صدر آصف علی زردرا ی نے کہا ہے کہ ہر طاقت پارلیمنٹ کے سامنے جھکتی جا رہی ہے۔
صدر صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے لیکن انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ کونسی طاقت؟ اس لیے ابہام پیدا ہوا۔۔۔ کچھ لوگوں نے طاقت سے مراد “فوج” لی اور کچھ نے “عد لیہ” اور کچھ نے “طالبان” لیکن تینوں طاقتوں کے بارے میں ‘جھکنے’ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ فوج کو میں “بڑے خدا” کہہ کہ یاد کرتا ہوں کیونکہ پاکستان میں وہ کسی کے سامنے جھکنے کی عادی نہیں ہاں ہم “بلڈی سویلینز” کا فرض ہے کہ فوج کا نام آنے پر ” آمین ” کہیں ورنہ “پر جلائے بھی جا سکتے ہیں”۔ ‘عدلیہ’ بھی پچھلے چار سے مسلسل آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ کو معروف معنوں میں ‘ٹف’ ٹائم ہی دے رہی ہے اور جہاں تک ‘طالبان’ کا تعلق ہے تو ابھی کل کی بازگشت تھی کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے دو اتحادیوں نے کراچی کو طالبان سے پاک کرنے کے لیے فوج بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔۔۔ اس لیے ایسے کوئی آثار نظر آتے نہیں کہ اِن تینوں میں سے کوئی جھک جانے کی “جھک” مارے گا، اِس لیے غالب امکان یہی ہے کہ صدر صاحب کا اشارہ ‘طاقت کا سر چشمہ’ عوام کی طرف تھا کیوں کہ صرف عوام ہی پچھلے چار سالوں میں منتخب پارلیمنٹ کے سامنے نہ صرف جُھکتی جارہی ہے بلکہ عاجزی و انکساری کا پیکر بنی بیٹھی ہے۔۔۔ بلکہ سچ کہیں تو اِس ‘پیکرپنے’ کے عمل میں عاجز آ چکی ہے۔
← ♦ →
عمران خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوے فرمایا کہ اصغر خان کس میں آئی ایس آئی سے پیسے لینے والے سیاستدانوں پر الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی لگائی جائے۔
خان صاحب صاف اور کھری بات کرنے کےعادی ہیں اور انہوں نے اس بار بھی ڈنکے کی چوٹ پر بات کہی لیکن دوران کانفرنس میری ترستی نگاہیں تو اپنے دو محبوب رہنماؤں کے چہرہِ اقد س کا دیدار کرنے کو ترستی رہ گئیں جن کے ساتھ بیٹھ کے خان صاحب اس سے پہلے پریس کانفرنس کیا کرتے تھے ان دو میں سے ایک خان صاحب کی پارٹی کے صدر اور دوسرے چئیرمین کہلاتے ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ دورانِ کانفرنس اپنے قائد کے اعلان کو عملی ‘پاجامہ’ پہنانے کیلئے یہ حضرات الیکش کمیشن میں دراخواست دینے چلے گئے ہوں گے۔
← ♦ →
خبر ہے کہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ اور پاکستان کے زیرک سیاستدان جناب فضل الرحمان صاحب شد ید علیل ہو گیے ہیں۔
مولانا کے سیاسی مخالفین ان کے بارے میں جو مرضی کہیں لیکن میری خواہش ہے کہ یہ ہلکا پھلکا بخار ہی ہو کیوں کہ میری را ئے میں مولانا بغیر کسی وجہ کے بیمار ہونے کے عادی نہیں اور اِس وقت مولانا کا بیمار ہوجانا۔۔۔ اللہ خیر کرے، ویسے مولانا کی صحت کی خرابی کا سُن کربے اختیار میرے لبوں سے دعا نکلی کہ اللہ اسلام اور پاکستان کے حق میں بہتری کا فیصلہ فرمائے۔
← ♦ →
پیپلز پارٹی کے موجودہ دورحکومت میں پہلی پھانسی آج ہوگی اور یہ اعزاز میانوالی جیل کےحصّے میں آ یا ہے۔ جہاں ایک سابق فوجی کو اپنے ساتھی حوالدار کو قتل کرنے کے جرم کی سزا دی جا ئے گی۔ مجھے اس خبر میں صرف ایک لفظ کی کمی محسوس ہوئی ہے اور وہ ہے ‘با ضابطه’۔ اصل خبر یوں بنتی تھی “پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں پہلی ‘باضابطہ’ پھانسی آج ہوگی”۔ ورنہ غربت اور مہنگائی سے ڈسی ہوئی عوام تو پہلے ہی چار سال سے صبح و شام پھانسی کے پھندے کو سلامی پیش کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔
← ♦ →
وزیرِ باتدبیر جنابِ رحمن ملک صاحب کاتازہ فرمان ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی حمایت کرینگے۔
ملک صاحب آپ کے جذبہ خیرسگالی اور آپ کے دل میں امن کے قیام کے لیے موجزن محبت کو سلام پیش کرتے ہوئے عرض ہے کہ آخری اطلاعات تک پاکستان میں امن قائم کرنا بھی آپکی اور آپکی حکومت کی ہی ذمہ داری ہوا کرتا تھا۔ اِدھر بھی کچھ نظر کرم کیجئے ۔۔۔ اب تو کراچی کے گورکنوں نے اپنے ریٹس اِس طر ح بڑ ھا دیئے ہیں جیسے رمضان میں پھلوں کے نرخ اور عید پر بسوں کے کرائے بڑھتے ہیں۔۔۔ آخر ڈیمانڈ جو بڑھ گئی ہے۔۔۔
ضمناً عرض کرنا چاہوں گا کے افغانستان حکومت تو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذکرات کر رہی ہے لیکن جب پاکستان میں عمران خان اور سید منور حسن پاکستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو آپ اور آپ کے حواری انہیں طالبان خان اور طالبان حسن کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ بقول سہیل وڑائچ کہ کیا کھلا تضاد نہیں ہے؟؟
شکریہ!!
فیس بک تبصرے