جمہوریت کی ناکامی کا دعویٰ فقط ایک مکّاری ہے جو ایک ملک کے باشندوں کے حقوق پر ڈاکہ مارنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ورنہ ظاہر بات ہے کہ کوئی قوم بھی جب آزاد ہوتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلے دن سے اپنے معاملات کو چلانے کے کام میں ماہر ہوجائے۔ وہ قوم اپنے اختیارات کے ذریعے ایکسرسائز کرتی ہے۔ اتخابات میں وہ دھوکا کھاسکتی ہے۔ غلط قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اپنے معاملات دے سکتی ہے۔ چار پانچ سال تک غلط قسم کے لوگ معاملات کو چلاتے رہتے ہیں۔ قوم اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتی رہتی ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے چنا تھا وہ ہمارے ساتھ کیا زیادتیاں کررہے ہیں۔ دوسرے انتخابات کی نوبت آتی ہے تو قوم انہیں اُٹھا کر پھینک دیتی ہے اور دوسرے لوگوں کو آگے لاتی ہے۔ وہ بھی اگر قوم کی امنگوں کا ساتھ نہیں دیتے تو قوم تیسرے انتخابات میں جاکر زیادہ بہتر لوگوں کو آزماتی ہے۔ اس طرھ اسے جانچنے اور پرکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ مگر شرط نہی ہے کہ قوم کو آزادی حاصل رہے، اس کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں۔ حالات لوگوں کے سامنے آتے رہیں، اخبارات آزاد ہوں، پبلک پلیٹ فارم آزاد ہو اور لوگ اپنے ملک کے حالات سے باخبر ہوتے رہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ اس بات کو سیکھتے جاتے ہیں کہ کن لوگوں پر وہ اعتماد کریں اور کیسے لوگوں کے ہاتھ میں اپنے معاملات دیں۔ یہ ہے ایک قوم کی زندگی میں جمہوریت کی کامیابی کا راستہ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم آزاد ہوتے ہی پہلے دن جمہوریت کو بڑی کامیابی کے ساتھ چلانے لگے۔ جس طرح قومی خوشحالی کے لیے دو یا تین پنج سالہ منصوبوں کی تکمیل شرط ہوتی ہے اسی طرح اگر جمہوریت کی کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک قوم کو دو تین آزادانہ انتخابات کے مراحل سے گزرنا پڑے تو اس میں کیا ہرج ہے؟ اور اگر فرض کیجیے کہ اس دوران میں ملک کے حالات خراب بھی ہوجائیں تو ملک کے کسی ملازم کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ یکایک ملک پر قابض ہوجائے؟ نوکر ہے تو نوکری کرے، ملک کا مالک بننے کا اسے کیا حق ہے؟
سیّد ابوالاعلی مودودی (ایک سوال کا جواب، 11 مئی 1968، راولپنڈی)
فیس بک تبصرے