہ صرف اپنے مفادات اور اپنی شرائط پر کررہا ہے۔ امن ہونا اور امن کی آشا رکھنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے لیکن امن برابری کے ساتھ ہونا چاہیے۔
فیس بک تبصرے