ابھی نہیں تو کبھی نہیں

لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر میرے اطراف میں پھیلے ہوئے کالم ،اخبارات میں اب تک آتی سر خیاں ،میڈیا پر ہر ایک کے منہ سے نکلتی دکھ بھری حقیقتیں جو یقینا تاریغ میں سنہری حرفوں سے لکھی جائیں گی مجھے پھر اسی طرف لے آتی ہیں اور میں حیران پریشان سی اپنے ذہن میں اٹھنے والے ان گنت سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ناکام کوشش میں لگ جاتی ہوں کہ جب یہاں ہر ایک اس حقیقت سے واقف ہے کہ کون مخلص ہے , کون محب وطن ہے , کون ہے وہ جن کی زندگیاں ہر الزام سے پاک ہر اک کے سامنے شفاف آئینوں کی طرح چمکتی ہوئی ہیں مخالف بھی جن کی زندگیوں پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتے۔

 

اسکا ایک منہ بولتا ثبوت جس کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا جس نے مجھے بھی حیران کردیا کہ وہ ذاکر صاحب ہوں پروفیسر غفور صاحب  یا قاضی بابا انکے لیے دائیں بازو والوں نے تو جو کچھ لکھا سو لکھا  مگر یہاں تو بائیں بازو والے بھِی ان باکردار لوگوں کی جدوجہد اور مخلصی کی ان گنت داستانیں سناتے نظر آتے ہیں اور بہت سی ایسی بھی سچائیا ں جس سے میرے جیسے بہت سے لوگ اب تک ناواقف تھے انہیں منظر عام پر لانے والا انہی کا قلم  تھا۔۔۔

 

میں خود کو سوچوں کے ایسے بھنور میں محسوس کر رہی تھی جس نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی کہ جب ہر اک اتنا باخبر ہے اتنا قدر دان ہے تو پھر بے خبر اور ناقدرا کون؟؟

 

کون ہے جس نے اس قوم کے نصیب کی ڈوریاں پاکیزہ اور بے داغ لوگوں کے بجائے چوروں اور لٹیروں ملک کے غداروں اور دشمن کے ایجنٹوں کے حوالے کردیں ؟   اور آج عالم ہوا ہے کہ

جینا تو مشکل ہے ہی
مرنا بھی نہیں آساں

جوقومیں غفلت کی نیندیں سو جایا کرتیں ہیں تو پھر انکی تقدیروں میں وہی کچھ  لکھ دیا جاتا ہے جو آج نہ چا ہتے ہوتے بھی ہما ری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔

 

اک سوال تھا جو رہ رہ کر ستا رہا تھا کہ کیوں ہم ان لوگوں کی قربانیوں کو اک جہد مسلسل کو پہچاننے سے عاری ہیں وہ صحراوں میں کنویں کھودتے ذاکر صاحب پروفیسر غفور احمد اور قاضی بابا کی شکل میں ہوں یا سید منور حسن سے لیکر سراج الحق تک ہوں جنھوں نے وزارت کو بھی قوم کی امانت کی طرح سمجھا اور یہ ثابت کردیا کہ امانتوں کے اصل حقدار کون ہیں ،یا لاکھوں لوگوں کی {سیلاب زدگان ہوں یا زلزلہ زدگان } ہر جگہ اور ہر وقت امداد کے لیے تیار والے نعمت اللہ جن کی عمر اسّی سال سے اوپر ہے ہاتھ میں لاٹھی تو آگئی مگر خدمت خلق کے جذبوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ان سب کی خدمات کو ایک بلاگ میں رقم بند کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ انکی خدمتوں اور کارناموں پر تو کئی کتابیں لکھی جاسکتیں ہیں۔

 

مگر جواب بہت افسوس ناک تھا کہ اس قوم سے زیادہ بد نصیب اور کون ہوگا  جسکا یہ حال ہوچکا ہو کہ جس کے باکردار اور دیانتدار لوگوں کو مرنے کے بعد ہی پہچانا جائے اور دنیا سے رخصت ہونے پر انکی مخلصی کے قصیدے لکھے اور پڑھے جائیں۔

 

اور اس قوم میں جو جتنا بدتر ہو وہ اتنا ہی اونچے عہدے پر فائز ہو  اور جو جتنا بڑا مداری ہو وہ میڈیا میں اتنی زیادہ جگہ پائے اور لوگوں پر مسلط کر دیا جاۓ گا چاہے  وہ  اپنے مداری پن میں اس حد تک چلا جا یے کہ اپنی غداریوں پر پردہ  ڈالنے کی ناکام کو شش میں قوم کی تقدیر بدلنے , اک پہچان دینے والے بانی اور عظیم قائد پر ڈرون حملوں کے نام سے بدترین الزامات کی بوچھاڑ کردے اور پوری قوم کی برداشت کا امتحاں لے اورافسوس اس بات پر کہ ہمارے بکاؤ میڈیا کی کیا مجال  کہ  وہ یہ سب دکھانے سے انکار کر سکے کہ یہ کسی ایسی پارٹی کا پروگروم تو نہیں تھا جسے آن ائیر جانے سے درمیان ہی میں روک دیا گیا ۔۔۔۔۔۔  بڑ ے آقاؤں کی ناراضگی کا خطر ہ کیسے مول لیا  جا سکتا ہے  …..  بابا ئے قوم کی روح اگر تڑپتی ہی تو تڑپتی رہے۔۔۔

 

یہ سب سن کر اور دیکھ کر جہاں دل دکھی تھا وہیں ایک آلاو بھی تھا جو اندر ہی اندر پک رہا تھا اور اس میں  کچھ کمی اس وقت آ ئی اور شکر ادا کیا کہ چلو صحافی برادری میں سے کسی نے تو اس حملے کا  پھر پور جواب دیا تھا اور قائد پر الزام لگانے والوں کو کھلا چیلنج تو دیا بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ دیوانگی ہے مگر میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ اگر یہ دیوانگی  ہے تو بھی۔۔۔ خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی ۔۔۔۔

 

میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہ قوم اب بھی نہیں جاگے گی تو پھر شائد کبھی جاگنے کی مہلت بھی نہ پاسکے کہ اب تو ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کل تک جو کینیڈا اور لندن سے چلنے والے انقلاب  کے دعوے دار جنھوں نے پوری قوم کو نفسیاتی طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا پورے کراچی میں جگہ جگہ  کیمپس لگا کر عورتوں سے زیور اور راہ چلتی گاڑیوں کو روک روک کر انقلاب کے نام پر بھتہ وصول کرنے والے آج صبح بھی جنگ اخبار پر جلی حروف سے لکھی گئی وہ شہہ سرخی میرے سامنے موجود ہے جسمیں یہ اعلان کیا گیا کہ” حکومت گورنر سندھ کو ہٹانا چاہے تو ہٹا دے مگر لانگ مارچ میں ہر قیمت پر شریک ہونگے ” مگر یہ کیا چند ہی گھنٹوں بعد یہ خبر کہ ہم لانگ مارچ میں حصہ نہیں لے رہے پہلی خبر کا منہ چڑاتی نظر آئی ۔۔۔۔ کیا یہ اس قوم کے ساتھ بھیانک مذاق نہیں؟؟؟

 

مگر جب تک یہ قوم اپنے ساتھ یہ مذاق کروانے کے لیے خود کو طشتری میں رکھ کر پیش کرتی رہےگی اسکے ساتھ ماضی میں بھی یہی سب دہرایا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا {اور اسکا خمیازہ اور کفارہ آنے والی نسلوں تک کو دینا پڑے گا } جب تک لوگ دیانت دار لوگوں کو مرنے سے پہلے نہیں پہچانیں گے اور بعد میں صرف انکے گن گانے ، داستانیں سنانےکے بجائے انکی زندگیوں میں انکو اپنا امام بنانے کے لیے خود میدان میں نہیں نکلیں گے تب تک انکے نصیبوں میں ایسے مداریوں کے تماشے “جنکی ڈگڈگی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے ” اور جیل سے فارغ ہوکر ایوان صدر کا رخ کرنے والے ہی لکھے جائیں گے کہ فیصلہ کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔۔۔

 

بس یاد رکھیے گا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں!!!

فیس بک تبصرے

ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ پر 3 تبصرے

  1. السلام علیکم . جس قوم نے سید ابو الاعلی مودودی (رح) جیسے مجدد ، ڈاکٹر نذیر احمد شہید (رح) جیسے مواحد ، خرم مراد( رح) جیسے دانشور ، پروفیسر غفور احمد (رح ) جیسے زیرک سیاستداں اور قاضی حسین احمد(رح) جیسے مجاہد اسلام پیدا کیے ہوں . اس سے مجھے بہتری کی بہت سی امیدیں نظر آتی ہیں .
    گردش ایّام که لیجئے . کھرا اور کھوٹا الگ ہونا مقصود ہے اتمام حجت کے لئے شاید ..!
    بقول پروفیسر عنایت علی صاحب – شمع بجھتی ہے تو ، عنوان سحر بنتی ہے .

  2. Very nice topic and blog . I am pretty sure that these puppets supported by foreign powers will definitely try to destroy our country by long marches and closure of the businesses . Where our economy is already at the brink of desolusion and no foreign investors coming in we all should work together to discourage these protests and closures to support our poor population.

  3. جو دبا سکو تو صدا دبا دو جو بجھا سکو تو دیا بجھا دو
    صدا دبے گی تو حشر ہو گا دیا بجھے گا تو سحر ہو گی

Leave a Reply