مجھے معلوم ہے ایک بار پھر اسے ایک سازشی تھیوری سے زیادہ کی اہمیت نہیں دی جاۓ گی لیکن معلوم نہیں اس دنیا کا میعار جانچ و پڑتال کیا ہے جس تحقیق اور لفظ سے امریکی ساکھ کو نقصان اور بدنام زمانہ ایجنسیز کے چہرے عیاں ہوتے ہوں وہ سازشی تھیوری کا نام دے کر رد کر دی جاتی ہے لیکن میں کہتا ہوں وہی بات سمجھجتا ہوں جسے حق کے مصداق کبھی بھی زہر کو قند نہیں کہہ سکتا اور آج سلام پیش کرتا ہوں اس میڈیا کیمرہ مین کی بہادری کو کہ جس نے وہ چیز اپنے کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کر لی جسے پاک فوج نے غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے مہران ایئر بیس پر فلمانے سے سختی سے روک دیا تھا یہ ٹیٹو والا شخص کون اور کس کی پیدا وار ہے ؟ آج یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے کیوں کہ بات ہی کچھ ایسی ہے یہ دنیا کا انوکھا “مجاہد ” ہے جس کے سر و دھڑ پر ٹیٹوز موجود ہیں اس بلاگ پر چسپاں اس دہشت گرد کی یہ تصویر جھوٹ سچ کی دنیا فیس بک سے نہیں لی گئی ہے نہ ہی اس میڈیا کے اخبارات سے لی گئی ہے جس نے ایک زلزلہ زدگان بچی کو آسیہ بی بی کی صورت پیش کر کے اکیسویں صدی کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول پھینکنے کی کوشش کی تھی یہ تصویر خرم پرویز کے یاہو ریوٹر پر موجود ہے جو ایک معتبر ذریع خبر تسلیم کیا جاتا ہے، اس بات میں کوئی دو راۓ نہیں ہیں کہ یورپ میں ٹیٹوز بنوانا ایک پسندیدہ روایت ہے امریکی باشندے اس قسم کے ٹیٹوز کو پسند نہیں کرتے جو کہ تصویر میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عام مروجہ ٹیٹوز میں جانوروں ، اشیاء ضروریہ اور عام جوانوں کی رومانیہ تصاویر شامل ہیں البتہ اس طرح کے ٹیٹوز کئی امریکی اور برطانوی فوجیوں اور انٹیلیجنس پرسنز کے جسموں پر پاۓ گۓ ہیں
ایک طالب سچ کی حیثیت سے اگر اس ٹیٹو کے لیے ہم یورپ سے باہر نکلیں تو ازبک ، تاجک ، گورخاص اور دوسری سابقہ سویت یونین ریاستوں پر شبہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے بڑا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا امریکی یا برطانوی انٹیلیجنس اور افواج میں ان علاقوں سے بھرتی کی جاتی ہے انٹیلجنس خیالات موجود ہیں کہ مغربی انٹیلجنس ایجنسیوں کے لیے ( سی آئی اے ، ایم آئی سکس ، بی این ڈی ) کے لیے ازبک سے افراد بھرتی کیے جاتے ہیں اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ تین سو ڈالر کی معمولی رقم سےامریکا کو یہاں آسانی سے ایجنٹ حاصل ہو جاتے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ شواہد یہ بھی موجود ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور ان سابقہ سویت ریاستوں سے اسلام کے نام پر ایک ” جھوٹی القاعدہ “بھی تخلیق کی گئی ہے جو کہ امریکی، فرانسی اور اسرائیلی ایجنسیز کی ہدایات پر کام کرتی ہے
سوچوں کو جس طرف بھی گھمایا جایا لیکن ایک بات واضح ہے کہ علاقائی ایجنٹ ان ایجنسیوں کے پلانز میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جہاد اور جہاد کے نام لیواؤں کو بدنام کرنے کے لیے یہی چال سی آئی اے نے یہاں چلی ہے ٹی ٹی پی کے متوازی ایک ٹی ٹی پی کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ عام لوگ فرق کو محسوس نہ کر سکیں اور طالبان کے خلاف نفرت کا مادہ اس قوم میں بھر دیا جاۓ اگر اس بات کو احسان الله احسان کی کال کے ساتھ رکھا جاۓ تو ٹی ٹی پی پر ایک بڑا سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ انہوں نے اس حملہ کی حسب معمول قبول کر لی ہے لیکن احسان الله احسان کی حیثیت خود مشکوک ہے اور میڈیا روپورٹس کے مطابق یہ شخص پشاور کے ایک ریسٹ ہاوس میں موجود ہے جو خود امریکا کی ملکیت میں ہے ایک شخص کو کسی بڑی تحریک کے خلاف ایجنٹ بنانا اینٹیلی جنس ایجنسیز میں عام ہے اس سلسلے میں ایک امریکی یہودی آدم پرل مین کو ” آدم یحییٰ ” کے نام سے ایجنسیز القاعدہ کے خلاف لانچ کر چکی ہیں لیکن القاعدہ نے انکا یہ بہروپ ایک مدت کے بعد کھول دیا
ملالہ حملے میں بھی اس طرح کی حکمت عملی بھرپور انداز استعمال کی گئی جس کا ذکر میں اپنے ایک گزشتہ بلاگ میں کر چکا ہوں
“جہاں تک ٹی ٹی پی کی بات ہے لوگ یا تو اتنے بھولے ہیں یا جاہل کہ وہ سی آئ اے جو اسامہ کو ایک فون کال سے ٹریس کر کے جا پکڑتا ہے ان معصوموں کے وہ ٹی ٹی پی ہاتھ نہیں لگ رہی جو روز دھڑا دھڑ حملے کر کر کے ذمہ داریاں کرتی چلی جاتی ہے پھر وہی ٹی ٹی پی امریکی مفادات پر یہاں کسی پر حملہ نہیں کرتی ، نہ حکومتی مشنری کو نقصان پہنچاتی ہے اسکا ہمیشہ سے یہی ہدف رہا عام لوگ ، فوجی تنصیبات ، مسجدیں ، سکول اور مزار ” مکمل بلاگ
حالیہ بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ زیر نظر دیشت گرد یا تو سی آئی اے اہلکار یا ایجنٹ ہے یا یہ طالبان کا ایک ایسا رکن ہے جسے ازبک یا امریکی سرزمین سے بہکایا گیا ہے اگر ہم اسے طالبان کا رکن فرض کریں تو اسلام کے ٹیٹو کے متعلق احکامات پر بھی غور کرنا ہو گا بخاری شریف کی حدیث نمبر 5032 میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے ٹیٹو بنانے اور بنوانے والے پر لعنت بھیجی ہے کیا طالبان جیسی سخت گیر اسلام میں اس ٹیٹو کی گنجائش ہے ؟
میں انہی سوالوں کے ساتھ اس بلاگ کو ختم کرتا ہوں پر انتظار کیجئے اس وقت کا جب ظلم کی یہ ساری پراکسی یا ڈرٹی وار اپنی غلطیوں سے ہی خود کو آشکار کر دےگی لیکن پاکستانی قوم کو کچھ سوچنا ہو گا اور کچھ کرنا ہو گا ورنہ جسم وطن یوں لہو سے تر ہوتا رہے گا اس خطے کا سکون اسی میں ہے کہ امریکا کو یہاں سے نکالا جاۓ کیوں کہ امریکا کے جانے سے ہی سی آئی اے کے ظالمان جایئں گے
میں انہی سوالوں کے ساتھ اس بلاگ کو ختم کرتا ہوں پر انتظار کیجئے اس وقت کا جب ظلم کی یہ ساری پراکسی یا ڈرٹی وار اپنی غلطیوں سے ہی خود کو آشکار کر دےگی لیکن پاکستانی قوم کو کچھ سوچنا ہو گا اور کچھ کرنا ہو گا ورنہ جسم وطن یوں لہو سے تر ہوتا رہے گا اس خطے کا سکون اسی میں ہے کہ امریکا کو یہاں سے نکالا جاۓ کیوں کہ امریکا کے جانے سے ہی سی آئی اے کے ظالمان جایئں گے
مولويوں کے ہيرو طالبان ايک دفعہ پھر ايکسپوز
بہت عمدہ…. غیر مختون طالبان کے بارے میں تو سنا تھا ان شیطانی ٹیٹو والے طالبان بھی آگئے.
ارے کوئی سلیم صافی اور یاسر پیرزادہ کی بھی رائے بھی تو لے جو ایسی کسی سازشی تھیوری کو ماننے سے انکار کرتے ہیں.
میں پچھلی آدھی صدی کے مشاہدہ اور مطالعہ کے تحت شر5وع دن سے ”پاکستانی طالبان “ کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔ بلاشُبہ ان میں مجبور لوگ بھی ہوں گے جو دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے عزیزوں کو کھونے کے باعث شامل ہوئے لیکن اصل لوگ غیرملکی ایجنسیوں کے زر خرید ہیں ۔
افسوس ہے ان لوگوں کی عقل پر جو کسی کو ڈنگر ڈاکٹر کہہ کر بیوقوف گردانتے ہیں اور اپنے آپ کو شاید عقلمند سمجھتے ہیں
Still no one believes that tis killing is carried out on daily basis of innocent women, children and poor people of Pakistan by foreign terrorists then wait for the time when every one in Pakistan is being sold by the corrupt rulers of this atomic power.
جب بھی دہشت گردوں کی جانب سے کوئی پرتشدد کاروائی کی جاتی ہے تو بجاۓ ان انتہا پسند نظریات کی مذمت کرنے کے تمام تر توجہ امریکہ پر الزام دینے پر صرف ہوتی ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ “غیر اسلامی” ٹیٹو والے خودکش حملہ آور حقیقت میں “سی آئی اے کے ایجنٹ” ہیں یا انہیں امریکیوں کی حمایت حاصل ہے يہ سوچ انکی جہالت کی صاف عکاسی کرتی ہے امريکی حکومت کا ہميشہ يہ موقف رہا ہے کہ دہشت گرد مجرم ہيں جو اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے ليۓ مذہب کا سہارا ليتے ہيں۔
پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت پاکستانی حدود کے اندر ازبک اور چيچين دہشت گردوں کی موجودگی سے بخوبی آگاہ ہيں۔ 2009 میں پاک فوج کے سربراہ جرنل اشفاق کيانی نے وزيرستان ميں فوجی آپريشن کے موقع پر انھی حقائق کو ان الفاظ ميں واضح کيا تھا کہ “جنوبی وزيرستان ميں آپريشن نڈر اور حب الوطن محسود قبائل کے خلاف نہيں ہے بلکہ ان عناصر کے قلع قمع کے ليۓ ہے جنھوں نے خطے کا امن غارت کر ديا ہے۔ اس آپريشن کا ہدف ازبک دہشت گرد، غير ملکی عناصر اور مقامی عسکريت پسند ہيں”
براہ کرم ذیل لنک ملاحظہ کریں:
http://archives.dawn.com/archives/38727
مزید براں، امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ايم يو) نامی تنظيم کو دہشت گرد تنظيموں کی لسٹ ميں شامل کر کے 25 ستمبر 2000 کوکالعدم تنظيم قراد دے ديا تھا۔ امريکی حکومت نے تفصيلات ميں يہ واضح کیا تھا کہ آئی ايم يو کا طالبان اور تحريک طالبان پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس تنظيم نے يورپ اور وسطی ايشيا کی رياستوں سے بڑی تعداد ميں ہرکارے اپنی صفوں ميں شامل کيۓ ہيں اور ان کی توجہ کا مرکز افغانستان اور پاکستان ميں تشدد کی کاروائيوں کو فروغ دينا ہے۔
مندرجہ ذیل ویب لنک ہے:
http://www.state.gov/j/ct/rls/crt/2011/195553.htm#imu
انتہا پسند اور دہشت گرد تنظيميں اور انکے پيرو کار جو صرف “مارو اور مارتے چلے جاؤ” کی پاليسی پر عمل پيرا ہيں وہ نہ امريکہ کے دوست ہيں اور نہ ہی پاکستانی عوام کے۔ دہشت گردی کی يہ واقعات صرف پاکستان ميں نہيں ہو رہے، حقيقت يہ ہے کہ يہ دہشت گرد جو کم سن بچوں کو خودکش حملہ آوروں ميں تبديل کر کے برطانيہ، عراق، الجزائر، پاکستان اور افغانستان سميت دنيا کے کئ ممالک ميں بغير کسی تفريق کے بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہيں، يہ کسی اخلاقی اور مذہبی قدروں يا روايات کو مقدم نہيں سمجھتے
افشاں – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
MUJAY IAK BAAT SAMAJ MA NAHY IARHEE HY KAY USA KAY IANAY SAY PAHLAY YAHA PAR KOI ttp NAHY TEH. KOI PROBLEM NAHY TEH JB SY USA IAHA HY YAH SUB PROBLEMS START HOHEE HAIN. JB KOI usa KA NAAM LAYTA HY TU LOOG KHANA SHURU HU JATAY HAIN KAY YA SHAHSHI
MUJAY IAK BAAT SAMAJ MA NAHY IARHEE HY KAY USA KAY IANAY SAY PAHLAY YAHA PAR KOI ttp NAHY TEH. KOI PROBLEM NAHY TEH JB SY USA IAHA HY YAH SUB PROBLEMS START HOHEE HAIN. JB KOI usa KA NAAM LAYTA HY TU LOOG KHANA SHURU HU JATAY HAIN KAY YA SHAHSHI TEHORIES HAIN. KOI TU MUJAY ISS SAWAAL JA JAWAAB DAY.
دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔ ريکارڈ کے لۓ یہ ہے کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔
ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو “خ صوصی عالمی دہشت گرد” قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔
امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس طرح کے انعام کے اعلان کا صرف اسی صورت ميں مجاز ہوتا ہے جب کسی ايسے شخص کی گرفتاری کے ليے معلومات درکار ہوں جو يا تو اپنے اعمال، منصوبہ بندی، سازش، امداد يا ترغيب کے ذريعے امريکی املاک يا افراد کے خلاف عالمی دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث ہو۔ ایسے دھشت گردوں بيت پر انعام کا اعلان اور تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کو دہشت گرد قرار ديا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکی حکومت نے ہميشہ اس تنظيم کو اپنے شہريوں کے ليے براہراست خطرہ سمجھا ہے۔
یہ تنظیم سرحد کے دونوں اطراف پر ہمارے اسٹریٹجک اتحادیوں اور نیٹو افواج کے خلاف حملوں میں براہ راست ذمہ دار ہے۔