بین آلاقوامی کتب ملیہ

لوگوں کا اژھام ۔۔۔

انٹرنس گیٹ سے لے کر پارکنگ ایریا تک
تا حد نظر لوگوں کے سر ہی سر ،گھنٹوں لائنوں میں لگے بچے ،بوڑھے ،جوان عورتیں اور مرد ۔۔۔۔

یہ وارفتگی بے وجہ تو نہیں —–آخر رخ  لیلہ  تھا  تماشہ  تو  نہیں  تھا۔۔۔
جس نبی کی تعلیمات کا آغاز ہی  اقرا  سے ہو علم  کی دیوانی اس نبی کی  امت  نہ  ہوگی  تو  کون  ہوگا ۔۔۔۔؟کتاب  لفظ  اور حرف  کی  قدر  اس سے زیادہ کون پہچانتا ہو گا؟ وہاں کتنی بڑی خبر یہ ہے  جسکو وہ خبریت نہ  ملی  جو اسکا  حق  تھا ۔۔ یقینا وہاں ہوتے تو ضرور اسکو اپنے ریکارڈ کا حصہ بناتے کہ علم جس امت سے چھیننے کے سب حربے آزمائے گئے پھر بھی بھی 16 سو برس سے لفظ “اقراء” اسکی گھٹی میں پڑا ہوا ہے اور جس قوم کو راگ رنگ سر اور مستی میں جھونک دیا گیا اسکے خمیر سے پھر بھی کتاب کی محبت نہ نکالی جا سکی۔

 

نہ یہ “ٹائمز آف لندن ” کے لئے کوئی خبر ہے نہ “وائس آف امریکہ” کے لئے  نہ “انڈیا ٹو ڈے ” کے لئے نہ “پاکستانی چینلز” نے اسکو “بریکنگ نیوز” کے طور پر نشر کیا۔۔۔ جس ملک میں تعلیم کا بجٹ صرف 2 فیصد ہے جس ملک میں حکومت کو تعلیمی سرگرمیوں سے کوئی دلچسپی نہیں وہاں اتنی بڑی سرگرمی بپا ہو جانا۔۔۔ اور شہر کے بیچوں بیچ 4 دن لاکھوں لوگ ہلم کے عاشق کتابوں کے دیوانے جہاں نہ تھیٹر نہ میوزک نہ تفریح کے ناپ پر گل غپاڑہ۔۔۔ کتابیں اور صرف کتابیں۔۔۔

 

وہ شہر جہاں دور دراز کسی نالے میں کریکر کا کوئی دھماکہ ہو تو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اسے سرخیوں میں شائع کرتے ہیں اور میڈیا بار بار “بریکنگ نیوز” کے طور پرپیش کرتا ہے لیکن افسوس یہ خبر کسی جگہ  “بریکنگ نیوز” کا درجہ نہ پا سکی کہ سسکتے ہوئے کراچی کے گھٹن زدہ ماحول میں یہ تازہ ہوا کا جھونکا جس نے شہر بھر میں فرحت، خوشی اور تازگی بکھیر دی ایک ماہ قبل اسی ایکسپو میں جب دفاعی نمائش لگی تو اسقدر حفاظتی اقدامات اور جگہ جگہ راستے بند۔۔۔ شہر بھر میں 40 ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات۔۔۔ کہ دہشتگردی کی کوئی واردات نہ ہو جائے۔۔۔ اسی شہر میں جسکی شناخت “دہشتگردی” بنا دی گئی  ہے جسکا عنوان “ٹارگٹ کلنگ ” قرار دیا پایا۔۔۔ نہ حفاظتی انتظامات نہ فوج نہ رینجرز نہ ہیلی کاپٹر جائزے کے لئے گردش کرتے نظر آئے۔۔۔ نہ حکومتی اہلکاروں کو فرصت کہ اس “سعی رائیگاں ” میں اپنا وقت ضائع کریں۔۔۔ یہ تو علم کے پیاسے تھے جو اس بستی سے سیراب ہو رہے تھے جہاں ادب ، ثقافت شاعری،افسانہ، ناول، سائنس، قانون، فلسفہ ، طب ، تاریخ ،میڈیسن،قرآن حدیث،سیرت پت لاکھوں کتابیں تھیں اور کڑورون روپے کی کتابیں اس چھت کے نیچے فروخت ہوئیں اور مہنگائی ،سی این جی کی بندش، بھتہ خوری کے ہاتھوں ستائی ہوئی اس قوم کے دامن میں اب بھی ایک چنگاری ہے جو شعلہ جوالہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔ علم دوستی ،کتاب سے محبت ،اپنے آباء کے ورثے کی قدر ،دیں کو جاننے کی جستجو ،کتب بینی کا شو ستاروں سے آگے جہانوں کی تلاش اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی جستجو لئے وہ روشن چہرے۔۔۔ بہت کچھ بصیرت کا سامان تھا اور بہت بڑا پیغام جو دنیا بھر کے میڈیا کو دیا جا سکتا تھا اپنی تیزاب زدہ جھلسی تصویر کی جگہ یہ تصویر ہم دنیا کو نہ دکھا سکے کہ اصل میں تو ہمارا ” سیونگ فیس ” یہ ہے۔

 
62 برس میں کتنی کوششیں کی گئیں اس قوم سے علم اور بصیرت چھیننے کی، تفریح کے نام پر کس دلدل میں دھکیلنے کی سازش کی گئیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اسکے اندر کے “اقراء” کو کوئی بھی کبھی نہ گہنا نہیں سکے گا۔۔۔ حکومتی سرپرستی کے بغیر اتنی عظیم الشان کوشش۔۔۔ 50  ہزار لوگ قومی ترانہ پڑھیں تو گینیز بک میں ورلڈ ریکارڈ کے طور پر رقم ہو جاتا ہے۔۔۔ 5 لاکھ لو گ ایک چھت کے نیچے علم کی پیاس بجھانے آئیں تو ریکارڈ کیوں نہیں بن سکتا؟؟؟؟

 

افسوس تو اپنی خوئے غلا می پر۔۔۔ ایک بچی ملالہ پر میڈیا نے کئی دن وقف کئے کہ وہ علم کا استعارہ ہے۔۔۔ اس قوم کے سینکڑوں گھنٹے تمام چینلز پر صرف اسکی تصویر دیکھتے اور خبریں سنتے ہوئےوقف ہوگئے۔۔۔ علم کا استعارہ تو یہ علمی کاوش بھی تھی اگر علم سے محبت ہی جتانی تھی تو اس خبر کو ملالہ کی خبروں کا سو واں حصہ ہی بنا کر پیش کر دیا جاتا۔۔۔ جنہوں نے یہ علمی کاوش کی انکو خراج تحسین حکومتی سطح پر پیش کر دیا جاتا۔۔۔ ملالہ تو خبروں کا سمندر تھی اور یہ خبر ایک قطرہ بھی جگہ نہ پا سکی۔۔۔ دراصل ہم اپنا تیزاب زدہ چہرہ دنیا کو دکھا کر ہمدردیاں سمیٹنے کے عادی ہو گئے ہیں اور وحشت اور دہشت کی آندھی نے ہر منظر کو دھندلا دیا ہے۔۔۔ افق پر کوئی کہکشاں ہم اس دھند میں دیکھ نہیں سکتے۔۔۔

 
آج معاشرہ جس فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہے اسکی بہت بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔۔۔ مسلمانوں نے ایک زمانہ میں سائنس اور تحقیق  کے میدان میں پوری دنیا کی رہنمائی کی تھی۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عرب ممالک  میں جاری تحریکو ں اور سماجی ہلچل بتا رہی ہے کہ مسلم دنیا میں انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور سیاست کے ایوانوں ہی میں نہیں ذہنوں میں بھی ایک شورش بپا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود ہمارا میڈیا بھی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ میں کائی کردار ادا نہیں کر رہا۔۔۔ یہ فکری انقلاب ایک دستک ہے اور انشاء اللہ علم اور کتاب سے رشتہ جوڑ کر ہم فکری اور اخلاقی بحران سے چھٹکارا پا کر ایک حقیقی اسلامی انقلاب کی دہلیز تک پہنچ جائیں گے۔

فیس بک تبصرے

بین آلاقوامی کتب ملیہ“ ایک تبصرہ

  1. علم کے حقیقی خواہاں افرادجہاں بہت خوشی سے یہ مناظر دیکھ رہے تھے وہاں لادین عناصر کو باپردہ اور مذہبی طبقات کی دل؛چسپی پر بہت رنج تھا اور جس کا اظہار انہوں نے اپنے بلافگز میں کیا۔

Leave a Reply