ٹوٹے پتوں کا دکھ اس کے زرد رنگ میں تو عیاں ہوتا ہی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ پتے اپنی شاخوں سے کرنے کا شوق کیسے رکھتے ہیں؟ جو شاخ ساری زندگی ان کو خوراک دیتی ہے، کونپل نکلنے سے ایک خوبصورت پتا بننے تک اس کی نشوونما جاری رکھتی ہے پھر اچانک کس کی نظر کام کرتی ہے کہ یہ رشتہ سوکھ جاتا ہے۔
میں کوئی اگرانومسٹ نہیں کہ پتوں اور شاخوں کے رشتوں کے احساسات ماپتا پھروں لیکن انٹرنیٹ کی بدولت حقیقت کے قریب تر سوچ پال سکتا ہوں، ہوتا کچھ یوں ہے شاخ اندرونی انتشار اور بیرونی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مطلو بہ مقدار میں خوراک مہیا نہیں کر پاتی اور پتوں کو سہنا پڑتا ہے ، شاخ اور پتے میں اک “بانڈ ” ہوتا ہے جب اور جیسے ہی یہ تعلق کمزور پڑتا ہے پتا نیچے آ گرتا ہے لیکن دنیا میں یہ کم ہی ہو پایا ہے کہ گرا ہوا پتا پھر سے سبز اور خوش حال ہو جائے۔
آج سے اکتالیس سال پیشتر تاریخ کی گھڑیاں گھما کر دیکھیں تو بنگلہ دیش کے خزاں پرستوں نے اپنی شاخ سے احتجاجا استعفیٰ دے دیا اور پھر ہوا وہی جو گرے پتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مغربی پاکستان ( پاکستان ) تو تھا ہی فرعونوں کے ہاتھ لیکن جو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لیے مسیحا اور موسیٰ بن کر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے بنگلہ دیش کو کیا دیا؟ بنگالیوں کی مظلومیت میں تڑپنے والوں نے پٹ سن سے بنگلہ دیش کو کون سا پیرس بنا دیا؟ بنگلہ زبان کی آڑ میں بنگالیوں کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے والوں نے،کیا خود کو ہندی اور انگریزی کے سحر سے بھی بچا پایا؟ آخر کیوں بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے ” غاصب پنجوں ” سے نکالنے والوں نے بھارت کی گنوں اور ٹینکوں کے حصار میں بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی؟
حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ سن اکہتر سے لیکر آج تک اس خطے کے لوگوں کو ایک بڑی تعداد میں فریب میں لا کر بے وقوف بنایا گیا ہے اور شیکسپئر کے بقول معصوم لوگ پرورش زندگی کی خاطر زہر بھی قبول کر جاتے ہیں عوامی لیگ کے بے بنیاد پرو پیگنڈا کی دھول میں غریب بنگالیوں نے اپنے حقوق کے لیے پاکستان سے غداری کردی لیکن “سونار بنگلہ” ایک خواب اور ایک نعرے سے آگے نہ بڑھ سکا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی بنگلہ اور پاکستانی قوم انہی بے بنیاد الزامات پر یقین رکھتی ہے، ایک نفرت کی آگ میں دہکتی ہے تو دوسری احساس جرم سے سر جھکا لیتی ہے دونوں کی ایک ہی رائے ہے کہ “مغربی پاکستان ” نے بنگالیوں کا استحصال کیا ساتھ ہی ساتھ پاکستانی فوج کو حد سے زیادہ مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کیوں کہ یہ لوگ اعتماد رکھتے ہیں کہ شیخ مجیب اور بھارتی میڈیا کے دہانہ منہ سے سچ کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ ان عناصر کے اہم تیر عدم مساوات، معاشی استحصال اور محرومی تھے جس نے نوجوان بنگالیوں میں نفرت کا بیج بودیا عوامی لیگ نے اشیائے خوردونوش اور دیگر سامان کی قیمتوں کا ایک موازانہ کالم بنا کر بنگالیوں میں تقسیم کیا جس میں بے بنیاد اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ اس معاشی عدم مساوات میں حکمران طبقہ تو کسی حد تک مجرم تھا ہی لیکن علاقائی فرق اور معاشی تاریخ کے خدو خال بھی اہم تھے کون نہیں جانتا کہ قیام پاکستان سے پہلے مشرقی بنگال کو ” گندی بستی ” کا نام دیا جاتا تھا اس نام کے رکھنے میں ١٩٤٣ کا وہ قحط بہت اہم تھا جو بنگال کی ایک تہائی آبادی کو ہڑپ کر گیا یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان نے معاشی میدان میں برابری کی سطح سے آغاز نہیں کیا۔ یہ فرق ٧١ تک ختم نہ ہو سکا اور آج بھی قائم ہے پر سقوط ڈھاکہ کا اہم سبب بن گیا وہ پٹ سن کی بو جو اسلام آباد کی سڑکوں سے آتی تھی اس کے لیے، قیام پاکستان سے پہلے بھی گریٹ بنگال کے چالیس کارخانوں میں سے ایک بھی مشرقی پاکستان پرموجود نہیں تھا اس کمزوری کو محرومی بنا کر استحصال کے طورپرپیش کیا گیا۔
سقوط ڈھاکہ کا ایک اہم سبب عوامی لیگ کا یہ فضول مطالبہ بھی تھا کہ بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ اس کی آڑ میں اردو زبان کے خلاف بنگالیوں کو ابھارا گیا حالانکہ تقسیم سے پہلے اردو کو مسلمانوں اور ہندی کو ہندؤں کی زبان ہونے کا درجہ حاصل تھا سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان کا مسلہ کوئی سیاسی ایشوتھا ہی نہیں ورنہ بنگالی بولنے والوں نے ہندی کے خلاف کیوں تحریک نہ اٹھائی؟ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پہلی بار بنگلہ زبان کو دوسری سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کومیلا شہر سے کانگریسی رکن پارلیمنٹ دھیریندر ناتھ دتہ نے کیا۔ اسی طرح دوسرے مسائل کو پیش کیا گیا اور ٧١ انتخابات کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے خانہ جنگی کی ابتدا کر دی، ڈھاکہ کی سڑکوں پربھارتی اسلحہ کے ساتھ پریڈز شروع ہو گئیں، مکتی باہنی کی جنگی تربیت کا آغاز ہوا، شیخ مجیب نے اعلان کردیا کہ وہ پاکستان کے دارالحکومت نہیں جایئں گے۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ بغاوت کے راستے سے علیحدہ ملک قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں اور آج کہا جاتا ہے کہ اس واقعےکا سلسلہ فوج کے بلا اشتعال کریک ڈاؤن سے شروع ہوااس جنگ میں کیا ہوا اور کون کس کا نشانہ بنا اس پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا اور تشنہ طلب بھی ہے۔
پاکستانی فوج نے ٩ ماہ جاری رہنے والی جنگ میں ٣٠ لاکھ بنگالیوں کا قتل کیا شیخ مجیب کو ڈھاکہ کے میدان میں یہ الزام لگاتے ذرا تعمل نہ ہوا کہ وہ کونسی فگر پیش کر رہا ہے لیکن اگلے ہی دن ڈھاکہ سے شا ئع ہونے انگریزی اخبار دی مارننگ سن کے ایڈیٹر انوار الاسلام بوبی، جو اگرچہ بنگلہ دیش کے قیام کے حمایتی تھے کہنے پر مجبور ہوئے کہ اتنی بڑی مارٹیلٹی فگر کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اگلے نو ماہ تک روزانہ گیارہ ہزار بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا۔ ٣٠ لاکھ منہ سے نکال دینے والے یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے کہ ایران اور عراق کی مابین دس سال تک جدید اسلحہ اور ہتھیاروں سے جنگ لڑی گئی لیکن ٣٠ لاکھ ہلاکتیں نہ ہوئیں، دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی مجموعی ہلاکتیں اس فگر کو نہ پہنچ سکیں لیکن کیا پاکستان کی اس خانہ جنگی، جس میں پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی ٹینک استعمال نہ ہوا ، کوئی میزائل نہ گرا، بغیر کسی جنگ کے محض چھڑپوں میں ٣٠ لاکھ لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ بعد میں یہ ١٠ لاکھ تک محدود کی گئی لیکن محض تخمینے کیسے سچ ہو سکتے ہیں ان لوگوں کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ شیخ مجیب کا اس حوالے سےشروع کیے جانے والا سروے کیوں روک دیا گیا؟ یہی حال اک دوسرے الزام کا بھی ہے جس میں کہا جاتا ہے تین لاکھ خواتین کی آبروریزی کی گئی۔
افسوس یہ سب الزامات کل کی عقل پر دھند کی طرح سوار ہوئے تو آج بھی مقدس عقائد گردانے جاتے ہیں اس خطے کی عوام کا مسلہ کل بھی وہی تھا اور آج بھی وہی ہے، دور اندیش، بے حس اور نااہل قیادت! کل کا مشرقی پاکستان ہو یا مغربی پاکستان اسی قیادت نے عوام کو بے وقوف بنایا اور ملک دولخت کردیا آج بلوچستان کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے بنگلہ دیش کے واقعےمیں بلوچوں کے لیے بھی اک پیغام ہے کہ مسائل اور محرومیوں کا حل علیحدگی میں کبھی بھی موجود نہیں ہوتا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نااہل قیادت کو ہٹا کر ایک دیانت دار قیادت کو اقتدار سونپا جائے۔ اسی میں پورے پاکستان کے مسائل کا حل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعصب کا جاہلانہ لبادہ اتار پھینکنا ہو گا اور اسلامی تشخص کو پروان چڑھانا ہو گا کہ پھر کبھی کوئی پتا شاخ سے نہ گر سکے چاہے وقت کی آندھیاں اپنا منہ زور لگا لیں۔
حضرت! علیحدگی کی سوچیں خود بخود نہیں پروان چڑھتیں اس کے لیے بہت ساری نا انصافیوں، جسمانی معاشی اور سماجی قتل عام اور بہت سارا استحصال چاہیے ہوتا ہے جو ایک مخصوص گروہ کو اس طرح دیوار سے لگا دیتا ہے کہ انکی ساری امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔
یہ استحصال، یہ قتل عام اور یہ نا انصافیاں ہماری اشرافیہ کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے کہ ہماری اشرافیہ بدعنوان سیاستدانوں کو اربوں روپے تو دینے کے لیے تیار رہتی ہے مگر عوام پر خرچ کرتے ہوئے اسے موت آتی ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کم سے کم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔ کہ سپریم کورٹ کو حوالات کی دھمکیاں دینی پڑتی ہیں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے پھر بھی یہ لوگ اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بہت خوب. یہ کہنا بظاھر بہت دلکش لگتا ہے کہ ماضی کی تکلیفوں پر رونے کے بجاے مستقبل کی فکر کی جاے. مگر مسلہ یہ ہے کہ جب آپ بات کو چھپاتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اب کوئی اس پر بات نہیں کرے گا، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہوتی ہے. پاکستان سے وابستہ ذمہ داران نے اس پر چپ سادہ لی تو وہ کہانیاں پھیلیں جو اوروں نے پھیلائیں. انہوں نے اپنا مقدمہ تو خوب لڑا، اور جیسے چاہے الزامات بھی عاید کیے، لیکن پاکستان کا مقدمہ لڑنے کوئی نہ آیا بجز جماعت اسلامی کے، اور اس پر بھی اس نے پھبتیاں اور الزامات سہے. پاکستان کے دامن پر لگے ان الزامات کے دھبوں کو دھونا کس کی ذمہ داری ہے؟ ذرا دنیا کے ریکارڈ پر جا کر دیکھیں، اس سانحے کے حوالے سے جو کچھ موجود ہے وہ سب یک طرفہ کہانی نہیں ہے کیا؟. برادر آپ کی تحریر بہت عمدہ ہے، اور وقت کی ضرورت بھی.