کھوتا پیر یا بابا کھمبا پیر

بہت ہی بھیانک منظر تھا میں کچھ لمحوں سے زیادہ نہیں دیکھ پائی اور میرا ہاتھ فورا ہی کی بورڈ کی طرفبڑھا اور میں نے سامنے چلنے والی وڈیو کو اس قدر تیزی سے بند کیا کہ اگر اسے بند نہ کیا تو کہیں میرے ایمان خطرے میں نہ پڑ جاے۔۔۔۔۔۔!!۔

 

یہ شاید ایک سال پہلے یا اس سے بھی کچھ پہلے کا واقعہ ہے جب میں نے ایک دن اپنا میل بکس چیک کیا  توبہت سی میلز کے ساتھ ایک میل ایسی  بھی تھی جس میں ایک ویڈیو کا لنک دیا ہوا تھا اور اوپر جن القابات سے نوازا گیا تھا ان کی وجہ سے میں نے تذبذب کی سی کیفیت میں وہ وڈیو اوپن تو کر لی مگر یہ کیا دیکھا تھا میری نظروں نے ۔۔۔ !!

 

یہ سب توہم نے فرعونوں کی تاریخ میں کہیں پڑھا تھا ایسا منظر تو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

قوالی کے الفاظ کچھ یوں تھے ؛ جس جا نظر آتے ہو سجدے وہیں کرتا ہوں ، ان سے نہیں کچھ مطلب کعبہ ہو یا بت خانہ ۔۔۔ وہ آج کا فرعون تھا جو ایک کرسی پر بیٹھا تھا محفل سماع تھی اور ایک کر کے مرید نامی (پاگل) جانوروں کی طرح چار پیروں پر چلتے ہوے آتے اورآج کے اس فرعون کو سجدہ کرتے {انا للہ وانا الیہ راجعون} اور اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھاتے جب تک وہ ان کے سروں پر تھپکی دے کر یا سینے سے لگا کر یہ پیغام نہ دے دیتا کہ تم کامیاب ہو گئے۔۔۔ میں اللہ پاک کے قہر اور غضب کا تصور کر کے خوف سے لرز گئی کس قدر کھلم کھلا اسکی خدائی کو چلینج کیا جارہا تھا۔ یہ تکبر یہ غرور اور یہ مقام تو بس اسی کے لیے خالص ہے کسی انسان کی کیا اوقات کہ وہ اس مقام پر آنے کی جسارت کرے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’عزت میری اِزار (تہہ بند) ہے اور تکبر میری (اوڑھنے کی) چادر ہے جس شخص نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینا میں اسے سخت سزا دوں گا‘‘۔ (رواہ مسلم)۔

(جس طرح کوئی آدمی اِزار اور چادر پہنتا ہے تو اس میں کسی دوسرے آدمی کو شریک نہیں کرتا، اسی طرح عزت اور کبریاء اللہ تعالیٰ کی اِزار اور چادر ہیں، لائق نہیں کہ وہ ان میں کسی کو شریک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے تشبیہ کے ساتھ مثال بیان کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مثال سب سے اعلیٰ ہے۔ کسی معزز اور ذی شان آدمی کی اِزار (تہہ بند) اور اوڑھی ہوئی چادر کوئی شخص چھیننے اور کھینچنے ی کوشش کرے تو اس کا غصہ اور غضب قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ اور چھیننے والا غالباً قتل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی عزت پر ہاتھ ڈالے وہ سخت عذاب سے کیسے بچ سکتا ہے؟ (مترجم)۔

ایسی خدائی کے دعوے تو میرے محبوب نبیؐ آخرالزماں نے بھی کبھی نہیں کیے بلکہ آپؐ کی سیرت سے تو پتہ چلتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ اپنے صحابہء کرام کو اپنی آمد پر کھڑے ہو کر استقبال سے بھی منع فرمایا کرتے ۔

اور مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کرنے کے بعد واپس پلٹی تو حیرانگی سے کچھ خواتین کو دیکھا جو روضہ اقدس کی جانب پیٹھ نہیں کرکے نہیں بلکہ الٹا چل کہ واپس جاتِیں۔۔۔ شروع میں تو میں سمجھی کہ یہ شاید اس لیے اس جانب رخ کیے ہوے ہیں کہ ان کی نظر باہر نکلتے ہوے آخری لمحے تک روضہ اقدس پر ہی رہے مگرمجھے اپنے اس خیال کو اسوقت بدلنا پڑا جب میں نے اگلی بار وہاں موجود منتظمین خواتین کو ایسی حرکت کرنے والی خواتین کو پکڑ پکڑ کر سیدھا کرتے ہوے اور غصہ سے حرام حرام کہتے سنا اور ایک پاکستانی خاتون نے کافی تفصیل سے اس بدعت پر روشنی ڈالی مجھے خیال آیا کہ جب صحابہ کرام اللہ کے نبیؐ کی محفل سے اٹھ کر جاتے ہونگے تو کیا وہ ایسا ہی کچھ کیاکرتےہونگے۔۔۔  اس کا جواب پانےکےلیے سیرتؐ سے مدد لی توجواب نفی میں ملا۔

 

یہ غرور تکبر اور جھوٹی خدائی کے دعوے تو ہر دور کے فرعونوں کا وطیرہ رہے ہیں ۔ جسے رب ذوالجلال خود بھی نے یوں بیان فرمایا

فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى
پھر اس نے کہا: میں تمہارا سب سے بلند و بالا رب ہوں [ ۳۰ :النازعات:۲۴]

یہی تو تھا وہ دعوی فرعون جو اپنے سامنے موجود انسانوں کو زمین پر رینگنے والے جانورں سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا تھا۔۔۔ اور اس دن میں یہ وڈیو دیکھ کر ایک تکلیف اور افسوس دہ کیفیت میں یہی سوچتی رہی کہ انسان کو رب نے کتنا اعلی مقام دیا مسجود ملائک بنایا اورمجھے یہ بتانے کی ضرورت ہر گز نہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے  خود کو کسی دوسرے کے آگے جھکا دینا اس کےلیے موت سے کم نہیں ہوتا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ انسان اپنی ناک کو کسی سامنے زمین پر رکھدے یہ ناک اسے بہت عزیز ہوتی ہے۔ اسی لیے کتنا پیارا ہے وہ رب جس نے اپنے سواء کسی اور کے سامنے جھکنا ناقابل معافی جرم قرار دے دیا۔۔۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَالِكَ لِمَن يَشَآءُ‌ۚ وَمَن يُشۡرِكۡ بِاللَّهِ فَقَدِ افۡتَرَىٰٓ إِثۡمًا عَظِيمًا 48

بے شک الله اُسے نہیں بخشتا جو اس کا شریک کرے اور شرک کے ماسوا دوسرےگناہ جسے چاہے بخشتا ہے اور جس نے الله کا شریک ٹھیرایا اُس نے بڑا ہی گناہ کیا سورة النساء(48

 
اور کتنا ناشکرا اور بد نصیب ہے وہ انسان جو خود کو چوپایہ بنائے ہوئے کیسی بدمستی کی کیفیت میں ایک انسان کے پیروں کو چومتا ہے ، یعنی وہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے کے شرف کو ہی بھلا بیٹھا۔

اسی لیے رب اعلیٰ نے فرمایا ۔۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ
سورة التِّین——— از تفسیر احسن البیان
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا (4
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا (5
لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا (6

تفسیر

۔4. اللہ تعالٰی نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے صرف انسان کو دراز قد، سیدھا بنایا ہے جو اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے، پھر اس کے اعضا کو نہایت تناسب کے ساتھ بنایا، ان میں جانوروں کی طرح بےڈھنگا پن نہیں ہے۔ ہر اہم عضو دو دو بنائے اور ان میں نہایت مناسب فاصلہ رکھا ، پھر اس میں عقل و تدبر ، فہم و حکمت اور سمع و بصر کی قوتیں ودیعت کیں ، جو دراصل یہ انسان اللہ کی قدرت کا مظہر اور اس  کا پر تو ہے ۔ بعض علما نے اس حدیث کو بھی اسی معنی و مفہوم پر محمول کیا ہے ، جس میں ہے کہ اِنَ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلَٰی صُورَتِہِ ( مسلم ، کتاب البروالصلاۃ والاداب )“ اللہ تعالٰی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا “ انسان کی پیدائش میں ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی احسن تقویم ہے ، جس کا ذکر اللہ نے تین قسموں کے بعد فرمایا ۔(فتح القدیر)

۔5. یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر (بہت زیادہ عمر )کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آ جاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے اور بعض نے اس سے ذلت ورسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔

۔ 6 ۔ آیت ماقبل کے پہلے مفہوم کے اعتبار سے یہ جملہ مبینہ ہے مومنوں کی کیفیت بیان کر رہا ہے ، اور دوسرے تیسرے مفہوم کے اعتبار سے ما قبل کی تاکید ہے کہ اس انجام سے اس نے مومنوں کا اسثنا کر دیا ۔ (فتح القدیر

 

اس ایک ویڈیو کے بعد میں نےاور بہت سی وڈیوز دیکھیں جن میں یہ حضرت کہیں گانوں کی تھال پرسالگرہ کا کیک کاٹتے تو اور مریدوں کے ساتھ جھومتے ناچتے نظر آتے ہیں تو کہیں مردہ کو قبر کے اندر کلمہ پڑھانے  کا معجزہ دکھاتے تو کہیں اپنے ہی دیئے ہوئے فتووں کی دوسری کسی ویڈیو میں نفی کرتے ہو ئے غرض کسی بھی معمولی سی عقل رکھنے والے کے لیے بہت کچھ موجود ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ خودسمجھنا چاہے۔

 

اتنا سب منظر عام پر آجانے کے بعد بھی جب میں نے عاشقوں کا ایک ہجوم بیکراں دیکھا تو خاموش رہنا ممکن  نہ رہا کہ:
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

 

مجھے افسوس اس پر نہیں تھا کہ ایک شخص نے کتنے روپ دھارے ہوے ہیں  میرا موضوع یہ بھی  نہیں کہ وہ کیا مقاصدہیں جنھوں نے ایک کینڈا کی شہریت  رکھنے والے کو یکایک بےتاب کردیا ، یا یہ انقلاب کن کا اسپانسر کیا ہوا ہے ، نہ ہی مجھے اس پر بات کرنی ہیکہ اب یہ کس کاروحانی ظہور ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ اس کنگا میں کون کون ہاتھ دھونے والا ہے [ کہ ان سب کے لیے اگلا کوئی بلاگ سہی ] مگر ابھی تو میرا دکھ کچھ اور ہے اور میرا قلم تو دراصل آج لاکھوں کے اس مجمع پر ماتم کنعہ ہے جو نجانے کہاں سے لائے گئے [ خود کو بہلانے کو میں نے یہ گمان کیا کہ انہیں لایا گیا ہے۔

 

مگر میں زیادہ دیر خود کو ان گمانوں سے بہلا نہ سکی کہ مجھے ابھی کچھ دن پہلے گردش کرتی ہوئی یہ خبر شرمناک حقیقت کو آشکار کرتی نظر آٗئی  کہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کے مضافات میں بارہ کہو کے قریب بجلی کے ایک کھمبے کو مزار میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہاں لوگ بڑی تعداد میں منتیں مرادیں مانگنے بھی آرہے ہیں۔ اس مزار کو درگاہ بابا کھمبے کا نام دیا گیا ہے۔ بجلی کے اس کھمبے کی چاردیواری کر کے یہاں مجاور بھی بیٹھ گئے ہیں جو یہاں آنے والوں سے نذرانے اور چڑھاوے وصول کرتے ہیں۔ ان مجاوروں کا دعوی ہے کہ یہاں آنے والوں کی ہر دلی مراد باباجی کے حکم سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس حوالے سے جب واپڈا حکام سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ مذہبی معاملہ ہے اس لئے وہ اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس کھمبے سے بجلی   کی  تاریں دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہےہیں تاکہ بابا کھمبے کے مزار پر آنے والوں عقیدت مندوں کو کرنٹ نہ لگے۔
اور پھر مجھے یاد آیا کہ ایک بار ایبٹ آباد جاتے ہوئے راستے میں ہم نے ایک مزار دیکھا جو’ کھوتا پیر ‘کے نام سے مشہور ہے ۔۔اور معلوم کرنے پر جب اس مزارکی عظیم تاریغ کا علم ہوا تو جو حالت دل و دماغ کی ہوئی وہ ناقابل بیان۔۔۔ کہ کئی دن تو خود کو یہ یقین دلانے میں صرف۔۔۔ ہوئے کہ نہیں الحمد للہ ہم اب تک انسان ہی ہیں۔

 

تاریخ کچھ یوں تھِی کہ اس جگہ ایک شخص کو اپنے گدھے سے بہت محبت تھِی جب گدھا مرگیا تو اسنے جوش محبت میں اسکی قبر بنا دی جس کا علم گردو نواح کے تمام لوگوں کو ہے مگر وہ قبر آہستہ آہستی ایک مزار کی صورت اختیار کر گئی اور اب اسکا نام ہی’ کھوتا پیر’ ہے اور بابا کھوتا پیر کے مزار پرعقدت مندوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

 

میں یہ سوچنے لگی کہ جو قوم کتے کے گوشت کو بکرے کا بنا کر بیچ سکتی ہے ، مردہ مرغیوں کو سستے داموں خرید کرہوٹلوں کی نذر کر سکتی ہے ، غیروں کی پاگل گائے بیلوں کو عزت کیساتھ اپنے ملک میں قبول کر سکتی ہے ، بجلی کے کھمبوں سے دعائیں مانگ سکتی ہے۔۔۔تو پھر وہ اپنے ہی جیسے انسان نما فرعونوں کو سجدے اور گدھوں کو پیر بھی بنا سکتی ہے۔

 

میں بہت دیر اضطراب کی سی کیفیت میں بیٹھِی بس یہی سوچتی رہی کہ ہم کب تک اپنی سوچوں اور عقلوں کو تالے لگا کرکولہو کے اس بیل کی مانند  رہیں گے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک ناختم ہونے والے گول چکر میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہ بیل بس چلتا ہی رہتا ہے چلتا یہ رہتا ہے شاید یہ سمجھ کر کہ اسکا راستہ بس طے ہونے ہی والا ہے مگر وہ اس دردناک حقیقت سے زندگی بھر واقف نہیں ہو پاتا کہ راستہ تودراصل ابھی شروعہی نہیں ہوا!!

 

اک سوچ تھی جو بار بار ستا رہی تھی کہ کیا اس قوم کے بدلنے کی کوئی آس ہے ۔۔مگر جواب بڑا ہی تکلیف دہ تھا۔

کوئی امّید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

 

 

جو قوم کھمبوں اور گدھوں کو پیر بنانے لگے اس سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ یہ تو اللہ کی بھی سنت ہیکہ وہ ایسی نا ہنجاز قوموں کی جگہ پھر دوسری قوم اٹھاتا ہے۔۔۔ اور اس امر میں کوئی شک نظر نہیں آتا کہ اگر اب بھِی ہم نے من حیث القوم اپنی روش نہ بدلی توایک بھیانک انجام ہمارا منتظر سامنے ہی کھڑا ہے۔

 

میں اس انجام کا سوچ کر خوف کی حالت میں بس یہی دعا کر پائی۔۔۔ اللھم لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک و عافنا قبل ذٰلک
یا اللہ ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ کرنا اور اپنے عذاب سے ہلاک کرنا اور اس سے قبل ہی ہمیں بچا لینا۔آمین

فیس بک تبصرے

کھوتا پیر یا بابا کھمبا پیر“ پر 8 تبصرے

  1. کل ہی میں نے مشہور شاعر مظفر وارثئ کی کتاب سے اقتباس پڑھا ہے جس میں انہوں نے آپ بیتی بیان کرتے ہوئے طاہر القادری کی شخصیت کی جھلک دکھائی ہے خاصا اںٹرسٹنگ ہے آپ بھی پڑھیئیے

    http://www.nidokidos.org/threads/178012-tahir-ul-qadri-exposed-by-muzaffar-warsi#.UNo0oHfheSo

  2. جیسی قوم ویسا قائد

  3. infact we deserve these type of jokers…

  4. I have seen that video..o please dont spread this intishar..she ”the lady” came across to that video just by the time quaid e muhtaram came back to pakistan. what a coincidence or only a conspiracy. all reading article please see video urself. and decide sesibly. that was not sajda neither there was any que for peforming sajda, as it is tried to show in aove article. MAY GOD GIVE US TOFEEQ TO FOLLOW THA PATH OF HIDAYAH.
    THANKS

  5. جناب محترم لکھاری صاحب.
    اوہام انسانی تاریخ میں ایک نہایت اہم کردار کے حامل رہے ہیں اور مذاہب کی جائے پیدائش بھی اوہام کے پردوں میں چھپی ہوئی ملتی ہے.مثال کے طور پر مذہب اسلام میں ستر(70) کے عدد کی کوئی سند قرآن میں سے تلاش کرکے بتاسکتے ہیں؟ ستر گناعرب کی روایت کا حصہ ہے اور وہم کے ایک بنیادی عنصر سے نکلا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ فلاں عمل کا ثواب ستر گنا ہوگا ،فلاں عمل کے بعد ستر گناہ مرتبہ یہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ.تو آپ ایک خاص سخت رویے کی مدد سے برصغیر کی روایت میں موجود اوہام کو غیر اسلامی تو قرار دے سکتے ہیں لیکن اَنہیں غیر حقیقی یا غیر فطری قرار نہیں دے سکتے.دوسرا اہم نکتہ جس کی طرف اشارہ کرنا اگرچہ راسخ العقیدہ افراد کے غیض وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن اس کے بغیر چارہ نہیں.حجر اسود کے بوسے سے لے کر طواف تک کے اعمال میں قدیم روایت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور ان اعمال میں کہیں بھی یہ پہلو تلاش نہیں کیا جاسکتا کہ کہیں شرک سرزد ہوا ہے. حتی کہ شیطان کو کنکر مارنے کی روایت قدیم روایت ہے،اسی طرح جنات کا تصور اور وجود،جادو کو موثر ماننا،بدشگونی کا تصور،قربانی بذات خود روایات کے زمرے میں آتی ہے.یہ وہ روایات ہیں جن کو اسلام نے اپنے دامن میں لے لیا.اور اس کی وجہ ان روایات پر شاید ایمان نہیں بلکہ ابتدائی اسلام کو لاحق خوف تھا کہ کہیں مقامی لوگ اسلام سے بدک نہ جایئں.ایسی ہی صورت حال برصغیر حتی کہ افریقہ اور مشرقی یورپ کے مسلمانوں کے ساتھ لاحق ہے.افریقی مسلمان قبائل مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے قدیم سماج سے جڑے رسوم و رواج کو اپنائے ہوئے ہیں جبکہ مشرقی یورپ کے مسلمان بھی اپنے مسلم عقیدے کے ساتھ ساتھ مقامی روایات سے جڑے ہوئے ہیں.کوئی مقامی مسلمان جو کسی کھمبا پیر کو عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہے وہ اپنے عقیدے میں اسلام کی بنیادی جزئیات سے انحراف نہیں کرتا.وہ اپنی نماز کھمبا پیر کے کہنے پر ادا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ حج جیسی اسلامی عبادت کے لیے کھمبا پیر کا رخ کرے گا.
    بنیادی طور پر اس طرح کے خیالات اور اعتقادات اسلام کو متحارب دین بنانے اور دوسرے ادیان کے ساتھ اُلجھانے پر مائل افراد کی خواہش کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں اور اپنا اثر دکھاتے ہیں.مثال کے طور پر صدیوں سے افغانستان میں موجود بدھا کے مجسموں کو کسی اسلامی جمہوری حکومت نے نہیں گرایا لیکن طالبان کی حکومت نے یہ کام کر دکھایا جس کو مخصوص شدت کے حامل افراد نے بہت سراہا اور خالصتااسلامی قرار دیا.آج ضرورت اس امر کی نہیں کہ مسلمانوں کو جنگ وجدل کی طرف لانے کے لیے ان کے اعتقادات میں دراندازی کی جائے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دھارے میں لایا جائے اور ان کے مختلف مسلکی اعتقادات کو ادھیڑا نہ جائے تاکہ جو سیاسی و سماجی لاغر پن مسلمانوں کو لاحق ہے اس کا مداوا کیا جائے.اقوام عالم کے سامنے مسلمان ایک واحد تعریف ہے جس میں مسالک کی تفریق شامل نہیں.
    خیر اندیش

  6. السلام علیکم و رحمتہ الله .
    اس گوشۂ جہالت کی جانب قلم اٹھانا بھی یقیناً ایک جہاد سے کم نہیں .الله جزا خیر سے نوازیں .اور الله ہمیں توفیق دیں اور مدد فرمائیں ، کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں ،اور بھٹکے ہوۓ لوگوں کی فکر .
    اور جو دن میں کئی بار دہراتے ہیں کہ:-
    ( اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم ، غیر المغضوب علیھم ولا الضالین .آمین.)
    کی سمجھ عطا کریں ،آمین .
    بقول شاعر :-
    بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نا امیدی ؟
    مجھے بتا تو سہی ، اور کافری کیا ہے ؟

  7. بہت اچھا تجزیہ ہے۔ ایسے لوگوں کو فنڈفراہم کیے جارہے ہیں ۔ معاشرے میں بے حیائی کے ساتھ ساتھ اعتقادی گندگی بھی شامل کی جارہی ہے۔ ہمارا کام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

  8. .ASSALAM O ALAIKUM Buhat achi tehrir h ALLAH Apko ajar dy ameen …baQol Shaair ‘Khuda ny aj tak us Qoam ki Halaat nahi badli …na ho jisko khayal khud ap apni Halat k badalny ka’….

Leave a Reply