اِمامہ بی بی کے ہاں خداکی طرف سے نعمت، اولاد کی صورت میں آنے والی تھی۔لیکن ان کو خوشی سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ ان کے شوہر ایک سرکاری ملازم ہیں اور لامحالہ ان کی تنخواہ میں کوئی ایک پیسہ ایسا ضرور ہوگاجس میں حرام کی آمیزش ہو۔ شوہر بہت نیک اور خدا صفت انسان پھر بھی امامہ بی بی قائل نہ ہوئیں، انہوں نے اپناکچھ زیور بیچا جو کہ بہت پہلے اس تنخواہ کے علاوہ کے پیسوں سے لیا گیا تھا۔ ایک بکری خریدی گئی اور نو مولود کی خوراک کا بندوبست ہوگیا، قدرت کو بھی رشک آیا اور امامہ بی بی کے شوہر کی سرکاری ملازمت ختم ہوئی اور سلسلہ روزگار مطمئن کن زرائع سے بحال ہوا ۔دنیا اس نومولود کو علامہ محمد اقبالؒ کے نام سے جانتی ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبدالقادر شاہ جیلانیؒ کے والدین کے لئے بھی مشہور ہے، تاریخ نے جن لوگوں کو امر کرنا ہوانہیں اسی طرح کی عورتوں کی گود میںپرورش کرواتی ہے تاکہ وہ انہیںوہ اپنے ڈگرپر چلا سکے ۔
سورۃنساء میں ارشاد ہوتا ہے ’۔اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے تقوی اختیار کرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اسی نفس سے اسکی بیوی کو پیدا کیااور ان دونوں سے بہت سے مردوںاور عورتوں کوپھیلایا ۔ اللہ سے تقوی اختیار کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواور قرابت داروںکی حق تلفی سے بچو یقیناٌاللہ تم پر نگران ہے ۔ ٗ(النساء :۱)
اس آیت میں اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ عورت کی ذات کو کم تر سمجھنا،جنس اورذات کے لحاظ سے اسے حقیر جاننا غلط ہے۔مرد اور عورت کی جنس ایک ہے اور دونوں مل کر انسانیت کا اصل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق اور اسکے کردار کے بارے میں بحث سے بعض اوقات غلط نتائج اخذ کر لئے جاتے ہیں۔بعض این جی اوزیاخواتین کی بعض تنظیموں کیطرف سے اگر عورت کی حالتِ زار یا اسکے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا جاتا ہے یا اس کی حالت کو بہتر بنانے کا مطالبہ سامنے آتا ہے تو اسے مغربیت سے منسوب کردیا جاتا ہے۔اس میں بڑی حد تک صداقت بھی ہوتی ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ عورت یا صنفِ نازک انسانی معاشرے کا وہ حصہ ہے جو عموماٌ تعصب اور ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی اور ترقی پذیر ممالک میں بھی عورت پر کسی نہ کسی طرح سے ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ عورت پر ظلم کسی ایک دائرے میں نہیں ہوتا۔اقتصادی دائرے میں،سیاسی،قانونی اور معاشرتی دائرے کے علاوہ عورت پر اخلاقی سطح پر بھی ظلم ہوتا ہے۔دنیا بھر میں اور یقینا ہمارے معاشرے میں بھی عورت کو صرف فساد پیدا کرنے اور گنہگار بلکہ گناہ پر ابھارنے والی شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہی وہ عورت ہے جو پہلے بیٹی پھر بہن ،بیوی اور ماں بن کر محبت بانٹتی پھرتی ہے۔ اسکے حسن سے کائنات کے ہر رشتے میں رنگ بکھرتے ہیں۔روئے زمین پر خالقِ کائنات کے لئے جتنے لفظ مروج ہیں، لفظ محبت ان الفاظ کی بہ نسبت دنیا میں سب سے ذیادہ ادا کیا جاتا ہے،یہ لفظ محبت اللہ کے بعد ماں سے شروع ہوتا ہے۔اور بانو قدسیہ نے کیا خوب کہا کہ عورت کو زندگی میں ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ کب تک عورت رہے گی اور کب ماں بنے گی۔بانو قدسیہ نے یقینا یہ الفاظ اپنی عمر کے آخری یا کم ازکم تیسرے ـحصہ میں کہی ہے جب انسان پر دنیا کی حقیقت کھلنا شروع ہوتی ہے۔
یقینا جب عورت یہ فیصلہ کرتی ہے لہ وہ عورت رہے گی تو پھر بڑی مشکل پڑتی ہے۔ساٹھ برس کی عورت کو بھی شیفون کی ساڑھیوں پر کام کرانا پڑتا ہے،ڈائٹنگ کرنی پڑتی ہے،بیوٹی پارلرز کے دھکے کھانے پڑتے ہیں، جیولری کی دکان پر ابھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں پر انگوٹھیاں فِٹ کرنی پڑتی ہیں اور جب سارا گہنا سجا کر آئینہ کے سامنے جاتی ہے، شک ہی شک اور وہم ہی وہم کہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔یہ بھی کیا محتاجی کی زندگی ہے ،ہمیشہ ہاتھ میںپیالہ اور محبت کی خیرات جمع کرنا۔ کچھ ایک اور فیصلہ کرتی ہیں ،وہ اندر ہی اندر عورت سے گذر کر ماں بن جاتی ہیں۔ پھر ان کے پیالے میں سے ہر انسان کے لئے کچھ نہ کچھ نکلتا ہے۔وہ مانگنے والے مقام سے نکل کر دینے والے مقام پر پہنچ جاتی ہیں۔کچھ عورتیں بھری جوانی میں یہ فیصلہ کر لیتی ہیں۔ماں بڑی آزاد زندگی بسر کرتی ہے۔قریب قریب بہن اور بیوی بھی یہی کرتی ہیں۔عورت اپنے اندر تمام تر اچھائیاں ہونے کے بعد ایک عمل ایسا کرتی ہے کہ مرد کے دل کے گِرد کھڑے بت مرد کو عورت سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عورت شہد کی مکھی کی طرح اپنے شہد کو کسی کو لینے نہیں دیتی اور کوئی یہ کوشش کر بھی لے تو اسے ایک ڈنک ضرور مارتی ہے۔اگر قربانی عورت کا مترادف ہے تو شراکت متضاد ہے۔ماں اپنے بیٹے کو،بہن بھائی کو،بیوی اپنے شوہر کو آپس میں بھی شریک ہونے نہیں دیتی۔ہر ایک کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ میرا ہی رہے لیکن قدرت کو یہ منظور نہیںہوتا۔مرد ایک وقت میں یا تو اچھا بیٹا ہوگا،اچھا بھائی ہوگا یا اچھا اور مکمل شوہر ، پھر بھر استغنا موجود ہے۔
عورت پانی ہے اور مرد برتن۔پانی کو جس برتن میں ڈالا جائے وہ ویسی ہی صورت اور حجم اختیار کر ے گا۔مرد کی تعریف اس سے بہتر الفاظ میں نہیں کی جا سکتی ہے ، اب وہ عورت کو کلوپترا سمجھے،مدر ٹریسا بنائے ،راجہ گدھ کی سیما،من و سلویٰ کی زینی یا فساد کی جڑلیکن مرد کے دل کے چاروں طرف کھڑے ہوئے انا،غیرفطری اور ظاہری غیرت، وقتی محبت اور احساسِ برتری کے بت اسے برتن نہیں بننے دیتے، پانی بہتا رہتا ہے اور وہ ضیاع کا الزام بھی لگاتا رہتا ہے۔
مشرق ہو یا قرونِ اولیٰ ہو یا دورِجدید ،عورت چلتی بندوق کے دہانے پر رہی۔رعب،دبدبے،قبائلی روایات،خاندان کی ناک اور جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھتی رہی پھر اسلام نے حقوق دیئے ،شعور دیا، عزت دی،برابری دی تو باطل کا وہ باب بند ہوگیا جو اسے اپنی جبلی تسلط کے ذریعے کھولا ہوا تھا۔
پھر اس نے آزادیٔ نسواں کا نعرا لگایا اور ۴۰۰ سال بعد وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا جو آج Feminismکہلاتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ـحقِ رائے دیہی کے لئے تحریک شروع کی گئی جیسےWomen Suffrage Movementکہتے ہیں۔سن ۱۸۹۳، ۱۸۹۵، ۱۹۱۹، ۱۹۲۸، ۱۹۴۸ میں بلترتیب نیوزیلینڈ،آسٹریلیا،آسٹریا،برطانیہ اور بلجیئم میں عورت کوووٹ کا حق دیا گیاجو اسلام نے ۱۳۰۰ برس قبل ہی دے دیا تھا۔۱۹۲۶ میں عالمی مقابلۂ حسن (Pageant of Pulchritude)کا انعقاد کیا گیا۔
۱۹۶۰ میں یہ تمام تحریکیںWomen’s Liberation Movement بن گئی اور ابWLM،ایلن شو والٹر اورہیلن سائنکس کی تھیوری ، رِٹ گِرل کی Punk Movement ہو یا Lipstick Feminism(Separatist Feminism) ہو عورت سڑکوں، کانفرنسوں،کالموں اور ٹاک شوز میں اپنے حقوق کے لئے دھاڑتی،ضد کرتی اور لڑتی نظر آتی ہے۔محبت ، صبر اور قربانی کی اس دیوی کے لئے آزادی، حقوق اور ایوانوں میں جگہ جیسے الفاظ رہ گئے ہیں، عزت کاچڑھاوا تو کسی نے چڑھایا ہی نہیں اور شاید جب ہی یہ دیوی صدیوں سے اضطراب کا شکار ہے۔
عورت کو سب ملا، ڈگری،نوکری،سیاست میں حصہ اور نوبل انعام، لیکن جو نہ ملا وہ اس مردانہ معاشرے میں عزت نہ ملی،قدر کی نگاہ اور محبت کے جذبات نہ ملے۔الزام،طعنہ،طنز سب کچھ عطا کیا گیا سوائے اسکے جو اسے دینا چاہئے ، یعنی عزت۔
عزت صدا کی طرح سرِدار دی گئی
پھندا گلے میں ڈال کے دستار دی گئی
اسلام نے عورت کو کاروبار اور پیشہ و عمل کی آزادی دی، اسکے لئے تجارت،زراعت،لین دین،صنعت، ملازمت ، درس وتدریس ، صحافت سب ہی کاموں کی اجازت ہے ، اسکے لئے وہ گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔البتہ اس پر وہ بعض پابندیاں عاید کر دیتا ہے۔ ان پابندیوں کے دو مقاصد ہیں، ایک اسکے استحکام میں فرق نہ آئے،دوسرے یہ کہ عورت باعفت زندگی گذارے اور ایسے حالات میں اسے نہ ڈالا جائے کہ اسکے لئے اخلاقی حدود میں قائم رہنا دشوار ہو جائے۔ دینِ اسلام نے عورت کو ہر روپ ،ڈھنگ اور حالات میں فرشِ ذلت سے عرشِ عظمت پر پہنچایا۔اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا جس شخص کی بیٹی ہوئی اور اس نے اسکو زندہ دفن کیا نہ اسے بے وقعت سمجھا نہ اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ اسکو جنت میں داخل فرمائے گا۔ انسان کو ہلاک کر دینے والے سات کبیرہ گناہوں میں عورت پر الزام لگانا بھی ایک گناہ ہے اور اسلام میں اسکی سزا ۸۰ کوڑے نافذ کی گئی ہے۔عورت کی امامت اور مردوں کے ساتھ نماز کی ممانعت دراصل عورت کی تعظیم ہے کہ اسکے خدوخال مردوں کے لئے نمائش نہ بن جائیں۔
لیکن!دوسری طرف مغرب میں اور ہمارے معاشرے میں راسپوٹن جیسے لوگ عورت کی تذلیل کروانے میں جدوجہد تیز کئے ہوئے ہیں۔امریکہ میں آج بھی ۴۰ فی صد نومولود غیر شادی شدہ جوڑوں کی اولاد ہوتے ہیں۔انگلینڈ،نیویارک،ڈیمارک،آسٹریا، چیک رپبلک میںپچاس فی صد First born baby، extramaritalہوتے ہیں۔ Paul Nurse, Steve Jobs اور Queen Elizabethبھی کچھ اسطرح کے بچے تھے۔
اسلام نے اپنے قوانین کے ذریعے عورت کو عزت کا مقام اور بلند معاشرتی مرتبہ عطا کردکیا ہے۔اسے زندہ رہنے کا حق،وراثت اور مہر کا حق،اپنے مال کو تجارت میں لگانے کا حق،اعلیٰ تعلیم اور اچھی تربیت کا حق اور ملکی معاملات میں مشاورت کا حق اور بہت ہے حقوق دیئے ہیں۔اسکے مقابلے میں آزادی اور ترقی کے خوشنما نعروں کی آڑ میں قوانین اور اعلیٰ قدروں کی بیخ کنی اور خاندانی نظام کی تباہی جیسے مقاصد کے حصول کے لئے عورت کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے وابستہ تمام لوگ باالخصوص خواتین اور طالبات درپیش چیلینج کا صحیح ادراک کرتے ہوئے میدانِ عمل میں آئیں ورنہ پیشہ ور اور درباری،لبرل فاشٹ (Liberal Fascit)اور روشن خیال نازی (Enlightened Nazis) انہیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔
یہ اسے عورت ہی پکاریں گے اور بات پھر وہیں جائے گی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
فیس بک تبصرے