کیا واقعی امریکی شہری اخلاقیات کی آخری حدوں کو پار کرجانے کے بعد اب وحشت اور بربریت کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں؟ جنگوں میں سفاکی و جارحیت کی توجیع تو پیش کی جاسکتی ہے کہ مقتول ہمارے دشمن تھے یا ہمارے دشمنوں کے بچے۔ ۔ ۔ جنہیں کل کو بالاخر ہمارا دشمن ہی بننا تھا چناچہ “وسیع تر قومی مفاد” میں دشمنوں کی نسل کشی جائز ہے۔ لیکن کنیٹی کٹ کے پرائمری سکول کے بچے غیر تو نہ تھے۔ نہ تو ان بچوں کی جلد سیاہ تھی اور نہ ہی یہ پشتو یا عربی بولتے تھے۔ ان کے مشاغل بھی ایسے نہ تھے جن سے “شدت پسندی” یا “دہشت گردی” کی بو آتی ہو۔ پھر آخر انہیں کس جرم میں قتل کردیا گیا؟ اور قتل بھی اس قدر سفاکی سے۔۔۔
حد تو یہ ہے کہ سکول کے بچوں پر حملہ آور شخص نہ تو پاکستانی ہے نہ مسلمان اور نہ ہی اس نے دہشت گردی کی تربیت وزیرستان سے حاصل کی۔ پھر آخر یہ شخص اتنا ماہر دہشت گرد کیسے بن گیا کہ فقط 10 منٹ میں 30 افراد کو موت کی نیند سلا دی؟ امریکی جو “انسانی حقوق” کے علمبردار اور “انسانیت سے پیار” کرنے والی قوم کے طور پر مشہور ہیں، آخر ان میں یہ گھس بیٹھیا کہاں سے در آیا؟ امریکی تو سات سمندر پار ملالہ کو چھونے والی ان دیکھی گولی پر تڑپ اٹھے تھے، میڈونا سے لے کر انجلینا جولی تک انسانیت کے دوستوں نے کتنے ہی اشک بہائے اور نامراد دہشت گردوں کو کوسنے سنائے لیکن ان ہی کی صفو ں میں بھی ایسا ہی ایک “طالبان” کیسے شامل ہوگیا؟
اس المیہ پر امریکہ کے “عظیم” صدر اوباما نے اپنی قوم کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کا فریضہ بھی بخوبی سر انجام دیا۔ خطاب کے دوران اوباما کی آواز نہ صرف لڑکھڑاہٹ کا شکار تھی بلکہ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ واقعی ایسے اندھوناک واقعے پر ہر “صاحب دل” کو افسردہ ہی ہونا چاہئے لیکن نا جانے کیوں امریکی سکول میں قربانی کی بھینٹ چڑھ جانے والے 20 معصوم بچوں نے مجھے چند ماہ قبل افغانستان کے گائوں میں قتل کئے گئے 16 بچے اور خواتین کی یاد دلا دی جنہیں ایسے ہی ایک جنونی امریکی فوجی نے بغیر کسی جرم کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ رابرٹ بیلز نامی اس قاتل کی سفاکیت پر امریکہ نے اسے کیا “انعام” دیا ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ 16 افراد ہی کیا افغانستان سے وانا اور عراق سےیمن تک روزانہ نہ جانے کتنے افراد ایسے ہی جنونی امریکیوں کی ہوس کی “بلیّ” چڑھ جاتے ہیں۔
کینٹی کٹ کے طالبعلموں کے قتل پر امریکی صدر اور قوم کی اداسی بجا ہے لیکن یہ لہو اسی صورت رنگ لائے گا جب امریکی عوام دنیا بھر میں امریکیوں کے ہاتھوں بہنے والے لہو پر بھی پشیمانی کا اظہار کریں ورنہ مکافات عمل کا یہ نہ رکنے والا سلسہ امریکہ کو لے ڈوبے گا!
فیس بک تبصرے