اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد حماس نے دو بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی یہ کہ حماس نے اسرائیل کو اپنی شرائط پر جنگ بندی کے لئے مجبور کیا اور دوسری یہ کہ حماس نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی منوا لی ہے۔ جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل نے یہ موقف اپنایا تھا کہ اس بار جنگ محدود نہیں ہوگی اور حماس کو مکمل گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے گا۔اس مقصد کیلئے اسرائیل کے مہم جو وزیر اعظم نے غزہ پرفضائی حملوں کیساتھ ساتھ اپنی زمینی فوج اور ریزرو د ستوں کو بھی غزہ کی جانب پیش قدمی کا حکم دے کر غزہ کی زمینی ناکہ بندی کروا دی تھی۔ لیکن اسرائیل کو یہ الیکشن سٹنٹ مہنگا پڑا اور اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کا پول بھی اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب لاکھوں ڈالر مالیت کے ”آئرن ڈوم“ میزائل شکن نظام سو فیصد کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور تاریخ میں پہلی بار حماس کے میزائلوں نے سرحدی شہروں سے آگے پرواز کرکے بیت المقدس اور تل ابیب کو نشانہ بنایا۔ حماس کے اس جرات مندانہ اقدام نے نہ صرف اہلیان غزہ کی استقامت کو دوام بخشا بلکہ سرحد کے اس پار بسنے والے قابض اسرائیلیوں کی نیندیں بھی حرام کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے دعوں کے برعکس معصوم شہریوں کو شہید کرنے اور عمارتیں منہدم کرنے کے سوا کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہوگیا۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل عالمی سطح پر شرمناک حد تک ڈھیٹ مشہور ہے ۔ صابرہ و شتیلہ کیمپوں کے قتل عام سے لے کر فریڈم فلوٹیلا پر اٹیک تک اور معصوم فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے سے لے کر بے گناہوں کا خون بہانے تک اسرائیل نے کبھی بھی اپنے جنگی جرائم پر نہ تو ندامت کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر تنقید کی پرواہ کی ہے۔ لیکن اس بارشدید بین الاقوامی ردعمل اور میڈیا کی جانب سے اسرائیلی مظالم کی کہانیاں بیان کئے جانے کے بعد خود اسرائیل کے اندر سے بھی جنگ مخالف آوازیں بلند ہوئی ہیںجو کہ اسرائیل پر حماس کی اخلاقی فتح کی ایک اور دلیل ہے۔
حماس نے اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ اس جنگ میں جو دوسرا بڑا فائدہ اٹھایا ہے وہ عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو منوانا ہے۔ جنوری 2006میں منعقدہ الیکشن جیتنے اور فلسطین میں حکومت قائم کرنے کے باوجود حماس کو عالمی سطح پر پزیرائی نہیں مل سکی تھی اور مختلف حیلوں بہانوں کیساتھ حماس حکومت کو کام سے روکنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس عمل میں خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی کسی حد تک شامل تھے۔ لیکن حالیہ صورتحال میں حماس ایک لیڈنگ رول ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس کی بڑی وجہ پڑوسی ملک مصر میں حماس کے نظریاتی ساتھیوں اخوان المسلمون کی حکومت کا برسراقتدار آنا بھی ہے جس کی وجہ سے مصر نے پہلی بار کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور محصورین غزہ کی مکمل پشت بانی کا بھی اعلان کیا گیا۔ صرف مصر ہی نہیں بلکہ ترکی نے بھی اپنا اعلی سطحی وفد غزہ روانہ کیا جس نے حماس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مسئلہ فلسطین کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کا اعادہ کیا۔ مصر اور ترکی کیساتھ ساتھ تیونس اور ملائشیا کے وفود نے بھی جنگ بندی کے فوری بعد تباہ حال غزہ کا دورہ کیا ہے اور فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ان پہ در پہ عالمی دوروں نے یقینا بین الاقوامی سطح پر حماس کے قد کاٹھ میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
عالمی سطح پر حماس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی مظلوم فلسطینیوں کے لئے مظاہرے کئے گئے ہیں ان میں نہ صرف حماس کے جھنڈے اٹھائے مظاہرین نظر آئے بلکہ کھل کر حماس کے مزاحمت کاروں سے یکجہتی کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے منعقدہ حماس کے پچیسوں یوم تاسیس کی تقریبات بھی اہم ہیں جن میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے وفود نے غزہ کا رخ کیا اور حماس اور اس کی قیادت کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے قائد خالد مشعل نے بھی 45سال بعد سرزمین فلسطین کا رخ کیا ہے۔ اس سے پہلے مشعل شام اور قطر میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور حماس کی قیادت سنبھالنے کے بعد بھی بیرون ملک سے ہی تنظیم کے معاملات چلا رہے تھے۔
اسرائیل اور حماس کی اس جنگ کے بعد حماس کے سربراہ خالد مشعل نہ صرف ایک ہیرو بلکہ متفقہ قومی لیڈر کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ خالد مشعل نے اپنی مرضی کی شرائط پر اسرائیل سے جنگ بندی کرکے خود کو ایک مدبر رہنما کے طور پر منوایا ہے اور اب وہ مختلف فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد کیلئے سرگرم ہیں۔ حالیہ دورہ غزہ کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کسی ایک گروہ کا انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ مشترکہ معاملہ ہے اور پوری قوم نے مل کر اس کاز کیلئے کام کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم تحریک فتح سے کنارہ کشی نہیں اختیار کرسکتے۔ اس بیان سے خالد مشعل کی سیاسی بصیرت مزید اجاگر ہو کرسامنے آگئی ہے ورنہ حماس اور فتح کی مخاصمت سے نقصان صرف مسئلہ فلسطین کو ہی پہنچ رہا تھا۔6 200کے الیکشن کے بعد مختلف شہروں میں حماس اور فتح کے حامیوں کے درمیان خونریز تصادم بھی ہوئے تھے جس کے بعد سے دونوں تحریکوں میں ایک فطری تناﺅ محسوس کیا جاتا تھا لیکن خالد مشعل نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتح کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے جس کے مستقبل میں یقینا دور رس نتائج حاصل ہوں گے۔
عزالدین القسام بریگیڈ کے رہنما احمد الجباری کی شہادت کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگ میں اگرچہ عددی اور اقتصادی لحاظ سے فلسطینیوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن سیاسی اور اخلاقی طور پر حماس نے بڑے پیمانے پر کامیابیاں سمیٹی ہیں جن کی بدولت حماس مستقبل قریب میں نہ صرف فلسطین بلکہ عرب دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی قیادت کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔یہ صورتحال یقینا اس کی کامیابیوں کے سفر کو مزید دوام بخشنے کا باعث بنے گی۔
Pingback: حماس۔۔۔ کامیابی کا سفر | دوستان اقصی
How one can say hamas is victorious? hamas only killed 5 Jews and not a single Israeli solider. Whole city of Gaza is destroyed too
السلام علیکم و رحمتہ الله .
مقرر کی شعلہ بیانی اس کے اچھا مقرر ہونے کا ثبوت نہیں بلکہ قابل ذکر موضوع اور اس کے ساتھ کیا جانے والا انصاف ہے . ایسے ہی لکھنے والا کتنے صفحہ جات لکھتا ہے اہم نہیں ، بلکہ اپنے لئے منتحب موضوع کے سیاق و سباق کے پس منظر سے خود واقفیت کسقدر ہے یہ اسے تحریر میں ثابت کرنا پڑھتا ہے . شاہین بھائی نے ایک ایسے موقعے پر حماس کے حوالہ سے قلم اٹھایا ہے ،
جب عددی و لشکری برتری ، ہتھیار و جدیدیت میں بہتری کا گمان لئے اسرائیل شرمناک انداز میں ایک بار پھر فلسطینیوں کے ایمانی جذبہ و حمیت کو شکست دینے میں ناکامی سے دو چار ہوا ہے، اور حال ہی میں حماس کی تنظیم نے ٢٥ سالہ جہد مسلسل ، عزیمتوں ، شہادتوں کا دن بھرپور انداز میں الله کے آگے سجدہ ریز ہو کر منایا ہے .