اگر میں کسی کو بھول نہیں رہا تو کراچی سے شعیب صفدر اور کاشف نصیر، فیصل آباد سے شاکر عزیز، ملتان سے ریاض شاہد، گجرات سے بلال محمود، لاہور سے زوہیر چوہان، اسلام آباد سے محمد سعد اور راولپنڈی سے خرم ابن شبیر، راجہ اکرام یعنی یہ کل ملاکر کوئی آٹھ نو مستقل اردو بلاگرز بنتے ہیں جو اس تقریب میں پائے گئے جسے بین القوامی اردو بلاگرز کا نام دیا جارہا ہے اور جسکی بلاگستان سے لے کر مختلف اخبارات کے آن لائن ایڈیشن میں ہر جگہ دھوم ہے۔ لیکن شاید یہ بلاگرز کی تعداد کا مسئلہ نہیں ہے یہ تو میڈیا سے تعلقات اور وسائل کا معاملہ ہے۔ اگر ہمارا یقین نہیں آتا تو ذرا مختلف اخبارات اور آن لائن ایڈیشن پر اس کانفرنس سے متعلق خبروں پر نظر ڈالیں، آپ تمام خبریں دیکھتے جائیں اور پھر سوچیں کے کیا ایسا نہیں لگتا کہ کسی نے ایک خبر تمام اداروں کو ارسال کردی اور پھر ان اداروں نے معمولی تبدیلی کے بعد اسے شائع کردیا؟ مزید یہ کہ خبروں میں محسن عباس، انکے دوست احباب اور نام نہاد بلاگر حسن معراج کو نمایاں انداز میں پیش کیا گیا اور اگر کہیں ایک دو مقام پر اردو بلاگرز نظر بھی آئے تو انہیں دانستہ طور پر پیچھے رکھا گیا۔ مگر ہمارے اردو بلاگرز بھی بڑے سادہ لوگ ہیں خوش ہیں کہ انہیں کسی نے گھانس تو ڈالی، یہ اور بات ہے کہ خود یہ رضیہ اور انکے نہ آنے والی ساتھی غنڈے قرار دئیے گئے، کوئی بات نہیں اگر کسی نے انہیں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے والے جاہل اور عامی بتایا، کانفرنس تو کامیاب ہوگئی نا۔۔۔
بلاگستان والے خوامخوا فہد کہیر، جعفر حسین، ڈفر، عنیقہ ناز، خاور کھوکھر اور یاسر جاپانی کو سر پر چڑھاتے ہیں اصل بلاگ لکھنے والے تو حسن معراج ہیں، جی ہاں وہی حسن معراج جنہیں پورے شمالی امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے بلکہ بقول محسن عباس وہ اس صدی کے سب سے بڑے بلاگر بھی ہیں۔ حسن معراج کو بہت بہت مبارک ہو اور ڈان اخبار کو بھی جس نے موصوف کی ٹرین میں اپنا انجن لگایا ہوا ہے۔ ہمارے بلال بھائی خوش ہیں کہ اردو بلاگر کانفرنس ہوگئی اور فیس بک پر وہ کہیں کہیں ناقدین پر کافی جذباتی انداز میں غصہ کا اظہار کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں لیکن ہمارے بلال بھائی واقعی دیہاتی اور سادہ آدمی ہیں کہ لوگوں کو فیس ویلو پر لے لیتے ہیں۔ ہماری چڑیا کے مطابق غیر ملکی مہمانوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے والے بلال بھائی کے لئے جن خیالات کا اظہار انکے پیچھے کیا گیا ہے اگر وہ اسکا ادارک رکھتے تو کانفرنس کے دوسرے روز لاہور کے بجائے گجرات میں ہوتے۔ چڑیا مزید کہتی ہے کہ لوگ باگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ سوائے کراچی کے ایک بلاگر کے جن کے کمرے میں خبریں تیار ہورہی تھی اور “کیمرے والوں” کی رونق لگی تھی باقی تمام بلاگرزملنے ملانے اور ہنسے کھیلنے میں لگے تھے کہ جیسے لاہور صرف سیر و تفریح اور گھومنے پھرنے کے لئے آئے ہوں، ارے یہ تو اس قابل ہی نہ تھے کہ انکے لئے کچھ کیا جاتا!!! کراچی کے اس بلاگر کے روئے پر بھی بندا سوائے افسوس کے ہاتھ نہ ملے تو اور کیا کرے کہ موصوف بہت کچھ جانتے ہوئے بھی ایسے انجان بنے ہوئے ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔
کچھ لوگ حیران ہیں کہ محسن عباس صاحب کی یہ اچانک انٹری ایسی خالی خولی تھوڑی ہوسکتی ہے چنانچہ وہ سیاسی طاہر القادری اور بلاگی طاہر القادری کی شجرے نسب آپس میں ملارہے ہیں، دونوں کچھ سالوں پہلے کینیڈا منتقل ہوگئے، دونوں ہی اچانک لاہور میں نازل ہوئے، دونوں نے ہی سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی، دنوں نے میڈیا میں اپنے ذاتی تعلقات اور سرمائے کا استعمال کرکے خبریں لگوائیں اور دنوں ہی شدید مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ تیس ہزار کو تیس لاکھ اور آٹھ کو ستر بنانے کا گر جانتے ہیں لیکن ایک چیز وہ نہیں سمجھتے اور وہ یہ ہے کہ اردو بلاگرز بلعموم کوئی بچے نہیں کہ پانی کو “مم” اور چڑیا کو “چو چو” کہیں۔ اردو بلاگرز ایک جہد مسلسل سے گزر کر کافی پختہ ہوچکے ہیں، وہ گلی محلوں اور مسائل کے درمیان رہتے ہیں اور انکے موضوعات کا دائرہ جتنا وسیع ہے انگریزی بلاگرز اسکے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔
پتے کی اکثر باتیں پردیسی صاحب اپنے بلاگ میں لکھ چکے ہیں کہ دانا آدمی ہیں اور انداز بیان میں ملکہ رکھتے ہیں، ہم انہیں کی باتیں آگے بڑھاتے ہوئے ان بلیوں کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں جو کافی حد تک اب تھیلے سے باہر آچکی ہیں۔ مزید حقائق وقت کے ساتھ ساتھ باہر آتی جائیں گی۔
1۔ کانفرنس کے کوریج کے نتیجے میں اصل واہ واہ کانفرنس کے غیر ملکی میزبان کو ہونی تھی اور ایسا ہی ہوا۔
2۔ ناپختہ اور بظاہر شریف نظر آنے والے بلاگرز کو تلاش کرکے انہیں آگلے مرحلے کے لئے تیار کیا جائے۔
3۔ کانفرنس کے دوران محسن عباس نے اردو بلاگرز کے لئے کینیڈا سے ایک فری سرور کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان بھی سنجیدہ طبقے کے لئے انتہائی معنی خیز ہے۔
4۔ کانفرنس کے دوران اور ہوٹل کے کمروں میں ملالہ یوسف ذئی کا ذکر بھی چلتا رہا ہے، محسن صاحب کو کوئی ملالہ ملی ہو نہ ملی ہو کئی ملالے ضرور مل گئے ہیں سو کانفرنس کے بعد کئی برساتی بلاگرز کی آمد آمد ہے اور ان میں جو واقعی ملالے ثابت ہوئے، ممکن ہیں وہ کافی آگے جائیں۔
5۔ کانفرنس کی نظامت اور صدارت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جن کا اردو بلاگنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی اردو بلاگنگ کسی نہ کسی معنی میں کنٹرول کرنے یا ہائی جیک کرنے کا انتظام کرلیا گیا ہے۔
6۔ آگر کسی کو آن لائن لینا ہی تھا تو فہدکہیر یا خاور کھوکھر ایسے مانے ہوئے بلاگرز کو کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا بین القوامی اردو بلاگر کانفرنس میں آن لائن آنے کے لئے صرف محسن صاحب کے دوست احباب ہی رہ گئے تھے؟
7۔ کانفرنس میں مستقل اردو بلاگرز جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا کی تعداد صرف آٹھ تھی جبکہ چار کے قریب نو مولود بلاگر
تھے باقی پندرا سے بیس دیگر شرکاء کا اردو بلاگنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کل ملا کر شرکاء کی مجموعی تعداد تیس سے پینتیس تھی لیکن اخبارات میں بلاگرز کی تعداد ستر سے زیادہ بتائی گئی ہے جو کہ خود ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ پوری کوریج سے لگتا ہے کہ مستقبل میں پروفیشنل صحافیوں کو اردو بلاگنگ کی تربیت دے کر بلاگرز کے سامنے لا کھڑا کیا جائے گا۔
8۔ کانفرنس کے بعد اردو بلاگ فورم ایک ایسا مستقل فورم وجود میں آگیا ہے جس سے یقینا بلاگرز پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔
9۔ کانفرنس سے قبل اردو بلاگرز ڈائریکٹری اور بہترین تحاریر کے مجموعے کا بھی بہت شور تھا لیکن کانفرنس کے دوران اس سے دانستہ طور پر صرف نظر کیا گیا۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بین اقوامی اردو بلاگرز کانفرنس سے اردو بلاگرز اور اردو بلاگنگ کوئی فائدہ نہیں ہوا، اردو بلاگنگ کی خبریں لگیں، چند ایک بلاگر کے نام بھی ایک دو جگہ نظر آئے لیکن اگر اسکے نقصانات کا سوچیں تو وہ کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ لہذا اردو بلاگرز خود کو بے اثر اور ریت کا ڈھیڑ نہ سمجھیں، انکی طاقت یہ ہے کہ نیٹ پر اردو کا زیادہ تر مواد ان ہی کے پاس ہے، انکی طاقت یہ ہے کہ اردو اخبارات ان سے خوفزدہ ہیں، انکی طاقت یہ ہے کہ انکی ٹارگٹ آڈینس انگریزی بلاگرز سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سو خود کو قابل فروخت نہ سمجھیں، آپکا میدان آپکا بلاگ ہے، آپکی تحریر ہے اور آپکے محافظ آپکے ساتھی بلاگرز ہیں نہ کہ مین اسٹریم میڈیا یا کچھ مشکوک قسم کے غیرملکی لوگ۔
حسن معراج کی تقریر کے دلچسپ مکالمات یہاں سنیئے۔۔۔
آن لائن نہ سن سکیں تو فائل یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرکے سنیں۔
کاشف یحییٰ اور شاکر عزیز ناپختہ بلاگرز ہیں…؟؟؟
عمران اقبال قلم کارواں صرف سازشی ہے ؛ خریدے جانے والو میں اس نے نعیم خاں کاشف نصیر شاکر عزیز کا نام پہلے لکھا ہوا تھا اب ختم کر دیا ہے ؛ سازشی صرف سازش کرتا ہے اس میں اتنی اخلاقیات ہوتی تو اپنا لکھا تبدیل نہ کرتا
عمران اقبال:
آپ کے سوال پر بلاگر کے مشورے سے نام ہٹادیے گئے ہیں۔ معذرت قبول کیجیے۔
محمد احمد:
سازشیں تلاش کرنے کے علاوہ تھوڑی عقل بھی استعمال کیا کریں. جملہ کچھ یوں تھا کہ:
“اور چڑیا کہتی ہے کہ نعیم خان، کاشف نصیر اور شاکر عزیز کو تلاش کر لیا گیا ہے۔”
تو صاحب اس میں خریدے جانے کا دعویّ کہاں ہے؟ بلاگر نے بس اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ان پر خاص نظر کرم تھی.
آدھی بات نا لکھو : پورا فقرہ لکھو جو لکھا تھا
ناپختہ اور بظاہر شریف نظر آنے والے بلاگرز کو تلاش کرکے انہیں آگلے مرحلے کے لئے تیار کیا جائے اور چڑیا کہتی ہے کہ نعیم خان، کاشف نصیر اور شاکر عزیز کو تلاش کر لیا گیا ہے
تنقید کرنے کا اتنا شوق ہو پھر حوصلہ بھی رکھنا پڑتا ہے : اپنا لکھا مٹایا نہیں جاتا : خود تنقید کر لی : دوسروں کی تنقید سے اپنا لکھا مٹا دیا : یہی تم بلوگرز کا مسئلہ ہے :
فیس بک کے کچھ کمنٹ ڈلیٹ کیوں کر دیئے ?
ہم وہی لکھیں گے جو ہمارا دل چاہے گا. ساتھ ہی اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے تبصرے کی آزادی ہے۔ ہمیں کیا لکھنا ہے اور کرنا ہے اس کے لیے آپ سے گائیڈ لائن لینے کی ہمیں ضرورت نہیں. ساتھ ہی تنقید پر غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے درست نہ کرنا جُہلا کا شیوہ ہے ہمارا نہیں.
کانفرنس پر ایک مختلف انداز میں نقطہ نظر پڑھ کر اچھا لگا، مادیت پرستی کے دور میں کیوں کوئی اردو بلاگرز کو بلاوجہ میں ایکسپوثر اور مراعات دینے کے لیے اتاولا ہو رہا ہے ۔ آج کل کے دور میں جب میڈیا ایک ایک خبر پیسہ کمانے کے لیے لگاتا ہے، کیوں کر بیشتر اخباروں میں بلاگر کانفرنس کی خبر لگ پائی؟ اگرچہ اردو بلاگنگ کو اس کانفرنس سے فائدہ بھی ہوا تاہم کوئی اس قدر مہربان کیوں ہو رہا ہے یہ بات سوچنے سے تعلق رکھتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اردو بلاگرز کانفرنس کے بارے میں ایماندارانہ نقطہ نظر پایا جانا مشکل ہے کیونکہ کراچی میں ہونے والی بلاگرز میٹنگ کے برعکس اس کانفرنس میں اردو بلاگرز کو نسبتآ زیادہ اہمیت دی گئی ہے.
جب اہمیت دی جانے لگے تو ایماندارانہ نقطہ نظر کا پایا جانا مشکل ہوجاتا ہے.
میں نہیں سمجھتا کہ اس کانفرنس میں شریک کوئی بھی بلاگر ” مہمان نوازی” کی “توہین ” کرسکے گا
ایک مختلف نقطہ نظر، بہت خوبصورت تجزیہ۔
جزاک اللہ خیرا فی الدارین۔
یا رب ارنا الحق، یا رب اھدنا الصراط المستقیم۔
پہلے تو جناب درستگی فرما لیں۔ خرم ابن شبیر راولپنڈی سے۔
جناب آپ کی بات کسی حد تک سمجھ میں آ رہی ہے۔
ایک الگ انداز سے تجزیہ بہت اچھا رہا آگے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
محترم آپکو غلط فہمی ہے کہ ہمیں کوئی خرید سکتا ہے یا استعمال کرسکتا ہے، اگر آپکا ہمارے بارے میں ایسا کوئی گمان بھی ہے تو فوری طور پر نکال دیں۔ جہاں تک کانفرنس پر آپکے تجزئے کا تعلق ہے تو آپ نے ایک مختلف انداز میں جاندار باتیں کہی ہیں جن پر ہمیں سوچنا ضرور چاہئے۔جیسا کہ آپ نے خود کہا کہ اس طرح کا تجزیہ پردیسی صاحب کے بلاگ میں بھی سامنے آچکا ہے اور مزید لوگوں نے بھی سوالات اٹھائے ہیں تو محترم وقت کو فیصلہ کرنے دیں کہ کون ٹھیک اور کون غلط ہے۔
اردو سیارہ کے ذریعے اس بلاگ پوسٹ تک پہنچا۔ پوسٹ پڑھنے کے بعد “تعارف” پڑھا تو بات سمجھ میں آگئی۔
مقصد صرف اتنا تھا کہ
عام عوام تک جتنا ہو سکے یہ خبر پہونچے کہ اردو بلاگرز نا م کی بھی کوئی شے ہے۔
اگر کسی نے اردو بلاگرز کو اپنے مفاد کیلئے استعمال بھی کیا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ اردو بلاگرز پر حکومتی اداروں اور میڈیا کی خصوصی نظر ہے۔
بکاؤ مال اگر بلاگرز میں سے نہ ملا تو بلاگ بنانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔
کسی کو بھی خرید کر بلاگنگ کروائی جا سکتی ہے۔
اب بلاگرز کیلئے بھی چیلنج ہے کہ ان کی تحریر کو کتنے لوگ پڑھتے ہیں اور لکھنے والا کس انداز میں اپنی بات کہتا ہے۔
کاشف اور شاکر ننھے بچے نہیں ہیں اور نہ ہی کچے ہیں۔
اس تحریر نے تو مجھے کراچی میں ہونے والی عالمی سوشل میڈیا سمٹ سے متعلق تحاریر اور تبصروں کی یاد دلادی۔ بعض اوقات لوگ اپنے بارے میں اس قدر خوش گمانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اُنھیں دیگر لوگ بھولے، سادہ، بے وقوف اور احمق لگنے لگتے ہیں۔
یار اردو بلاگرز کو آپ نے کو گواچی مج سمجھ لیا ہے جو اسے کوئی اپنے مقصد کے لئے استعمال کر لے گا؟
آپ نے تو مضمون کے نیچے حسن معراج کی آڈیو لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں کی کہ واقعی اردو بلاگر کانسپرایسی تھیوری کو جنم دیتے ہیں!
ممکن ہے منتظمین کے اپنے مفادات بھی ہو مگر ہم نے بحیثیت اردو بلاگر اپنے “برادری” کے مفادات کو تھفظ ہی نہیں کرنا بلکہ ممکنہ فوائد بھی حاصل کرنا ہے۔
کاشف بھائی کا تبصرہ تو آ گیا اب شاکر بھائی اور نعیم خان صاحب کا انتظار ہے
اپریل سن 2009 میں نیشنل بلاگرز کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر کم و بیش اسی خدشہ کا اظہار کا اظہار کیا …یہ پوسٹ درج ذیل کی جارہی ہے …اسے تائید بھی حاصل ہوئی……لیکن اس نہج سے سوچنے پر متعدد اہم بلاگرز کی طرف سے مطعون بھی ٹھہرایا گیا……..تاہم اسی خدشے نے دوبارہ سر اٹھایا…..اور ایک خوبصورت پوسٹ کی شکل میں ……..مثبت اختلاف رائے کو عزت اور تقدس کی فراہمی بلاگرز کے لئے لازمی امر ہے…..
نیشنل بلاگرز کانفرنس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا
کراچی میں بلاگرزکانفرنس کا انعقاد ایک جانبدارانہ پلیٹ فارم اور ماحول میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ غیر
مناسب اقدام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے ایسے شکوک شبہات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیدا ہوتے ہیں کہ
کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاگنگ اور بلاگرز۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاسی طور پر استعمال تو نہیں ہونے جارہے؟؟؟؟؟؟؟
اصولی طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاگنگ کے اصول و ضوابط وضع نہیں کئے جانے چاہئیں۔۔۔۔۔۔۔اگر کوئی بلاگر اپنے بلاگ کواپنے ترتیب دئیے گئے قواعدو ضوابط میں منضبط کرنا چاہے تو اچھی بات ہے لیکن دوسروں پر ان کی پابندی ضروری نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ دور میں
میڈیا کی سب سے آزاد صنف بلاگنگ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے سائبر ہائیڈ پارک بھی کہا جا سکتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خام خیالی ہے کہ بلاگنگ غیر اہم ہے اور اسے سرکاری سرپرستی سے اہمیت دلانی
چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا نقصان یہ ہو گا کہ بلاگنگ کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میڈیا وار میں اسے بھی استعمال کرنے کی روائیت پڑ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلاگنگ کی اہمیت اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ بیشتر اردو بلاگ ایوان صدر ۔۔۔۔وزیر اعظم ہاؤس۔۔۔۔۔حساس اداروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔گورنر ہاؤسز۔۔۔۔۔۔۔۔چیف منسٹر ہاؤسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ میں پڑھے جاتے ہیں اور انہیں باقاعدہ مانیٹر کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ بات وطن عزیز کے حوالے سے ہی باقاعدہ ذمہ داری سے کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا اہمیت چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔کہ آپ کا اظہار رائے اعلی حکومتی اداروں تک تو پہنچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کوئی معمولی بات ہے؟؟؟؟؟
جب آپ مراعات وصول کریں گے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ لینے کے لئے کچھ دینا تو پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔لہذا اس معصوم میڈیا کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہمیت دلانے کے شوق میں۔۔۔۔۔ معشوق۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔مشکوک نہ بنایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بلاگرزکانفرنس میں بقول م م مغل۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم ڈاکٹر فاروق ستار کی تقریر طالبان اور ان کی شریعت کے حوالے سے رہی جس میں سب سے
خوبصورت جملہ یہ تھا کہ ۔۔
” الطاف بھائی وہی کہتے ہیں جو منا بھائی ایم بی بی ایس نے کہا ، یعنی ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا
۔۔سو ٹینشن دیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے ڈاکٹر فاروق ستار بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔بحیثیت مسلمان ہمارے مذہب اور پیارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہ ہے جو کہ دوسروں کی ٹینشن لے نہ کہ انہیں ٹینشن دے۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے مسائل کا ادراک کیجئے۔۔۔۔۔خدارا ان کی ٹینشن لیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جماعت اسلامی کے بعد آپ کی واحد جماعت ہے جو تنظیمی لحاظ سے میری پسندیدہ جبکہ نظریاتی حوالے سے غیر پسندیدہ ہے اس بات کا اظہارمیں نے اس وقت بھی کیا تھا جب آپ لاہور میں جلسہ آرگنائز کرنے کے حوالے سے میرے مطب پر تشریف لائے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے سوات کی جعلی ویڈیو کی اداکارہ کی چیخوں کی توٹینشن لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن قائد کے مزار پر اپنی عصمت گنوانے والی حوا کی بیٹی کی چیخیں آپ کے کانوں تک نہ پہنچیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اور اس بچی کی ٹینشن لینا گوارا نہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الطاف بھائی سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ وہ منا بھائی کی بجائے۔۔۔وہی کہیں جو ہمارا دین کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو حضرت علامہ اقبال کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو حضرت قائد اعظم کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیرآپ سے باتیں تو ہوتی رہیں گی اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف تو بلاگرز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرآپ بلاگنگ کی اہمیت دلانے کےلئے کانفرنسز کا انعقاد ضروری سمجھتے ہیں تو
ہونا یہ چاہئے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاگرز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسوسی ایشنز بنائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورغیر جانبدار مقامی،صوبائی، قومی و بین الاقوامی کانفرنسز
کا خود انعقاد کیجئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب ابوالحسن ضیاء صاحب!
آپکا مراسلہ پڑھا. پڑھ کر مایوسی ہوئ. ایک تو ویسے ہی ہم پاکستانیوں اور مسلمانوں کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر پوچھتا بھی ھے تو آپ جیسے تنگ نظر ناقدین اس میں رخنہ ضرور ڈالتے ہیں.
مان لیں کہ آپکے تحفظات درست بھی ہیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں :
1) کہ پرانے اور خوصوصا نئے بلاگران بکاؤ ہیں؟؟؟
2) کیا کسی بھی بلاگر کی کانفرنس میں آنے کی ممانعت تھی؟؟؟
3) (اپنے تمام سینئر بلاگران سے معزرت کے ساتھ )سینئر بلاگران نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیوں کیا؟؟؟ اگر تمام سینئر بلاگران آئے ہوتے تو شائد آج آپکا مراسلہ مختلف ہوتا!!!
اگر آپ اتنے سچے ہیں تو آپ نے یہ مراسلہ گمنام کیوں لکھا؟؟؟
یا تو آپ کانفرنس میں موجود تھے یا پھر آپکا کوئی نمائندہ موجود تھا!!! اگر آپ موجود تھے تو آپ نے محترمہ نزہت صاحبہ (ایک پاکستانی نژاد کینیڈین مین اسٹریم میڈیائی) کا مشورہ مانتے ہوئے گمنام رہ کر دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھے اور اگر نمائندے کے کہنےپر اتنے وثوق سے مراسلہ لکھا تو آپکا تجزیہ یقینا 100 فیصد درست نہیں ہو سکتا.
تقریبا ہر شخص یا ادارہ جب کسی کو فائدہ پہنچاتا ہے تو اس میں اسکا بھی مفاد چھپا ہوتا ہے. ہمیں (یعنی تمام بلاگران کو ) win-win situation بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اردو بلاگران کازیادہ سے زیادہ بھلا ہو سکے. جوکہ عین ممکن ہے.
نوٹ: اگر میں نے کسی کی دل آزاری کی ہو تو پیشگی معزرت.
منگو.
منفرد انداز فکر اور سوالات لئے ہوئے ایک دلچسپ تجزیہ ہے۔
جناب چھوڑیں ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا بلاگ آپ کی جاگیر ہے۔ آپ اچھا لکھیں، سچا لکھیں اور کچھ ایسا لکھیں جو ویب پر موجود اردو مواد میں قابل قدر اضافہ ہو۔
اختلافِ رائے ذہنی وسعت کی علامت ہوتی ہے۔۔
کانفرنس کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رُخ پڑھ کے اچھا لگا۔۔
ویسے میرا نہیں خیال کہ کوئی پاکستانی بلاگروں کو(خصوصاؔ اردو بلاگروں کو) خرید فرمانے میں دلچسپی رکھتا ہو۔۔۔ :ڈڈڈ
ارے یار کیا خرید اور بیچ لگا رکھی ہے کسی کا ریٹ بھی لگا ہے کیا؟
ویسے بھاو کیا چل رہا ہے شاید اپنا بھی موڈ بن آوے
بلاگر کی صحیح تعریف کیا ہے؟ کیا جس کے 50 مضمون آن لائن شائع ہو گئے ہوں بلاگر کہلائے گا یا کوئ خاص ٹو پی سر پر ہو تو اردو بلاگر ہو گا۔ برائے مہر بانی کوئی وضا حت کر دے!
چلیے، کسی نے تو ناشتے اور کھانے کے احوال سے آگے بڑھ کر کچھ “پتے” کی باتیں لکھنے کا حوصلہ کیا۔ میرے خیال میں جب کسی کام کی شروعات کی جاتی ہے تو توقعات ضرورت سے زیادہ اور نتائج کم نکلتے ہیں۔ مجموعی طور پر اس کانفرنس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ باقی باتیں اپنی جگہ لیکن حسن معراج صاحب کا “ایسنٹ” اور الفاظ کا چناؤ ہی بتا رہا ہے کہ وہ کتنے بڑے اردو بلاگر ہیں۔ انہیں جن صاحبان نے مدعو کیا ان تک اردو بلاگز ایگریگیٹرز کا ربط پہنچانا چاہیے کہ جناب اور بھی کھڑے ہیں راہوں میں!
@یاسر عمران مرزا: آپ کے تبصرے کا بہت شکریہ۔
@جواد احمد خان: آپ کے تبصرے کا آخری جملہ تھوڑا کنفوزنگ ہے 🙂
@محمد سلیم: آپ کی تشریف آوری اور تبصرے کے لیے شکریہ۔
@خرم ابن شبیر: غلطی کی نشاندہی پر آپ کے ممنون ہیں۔ درستگی کردی گئی ہے۔ پسندیدگی کے لیے شکریہ۔
@کاشف نصیر: حضرت ہم نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ کسی کو خریدا گیا ہے۔ ہم نے خود کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے بلکہ خود
بھی فیصلے کے دن کے منتظر ہے۔
@نور پامیری: بہت عقل مند ہیں آپ۔ بلاگ کو رونق بخشنے پر آپ کا شکریہ۔
@یاسر خواہ مخواہ جاپانی: میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں۔
@عمار ابن ضیا: حضرت آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔ لوگ بعض اوقات اپنے بارے میں خوش گمانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر سیاسی قادری صاحب ہوں کہ بلاگی۔ انکے یچھے فخر و انسبات کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔۔۔ امریکی سفیر کے ساتھ ملاقاتوں کی تفصیل
ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کوئی میدان مارلیا ہو۔ 🙂
@شعیب صفدر: گواچی مج؟؟؟
آپ نے شاید بلاگ بند آنکھوں سے پڑھا ہے۔ مضمون سے اس اقتباس پر غور فرمائیے:
“ایک چیز وہ نہیں سمجھتے اور وہ یہ ہے کہ اردو بلاگرز بلعموم کوئی بچے نہیں کہ پانی کو “مم” اور چڑیا کو “چو چو” کہیں”
ساتھ ہی آڈیو کلپ سے آپ کو کیا مسئلہ ہے، مجھے نہیں معلوم۔ اگر آپ کو یہ کانسپریسی تھیوری لگتی ہے تو ایسے ہی صحیح۔
@حکیم خالد: آپ کے تبصرے کا شکریہ۔ آپ نے اپنی پوسٹ میں اچھے نکات اٹھائے اور تجاویز دیں ہیں۔
@منگو: حضور میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتا۔ ہر شخص اپنے فیصلے میں آزاد ہے۔ میں نے تو بس کانفرنس کے بارے میں اپنا تجزیہ
پیش کیا ہے۔ اسے ماننا نہ ماننا آپ کا حق ہے۔
@مانی: پسندیدگی کا شکریہ۔
@غلام عباس مرزا: جی بالکل آپکا مشورہ صائب ہے۔ 🙂
@فضل دین: آپ کے تبصرے کا شکریہ۔ ضروری نہیں کہ خریدا جائے۔ نوازنے سے بھی کام چل سکتا ہے۔ 😉
@عبدالقدوس: ارے یار اس پوسٹ میں کہاں خرید و فروخت یا ریٹ کا ذکر ہے؟ آپ ایسے ہی دل کی بات زبان پر لے آئے۔
@فرحت طاہر: مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو بلاگر کی تعریف کی ضرورت کیوں پڑی۔
@محمد اسد: جناب میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔
ہاہاہا۔۔۔ جناب کے دل کو اب تک اُس سمٹ سے محروم ہونے کا افسوس ہے؟ 🙂
اب تک کا تو نہیں پتہ لیکن آپ کی روداد پڑھ کر افسوس ضرور ہے کہ اگر ہم ہوتے تو جیسے سوشل میڈیا کانفرنس کے بعد ابوشامل اور کاشف نصیر صاحب نے بغیر کسی لگی لپٹی رکحنے کے سب کچھ صاف صاف کہہ دیا، ہم بھی کچھ ایسا ہی کر گذرتے۔ بس اسی کا افسوس ہے۔ 😉
اردو بلاگرز کانفرنس سے متعلق تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کرنے کا شکریہ، ویسے یہ حسن معراج صاحب کون ہیں، کبھی نام نہیں سنا۔
آہستہ آہستہ سب پتہ لگ جائے گا کہ کون صحیح تھا اور کون غلط.
لیکن مجھے اس پوسٹ سے احمد فراز بہت یاد آ رہے ہیں کہ جنہوں نے کہا تھا کہ
اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون
دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے
جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون
زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون
ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون
ایک نئے انداز سے تجزیہ۔
آپکے خیالات جان کر اچھا لگا۔عموما نئے کام کے شروع میں ایسے ہی مثبت اور منفی پہلو پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر فیصلہ مستقبل کے حالات کا آکر معلوم ہتا ہے۔
آپ کی تحریر سے کم از کم اس سمت سوچھنے کا بھی موقع ملا۔
@ محمد بلال اعظم : آپ کی تشریف آوری اور تبصرے کے لیے شکریہ۔
@ درویش خرسانی : پسندیدگی کے لیے شکریہ۔
اس کانفرنس سے کم از کم یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے بلاگ پر شائع کرنے کو اب بھی پاکستان میں خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ میں تنقید نگاروں کا سب سے زیادہ مشکور ہوں جو اب تک تنقید ہی کرتے رہے اور عملی طور پر کبھی کچھ نہ کیا۔ اب امید کرتا ہوں کہ وہ جلدی جلدی اگلی کانفرنس کا اعلان کر ڈالیں ۔ ان کی دعوت کا انتظار رہے گا۔ جمہوری ملکوں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے بلاگستان کا علم نہیں۔
ویسے پاکستان میں ہزاروں اردو بلاگرز ایسے ہیں جو پیسے بھی کما رہے ہیں اور خود کو علامہ بلاگر بھی نہیں کہلواتے۔ ایک کہاوت ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ دل جلے ۔۔۔۔۔۔
محمد حسن معراج بلا شبہ اردو بلاگنگ کا بڑا نام ہے۔ ہم اپنے بلاگ کے علاوہ کسی اور کا بلاگ پڑھیں تو ہمیں علم ہو نا کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے۔
امید ہے آپ ہماری اگلی دعوت پر وادئ سوات آئیں گے۔
@ محسن عباس صاحب : بہتر ہوتا کہ آپ ہمارے بلاگ میں اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے اور جہاں جہاں وضاحت کی ضرورت ہے وہاں وضاحت پیش کرتے، بہرحال تحریر پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا شکریہ۔۔