کیا احساس ہے باقی؟

اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے، کہنے کو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی ہے لیکن ایک نہیں کئی پیغام چیخ چیخ کر سنا رہا ہے یہ ملک پاکستان کے غریب اور مفلس کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ساتھ ہی ان سیاسی لیڈروں، چوروں اور لٹیروں، جاگیرداروں اور وڈیروں، گیلانیوں اور زرداریوں، حاجیوںاورشریفوں ، بھتہ خور دہشت گرد فطرانہ خوروں، لبرلز اور روشن خیالوں کا منہ چڑا رہی ہے جو ایک عرصے سے ملک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں لیکن صرف اس ملک سے اپنی تجوریاں بھر سکے یا معاشرے میں اتنی بڑی تفریق دے سکے ہیں۔

 

جماعت اسلامی جس اسلامی انقلاب کا نعرہ لگاتی ہے فلاحی اسلامی ریاست کی بات کرتی ہے وہ محض سیاسی اور انتخابی نعرہ نہیں،جو ہم بنانا چاہ رہے ہیںاس ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں اس نعرے اور ریاست کا مطلب ہے کہ یہ بچہ کسی موٹر سائیکل مکینک کی دکان پر بطور ” چھوٹا” بھرتی نہ ہو جائے، یہ گلی اور کوچے میں ” لوہا ویچ، پرانی جتیاں ویچ” کی آوازیں لگانا شروع نہ کر دے ، کسی بھٹے پر اینٹیں لادنے والا نہ بن جائے یا کسی گھر کی مالکن کے آگے ” جی میم جی” کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو جائے – اسلامی انقلاب ایک انگوری پھولوں کی بیل ہے جو معاشرے کے ایسے ہی ہزارہا لوگوں کے دکھ چھپا لینا چاہتی ہے۔

 

اسلامی انقلاب کسی جنونی کا نعرہ نہیں کسی بہکاوئے کا سبز باغ نہیں کسی لالچ اور دھوکے کا نام نہیں یہ خوشحالی اور روشن مستقبل کے پانی کی لہریں ہیں جو خطہ پاکستان کے پسے ہوئے لوگوں کونہ صرفسیراب کرنا چاہتی ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر یہ کام بغیر کسی حکومتی اختیار کے کر رہی ہیں بھلے تم نہیں واقف؟ ہم ہی ہیں جنہوں نے یتیموں کو “آغوش” فراہم کی ہے ہم ہی ہیں جو غریبوں کا مداوا کرتے ہیں، باغ اور کشمیر کے پہاڑگواہ ہیں کہ ہم نے زلزلہ کے بعد ان میں زندگی کی امید پیدا کی ، ہم ہی ہیں جنہوں نے سیلاب سے اچھالے ہوۓ لوگوں کو تھاما، ہم ہی ہیں جو غزالی ، آفاق اور بیٹھک سکول سے غریب بچوں کواٹھا کر جی سی اور ایچی سن کالج کے طلبہ کے مد مقابل کھڑا کر رہے ہیں ہم ہی ہیں جو الخدمت کے روپ میں اس قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، شادی بیاہ یا یتیموں کی سرپرست یا طالب علموں کی کفالت ہم ہی ہیں جو بے سہاروں کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔

 

محدود وسائل کے اندر، محدود اختیارات کے اندر اسلامی انقلاب اپنے اثرات دکھا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس قوم کے دکھوں کا مداوا میرے پاس ہے، اس قوم کے زخموں کا پھاہا میرے پاس ہے اس قوم کی جائے سکوں میرے انگن میں ہے لیکن وائے افسوس یہاں بیمار اپنے مسیحا کو نہیں پہچانتا اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے چلیں کہ سوچوں کو بدل ڈالیں”سب چور ہیں ” کو دماغ سے نکال دیں کیوں کہ اللہ کی زمین کبھی بھی نیک اور صالح لوگوں سے بانجھ نہیں رہی ، ہر دور میں موسیٰ اور فرعون موجود رہے ہیں بس ہماری آنکھیں ہیں کہ دیکھ نہیں پاتی ورنہ مکہ کا وہ عظیم شخص جس پر میرے اور آپ کے ماں باپ قربان، امانت اور سچائی میں پورے عرب میں مشہور و ممتاز، اپنے پیروکاروں کی گنتی ایک دو سے شروع نہ کرتا- آج جماعت اسلامی آپ کو آواز دیتی ہے ان غریب اور لاچار مفلسوں کی خاطر، عدل و انصاف کے لیے عدالتوں میں خاک چھانتے کسان ہاریوں کی خاطر، ہاتھ میں ڈگری کی صورت اک کاغذ پکڑے نوجوان کے روزگار کی خاطر، کاروبار کے بیٹھ جانے پر گرتے آنسوؤں کی خاطر آؤ اک فلاحی جمہوری پاکستان کی طرف کیوں کہ روشن مستقبل ہم ہی ہیں۔

فیس بک تبصرے

کیا احساس ہے باقی؟“ ایک تبصرہ

  1. بہت ہی زبر دست اور بر وقت بلاگ ہے۔ جماعت اسلامی کی تعلیمی پالیسی ایسے کروروں بچوں کو بہترین زندگی دے سکے گی ان شائ اللہ جو ہر حکومت میں اپنے حق سے محروم رہے۔

Leave a Reply