میں جب کبھی مشرقی پاکستان کے بارے میں سوچتی ہوں،میرے دل میں انجانے احساسات جنم لیتے ہیں اور عجیب کرب کی ایک لہر پورے جسم میں سرائیت کر جاتی ہے۔۔۔حالانکہ میں اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جس وقت یہ سانحہ پیش آیا مگر میرا ضمیر یہ پوچھتا ہے کہ کیا محض یہ جواز ہیش کر کے تم بری الذمہ ہو جاوء گی؟؟
اور پھر میری نظر شیلف میں رکھی سلیم منصور کی “البدر” کی جانب اٹھتی ہے جو اشک بار ہے۔۔۔
میں اس سے صرفِ نظر کرتی ہوں تو صدیق سالک کی “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” مجھ سے جواب طلب کرتی ہے۔۔۔
اور ابھی میں اسی میں الجھی ہوئی تھی کہ اچانک طارق اسمٰعیل ساگر کی “لہو کا سفر” و دیگر لا تعداد کتابیں میرے راستے میں دیواربن کر کھڑی ہوگئیں اور مجھ سے پوچھتی ہیں کہ بولو۔۔۔ جواب دو۔۔۔ قصور کس کا تھا؟؟؟ ان لاکھوں بے گناہ معصوم شہداء کا خون کیوں ضائع گیا؟؟؟ ان کا جرم کیا تھا؟؟؟
مگر میں اب ان کو یہ کیسے بتاوں کہ یہ کسی ایک فردِ واحد کا جرم نہیں تھا بلکہ ایک اجتماعی جرم تھا۔۔۔ مگر یہ کیسا نرالا دستور ہے کہ کبھی کبھی قوموں کو اپنی بربادی کا احساس ہی نہیں ہوتا اور وہ خود اپنے جسم و روح کے تعلق کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتی ہیں۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتیں،وقت ان کا فیصلہ کرتا ہے اور تاریخ اسے اپنے سینے پہ رقم کرتی ہے۔قوموں کی زندگیوں میں حادثات و سانحات یک لخت رونما نہیں ہو جاتے،بلکہ ان کے لئیے آہستہ آہستہ زمین ہموار کی جاتی ہے اور ایسے حالات خود جان بوجھ کر “پیدا” کئے جاتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد وہ محبِ وطن پاکستانی جو پاکستان کو ایک مسجد کا مقام دیتے تھے، جنہوں نے غزوہءبدر کی تاریخ دہرائی، جن کیلئے پاکستان حقیقتاْ “سانسوں” کی اہمیت رکھتا تھا، ان ہی محبِ وطن پاکستانیوں کو مشرقی پاکستان کے تعصب میں ڈوبے علیحیدگی پسندوں نے “غدار” کہا اور ہم آج تک انہیں” بہاری” گردانتے ہیں۔۔۔ وہ آج تک اپنی شناخت حاصل نہیں کر سکے اور آج بھی بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں جگہ ہی “اجنبی” ہیں۔۔۔ اور بلا شبہ انکا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سانس لیتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ اردگرد پھول کھلے ہیں یا کانٹے۔۔۔
ویت نام کی جنگ میں لاکھوں امریکی ویت نام میں پھنس گئے تھے مگر کسی امریکی اخبار یا میڈیا نے یہ نہیں لکھا نہ کہا کہ اتنے ہزار افراد نیو یارک کے، اتنے ہزار شکاگو کے پھنسے ہیں بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ اتنے ہزار امریکی پھنس گئے ہیں۔۔۔ اور پھر انکی بحفاظت واپسی ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ انکو ہر طرح کی سہولیات بھی فراہم کیں۔۔۔ جبکہ ہم نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اپنے ہی افراد کو بنگالی و بہاری میں تقسیم کردیا۔۔۔ پہلے پوری امتِ مسلمہ ایک “جسدِواحد” کی حیثیت رکھتی تھی۔ پھر ہم آہستہ آہستہ سمٹنے لگے، اور اب حال یہ ہے کہ ہم جہاں جاتے ہیں “دلوں کے فاصلے” ہمیں “خوش آمدید” کہتے ہیں۔۔۔ اور ہمارا استقبال بلکہ بھرپور استقبال کرتے ہیں۔
آج ہم اس پاکستان میں رہتے ہوئے بھی سندھی، بلوچی، پٹھان اورپنجابی تو ہیں مگر پاکستانی نہیں ہیں۔۔۔ اور پھر مزید تقسیم میں سندھ والے کراچی والے، حیدرآباد والے، مہاجر سندھی ہیں۔۔۔ پنجاب والے لاہور والے،پنڈی والے اور ملتان والے ہیں۔۔۔ اور یہ تقسیم شاید اب صوبوں اورشہروں کے بعد ہمارے ضلعوں، علاقوں اور گلیوں تک آجائے۔۔۔ اور جب ہم تقسیم در تقسیم میں ہی لگے رہیں گے تو “امت”کی فکر تو چھوڑئیے، ہمارے ملک کا حال تو اس سے بھی بدتر ہی ہونا تھا جو آج ہے۔۔۔
مملکتِ خداداد پاکستان۔۔۔ جو اس وقت دشمنانِ دین و ملت کی اندرونی و بیرونی سازشوں کے نرغے میں ہے۔اپنوں ہی کے غلط اقدامات کے نتیجے میں عوام و حکمراں کے درمیان بداعتمادی اور نفرت کی ایک ایسی خلیج حائل ہوگئ ہے جو ہمیں کسی منطقی انجام سے خبردار کر رہا ہے۔
ہم غیروں کی جنگ کو اپنے گھر میں گھسیٹ کر لے آئے۔۔۔ ہمیں یہ خوف تھا کہ کہیں امریکہ ہمارا حال افغانستان جیسا نہ کردے۔۔۔ مگر افسوس صد افسوس۔۔۔ عراق، افغانستان میں جو حال جنگ کے مسلط ہو جانے کے بعد ہے وہ آج پاکستان کے ہر ہر صوبے اور شہر میں جنگ کے بغیر ہے۔آج سکون ندارد۔۔۔ اورہم سب پر ایک خوف اور ڈر مسلط ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ سندھ اور بلوچستان میں ایک اضطرابی کیفیت ہے، قوم پرست و متعصب عناصر اس بد اعتمادی کی خلیج کو مزید بڑھا رہے ہیں۔
ہمارے “پاک فوج کے جوانوں” نے شجاعت و بہادری کا نیا باب رقم کرتے ہوئے قبائلیوں کے لہو سے جس طرح اپنے دامن کو داغدار کیا اس کے وہ نہ صرف افسوسناک بلکہ عبرتناک انجام کی نشاندہی کر رہا ہے۔۔۔ پہلے لوگ اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنا قابلِ فخر سمجھتے تھے، مگر آج ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات نے جنم لیا اوراب لوگ اپنے بچوں کو پاکستان سے باہر بھیجنے میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔
ایسے میں اگر کچھ اصحابِ فہم و بصیرت نے اتحادِملت کی ضرورت پہ زور دیا تو ہمارے “اعتدال پسند،روشن خیال” حکمرانوں نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ بلند کیا اور اس بات پہ زور دیا کہ جب اپنے ہی گھر میں انگارے برس رہے ہوں تو کیا ضرورت ہے کسی اور کا درد اپنے سر لینے کی؟؟؟
موجودہ حالات کے تناظر میں جب میں ۱۹۷۱ءکو یاد کرتی ہوں تو نجانے کیوں میرا دل کہتا ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے ہی ہونگے۔۔۔ آج بھی ہم سب کے تحفظات و ترجیحات بدل گئی ہیں۔۔۔ آج بھی ہر شخص گروہوں، فرقوں، مسلکوں اور علاقوں میں بٹا ہوا ہے۔۔۔آج پھر ہم اپنی بنیاد بھول گئے ہیں۔۔۔ آج پھر انصاف نہیں مل رہا۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آج پھر ہم میں بے حسی اپنے عروج پہ ہے۔۔۔
اور یہی حالات آج کسی اندوہناک طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہے ہیں۔۔۔ سوالوں کا جنگل ایک بار پھر گھنا ہوتا جا رہا ہے، مگر جواب دینے والوں کا کہنا ہے کہ “وسیع تر قومی مفاد “کو تم کیا جانو۔۔۔
فیس بک تبصرے