مصر کو جنگ کی اسرائیلی دھمکی

مصر اور سعودی عرب کی حکومتوں نے دونوںملکوں کے درمیان زمینی راستہ کے طور پر آبنائے عقبہ کے اوپرسے پل بنانے کا منصوبہ بنایا ہےاور یہ پل مصر کے شہر شرم الشیخ اور سعودی عرب کے علاقہ تبوک کو آپس میں ملائے گاجسسے دونوںملکوں کے درمیان آمدورفت اور تجارت انتہائی آسان ہو جائے گی اور دونوں ممالک کے شہری آدھ گھنٹہ میں سستے داموں ایک دوسرے کے ملک میں آجاسکیں گے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ پل اسرائیل کے مفادات کے خلاف ہے اگر یہ پل تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تو اسرائیل مصر کے ساتھ عسکری طور نبٹنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور مصر کےدرمیان آبنائے عقبہ کےآغاز پر دو جزیرے موجود ہیں جو سعودی عرب کی ملکیت ہیں۔

 

1967ء کی جنگ کے بعد ان میں سے ایک جزیرہ مصر کو لیز پر دیا گیا تھا تاکہ مصری فوج اسرائیلی فوجی کاروائیوں اور اس کی آمدورفت کو مانیٹر کر سکے لیکن شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان دونوں جزیروں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا اور ایک جزیرہ پر اپنی چیک پوسٹ قائم کی۔ ان جزیروں پر بیٹھ کر اسرائیل نہ صرف اپنی بحری تجارت کی نگرانی کرنے لگا بلکہ علاقہ کی فوجی معلومات اور اپنی تخریبی کاروائیوں کے لیے اہم ٹھکانہ کے طور پر استعمال کرنے لگا۔ بعد میں مصر کے صدر حسنی مبارک نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ میں ان جزیروں کے متعلق اسرائیل سے کوئی بات نہ کی اور اسرائیل کے قبضہ کو برقرار رکھا گیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان جزائر پر چھٹی صدی عیسوی میں یہودی آباد تھے اور یہ اب بھی اسرائیل کی ملکیت ہے۔

 

اس وقت ان میں سے ایک جزیرہ صنافیر جس کا رقبہ چھتیس مربع کلو میٹر ہے وہ اسرائیل کے ناجائز قبضہ میں ہے جبکہ دوسرا جزیرہ تیران جسکا رقبہ اسی مربع کلو میٹر ہے اس پر کچھ مصری فوجی اور کچھ بین الاقوامی فورس کے فوجی ناروے کی قیادت میں موجود ہیں اور دونوں جزیرے اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور اب تک یہ معاملہ علاقہ میں ایک اہم خفیہ راز کے طور پر اس لیے رہا ہے کہ مصر کے حسنی مبارک اسرائیل نواز ہونے کی وجہ سے اس کو اسرائیل کے حق میں چھپاتے رہے ہیں جبکہ سعودی عرب جو کہ اس کا اصل مالک ہے مجرمانہ غفلت اور بزدلی کا شکار رہا ہے اور اب بھی سعودی عرب کے حکمران امریکا نوازی اور اسرائیلی خوف کی وجہ سے اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتے اور اس کو خفیہ رکھنے پر ہی رضا مند ہیں۔

 

حال ہی میں مصر کے اندر اخوان المسلمین کی اسلام پسند حکومت قائم ہونے کے بعد مصری فوج نے ایک جزیرہ تیران پر اپنا فوجی کنٹرول مضبوط کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ یہ جزیرہ مصر ہی کی ملکیت ہے کیوں کہ سعودی عرب کی طرف سے دیا گیا یہ جزیرہ مصر کی سرحد کے زیادہ قریب ہے اور اس پر مصرہی اپنے ذرا ئع اور فوج سےاسکا تحفظ اورکنٹرول برقراررکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ ان جزائر پر عام لوگوں کا آنا جانا نہیں ہے اور صرف فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جہاں ایک طرف مصر کی نئی حکومت نے صحرائے سیناکےاندر اسرائیلی سرحد کے قریب تر نہرسویز کی طرز پر ایک نئی اور اس سے بڑی نہر ےکھودنےکے معاہدے پر دستخط کیےہیں جو کہ غزہ پٹی کے قریب مصر کے شہر العریش کو صحرائے سینا سے ہوتے ہوئے شہر تابہ سےبحری راستہ سے ملائے گی وہیں مصر اور سعودی عرب کے درمیان مجوزہ پل تعمیر کرنے کے منصوبہ کو بھی جلد مکمل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس پل کی تجویز عرصہ پہلے بنائی گئی تھی لیکن حسنی مبارک نے اسرائیل کے کہنے پر اس منصوبہ کو بند کر دیا تھا۔

 

اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہاں سے بین الاقوامی تجارت ہوتی ہے اور اس پل کے تعمیر ہونے سے اسرائیل اور اردن کی آزاد تجارتی آمد و رفت کو نقصان پہنچے گا اس لیے پل کو تعمیر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ مصر کی حکومت نے اس پر رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے عسکری کاروائی کرنے کی جرات کی تو ایسا جواب دیا جائے گا کہ اسرائیل کا جینا مشکل ہو جائے گا۔

فیس بک تبصرے

مصر کو جنگ کی اسرائیلی دھمکی“ پر 2 تبصرے

  1. “لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ پل اسرائیل کے مفادات کے خلاف ہے . . .”
    ان سے کہا جائے کہ ایک لسٹ تیار کر کے سب کو بھیج دے کہ ان کے مفادات میں کیا کیا ہے اور کیا کیا نہیں .. . . .

    ہائے . . . ہماری غفلت . . . آج ایک مٹھی بھر ملک سارے عالم اسلام کو ناچ نچا رہاہے .
    وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر. . . .

    اللہ ہمارے حال پر رحم کرے.

Leave a Reply