مصنف: اطہر ہاشمی
علامہ اقبالؒ نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اس طرح انہوں نے ہم جیسوں کو تو محبان کی فہرست سے خارج ہی کردیا تھا۔ مگر ہم جیسے جب جوان تھے تو کونسا تیر مار لیا‘ فلمی ستاروں تک پر تو کمند ڈال نہ سکے۔ یاد آیا‘ ایک بڑے میاں بوجھ سر پر اٹھائے جارہے تھے۔ بوجھ وہ آن پڑا تھا کہ اٹھائے نہ بنے۔ پھینک کر ایک آہ بھری او رکہا ’’ہائے‘ نہ ہوئی جوانی۔‘‘ پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے بولے ’’جوانی ہی میں کیا تیر مار لیا تھا۔‘
علامہ نے جن جوانوں سے اظہار محبت کیا ہے یقینا یہ وہ نہیں جو رات بھر موبائیل ٹیلی فون پر ’’سب کہہ دو‘‘ کے مشورے پر عمل کرتے ہیں اور بے عملی کا شاہکار ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ کون سے نوجوان ہیں؟ خوب غورکریں، ہر طرف نظر دوڑائیں تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ‘ نوجوانوں ہی میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ اس میں کچھ مبالغہ بھی نہیں۔ یہ مشاہدہ ہے۔ بقول اقبال ’’شباب جس کا ہے بے داغ‘ ضرب ہے کاری۔ مسلمان دشمنوں نے سب سے بڑا حملہ تعلیم کے نام پر کیا تھا جس کے حوالے سے علامہ نے ہوشیار کیا کہ ’’تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو۔ اللہ جنت میں درجات بلند کرے سید مودودی کے کہ انہوں نے اپنے بڑے کاموں میں سے ایک کام یہ کیا کہ نوجوانوں کو اس تیزاب سے نہ صرف بچایا بلکہ تریاق بھی فراہم کیا۔ علم خواہ کچھ بھی حاصل کرو لیکن اس کی بنیاد اسلام پر استوا رہونی چاہیے۔
اسلامی جمعیت طلبہ اپنا یوم تاسیس 23 دسمبر کو مناتی ہے۔ اس کے دو دن بعد 25 دسمبر قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب ہے جو اس تاریخ پر 1876 ء میں پیدا ہوئے۔ کہاں پیدا ہوئے یہ بھی متنازع ہے۔ معروف یہی ہے کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تاہم ایک د عویٰ یہ بھی ہے کہ وہ سندھ کے علاقہ جھرک میں پیدا ہوئے۔ لیکن کون کس تاریخ کو اور کہاں پیدا ہوا‘ یہ غیر ضروری بحث ہے۔ اصل بات تو شخصیت‘ اس کے کارناموں اور پیغام کی ہوتی ہے۔مسلمان بڑے ذوق و شوق سے عیدمیلادالنبی مناتے ہیں لیکن رسول اکرمؐ کے پیغام پر‘ ان کی سنت پر کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ عید میلاد کی رسم شاید عیسائی دنیا سے آئی ہے۔ بہرحال ہم بھی قائداعظم کو ایک دن یاد کرلیتے ہیں اور لادین طبقہ اٹھتے بیٹھتے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 ء کی تقریر کو حرز جان بنائے ہوئے ہے جیسے اس ایک تقریر کے علاوہ قائدنے کبھی کوئی خطاب کیا ہی نہیں‘نہ پہلے نہ بعد میں۔ اب تو قیام پاکستان کا مطلب کیا‘ پڑھنے لکھنے کے سوا۔ یعنی اب یہ نعرہ ہے معنی ہوا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا‘ لاالہ الااللہ‘‘۔ کیا یہ اتنی سادہ سی بات ہے یا کلمہ طیبہ اور پاکستان کو الگ کرنے کی شعوری کوشش ہے۔
لیکن جب تک اسلامی جمعیت طلبہ میدان میں موجود ہے اور ان شااللہ جب تک پاکستان ہے‘ یہ موجود رہے گی اور ڈٹی رہے گی‘ تب تک کوئی پاکستان کا مطلب بدل نہیں سکتا۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ قائداعظم کا جو تصور پاکستان تھا وہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی آگے لے کر چل رہی ہے۔ اسی لیے دین بیزار اور سیکولر طبقہ شروع دن سے جہاں ایک طرف قائداعظم کو سیکولر قرار دینے کی کوشش کررہا ہے وہیں اسلامی جمعیت طلبہ سمیت ہر دین دار طبقہ اس کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کا تصو ر پاکستان کیا تھا۔ قائداعظم نوجوانوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ 15نومبر 1942 ء کو آل انڈیا مسلم فیڈریشن کے اجلاس میں قائداعظم نے ’’پاکستان کا مقصد‘‘واضح کردیا۔ انہوں نے کہا ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘
اب ذرا غور کیجیے۔ قران مجید کو رہنما بنا کر کون کون آگے بڑھ رہا ہے…؟ کون قرآن کو راستہ اور رسول اکرم ؐ کو رہبر و رہنما کے نہ صرف نعرے لگاتا ہے بلکہ عمل سے ثابت بھی کرتا ہے۔ ورنہ تو ہر ایک نے اپنا اپنا رہنما بنا رکھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طبقہ کسی منزل کی تلاش و جستجو کے بغیر رہنما بنائے بیٹھا ہے۔ جب منزل ہی نہیں درکار تو رہنما کس لیے؟ ایسے رہنمائوں کے لیے تو بہزاد لکھنوی نے کہا تھا ’’اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے‘‘… لیکن یہاں تو نہ منزل کا تعین ہے اور نہ اس کی تلاش۔ اور رہنما ہے کہ اپنی منزل پاچکا ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ قران کریم ہمارا رہنما ہے اور منزل ایک ایسا خطہ جہاں ہم قرآن کے احکامات کو لاگو کرسکیں۔
یہ بات قائداعظم نے بار بار اور زور دے کر کہی ہے۔مثلاً 10 ستمبر 1945 ء کو عیدالفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ’’ہمارا پروگرام قرآن کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔‘‘
یہ اور بات کہ اب مسلم لیگ کے پاس اور بہت سے پروگرام ہیں اور بہت سی لیگیں ہیں جن کے ساتھ مسلم کا سابقہ لگا ہوا ہے۔ لیکن کہاں کس کے پاس قرآنی پروگرام ہے؟
17 ستمبر 1944 ء کو قائداعظم نے موہن داس کرم چند گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا ’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی و دیوانی اور فو جداری ‘ عسکری و تعزیری ‘ معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکامات موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک‘ جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک‘ اخلاق سے لے کر انسداد جرائم تک‘ زندگی میںسزا و جزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیا ت اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے مطابق کہتا ہوں۔‘‘
ہمیں یہ خط پڑھ کر یونہی یاد آگیا کہ اس پر قائداعظم کو یقین کامل تھا کہ قران کریم میں تعزیری قوانین بھی ہیں۔ یہ یوں یاد آیا کہ آج کل قاتلوں کو سزائے موت دینے کے خلاف بڑا شور اٹھ رہا ہے یہ شور شرابہ وہاں سے آیا ہے جہاں بے گناہ افراد کے لیے سزائے موت تو عام ہے مگر جو قاتل ثابت ہوجائیں ان کی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خاطر داری کی جاتی ہے۔ لیکن قران کریم میں تو قتل کا بدلہ قتل ہے اور اسے باعث فلاح قرار دیاگیا ہے۔ ہمارے جاہل دانشور سزائے موت کے خلاف شور مچارہے ہیں یعنی وہ اللہ کے واضح احکام سے بغاوت کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ خود کو قائداعظم کا پیروکار بھی سمجھے بیٹھے ہیں۔
چلتے چلتے قائداعظم کے تصور اسلام ‘ پاکستان اور ایمان کے بارے میں چند جملے اور۔
’’ہم پاکستانی حضرت محمدؐ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے۔(انتقال اقتدار کے موقع پر لارڈ مائونٹ بیٹن کو جواب)
’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعات کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘ جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی و پابندی کی حدیں مقرر کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام اور اصولوں کی حکومت ہے۔‘‘ (2جنوری 1948 ء کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے گفتگو)
قائداعظم کی گفتگو کا یہ حصہ نہ صرف حکمرانوں کو بلکہ ذرائع ابلاغ کے چودھریوں کو ضرور توجہ سے پڑھ لینا چاہیے۔ ہمارے حکمران اٹھتے‘ بیٹھتے پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپتے ہیں اور ذرائع ابلاغ نے اپنی آزادی کی حدیں خود مقرر کی ہیں۔
قائداعظم کوئی عالم دین یا شیخ الاسلام قسم کی چیز نہیں تھے۔ بے منزل رہنما الطاف حسین تو انہیں شیعہ مسلک تک محدود کرنے کی کوشش کرچکے ہیں لیکن وہ صرف مسلمان تھے اور بہت اچھے مسلمان۔ انہوں نے قران کریم عربی میں چاہے نہ پڑھا ہو لیکن یہ ایک عالم سے زیادہ جانتے تھے کہ اس کتاب میں کیا ہے اور کس لیے ہے۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا اسلامی جمعیت طلبہ قائداعظم ہی کے منشور پر عمل کرکے نہیں دکھارہی ؟ قائداعظم کا منشور و مطلوب صرف اور صرف قرآن کریم تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا منشور اور مقصود بھی قرآن کریم کی حکمرانی ہے۔ جمعیت اور نوجوانوں کی تربیت کے عنوان سے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری حافظ اسرار احمد کے یہ جملے دیکھیے۔’’اپنی قیمتی متاع سے دست بردار ہوکر اسے رب العالمین کے سپرد کیا جائے۔ جوانی کی شادابی‘ جینا مرنا‘ نماز قربانی سب کچھ اپنے پروردگار کے قدموں میں ڈال دیں۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ اس برگ و بار والے پودے اسلامی جمعیت طلبہ پر خزاں برپا کرنے کے لیے بہت ناموافق حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ربانی نصرت سے تمام تر طوفانوں کا مقابلہ کرکے اسلامی جمعیت طلبہ میں نظریہ‘ شعور ‘ فکر اور مقصد زندگی کی بیداری کے لیے جو کردار اس نے اد اکیا اس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں حب الوطنی ‘ دین سے وابستگی اور اسلام کے احیاء کا تصور مزید پختہ ہوا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ اور اسلامی دستور کی تدوین پرزور دیا۔
جمعیت کا نصب العین کسی سے لے کر پڑھ ڈالیے۔ آپ خود جان لیں گے کہ قائداعظم کے تصور پاکستان کی تکمیل کون کررہا ہے۔ چاہتے تو ہم بھی ہیں کہ علامہ اقبال کی زبان میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے ان نوجوانوں سے محبت کریں مگر ’’یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتا ہے۔‘‘
بشکریہ: روزنامہ جسارت
فیس بک تبصرے