پاکستان میں سیکولر لابی پچھلے 65 برس سے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ چلانے میں سرگرم عمل ہے۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیا اور بڑے اخبارات ہیں تو دوسری طرف سیکولر” دانشور ” جو اس سیکولریزم کے بیج کو کھاد اور پانی فراہم کر رہے ہیں۔ جو دو قومی نظریہ سے منحرف اور اور اسلامی نظریہ کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہیں اور بلا تامل ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت دھندلی ہوتی ہو اور اسلامی شریعت کے نفاذ میں روڑے اٹکائے جا سکتے ہوں۔
جب بات کی جائیگی کہ طالبان کا پاکستان یا قائداعظم کا پاکستان تو بلاشبہ 17 کروڑ عوام میں سے 7 لوگ بھی یہ نہیں کہیں گے کہ انہیں طالبان کا پاکستان چاہیئے۔ لیکن اصل میں زیر بحث یہ امر ہے کہ کیا قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے؟؟؟ اور ریفرنڈم کا اصل موضوع یہ باور کرانا ہے کہ قائداعظم پاکستان کے بطور سیکولر ریاست کے حق میں تھے لہٰذا آج کا پاکستان اس سیکولر لابی کی خواہش کے مطابق ایک سیکولر پاکستان ہونا چاہیئے۔
جہاں ہمارا تصور معاشرہ ہی بدل جائے اور خاندانی نظام پامال اور برباد ہوجائے اور وحدت خاندان کا تصورہی پارہ پارہ ہوجائے پھر اخلاقی قدروں کی جگہ مادی بنیاد پرستی لے لےاور مغرب سے مانگے ہوئے وسائل کو نئے نئے عنوانات کے تحت اس نیک مقصد کے کے لئے استعمال کیا جائے، چاہے وہ “ماں کی صحت ” کا بھلا عنوان ہو یا “خوشحال گھرانے” کا یا ایک قدم آگے بڑھ کر “محفوظ تعلق” کی اصطلاح ہو یا “احتیاطی تدابیر”اسکا عنوان ہو۔۔۔ مالتھس کے یہ پیروکار سب اجتماعی حدود اور قدروں کو فرد کی “انفرادیت” پر قربان کرنے کے آرزومند ہیں۔ فرد بھی وہ جسکی زندگی کا واحد مقصد دنیا میں اپنی خواہشات کی تسکین ہے خواہ جس طریقے سے بھی کی جائے۔
آج ریاستی وسائل اور ابلاغ عامہ کا بے دریغ استعمال کر کے17 کڑور لوگوں کو یہ سوچنے دعوت دی جارہی ہے کہ قائداعظم کا پاکستان وہ پاکستان تھا جو انکے ذاتی مفاد کے تابع ہو اور انکے مفادات انکے بیرونی آقاؤں کے مفادات کے تابع ہیں جو اپنے ہر قدم کو “عالمی امن ” اور “حقوق انسانی کی بحالی” “انسانیت کے تحفظ “جیسی خوشنما اصطلاحوں میں چھپا کر پیش کرتے ہیں۔ آج ہم اسی ابلاغی بنیادپرستی کے ہاتھوں زخم زخم ہیں۔
نام نہاد ریفرنڈم کے نام پر یہ سیکولر لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے میں مصروف ہے اور قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے من گھڑت بیانات کو بنیادی حوالہ بنایا جارہا ہے سیاق و سباق سے ہٹا کر قائداعظم کے بیانات کو غلط Quote کیا جارہا ہے۔ ان کہے لفظوں کو ان کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ جعل سازی کی یہ کوشش عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہے جبکہ ناقابل تردید حقائق و شواہد تاریخ میں موجود ہیں جو قائداعظم کی اسلام کے عقیدے سے گہری وابستگی اور انکے پاکستان کے وژن کے بارے میںروز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ افسوس یہ کہ نہ ہم نے قائداعظم کے پاکستان کے ساتھ انصاف کیا نہ خود قائداعظم کے ساتھ۔ اس ہائی جیکنگ کی نا مسعود کوششوں پر قائداعظم کی روح کیسے کیسے نہ تڑپتی ہوگی۔
سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں
کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں
تحریک پاکستان یا تاریخ پاکستان کا جتنا بھی مطالعہ کریں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ قائداعظم نے اپنی تحریروں تقریروں اور انٹرویوز میں کبھی سیکولرازم کی حمایت نہیں کی نہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ہمیشہ مسلم ریاست اور اسلامی ریاست کی اصطلاح استعمال کی اور ہمیشہ یہی کہا کہ قیام پاکستان کے پیچھے جو تصور کار فرما ےہے وہ “اسلامی اصولوں” اور “اسلامی قانون” پر عملدرآمد تھا مثلاً 8 ستمبر 1948 کو انہوں نے ارشاد فرمایا
جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہً حیات ہے۔ ایک دینی معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے بھی متعلق ہے، روح کی نجات سے لیکر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لیکر فرد واحد کے حقوق تک، اخلاقیات سے لیکر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لیکر عقبٰی میں سزا تک، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا ہے کہ ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے لہٰذا اسلام محضروحانی عقائد اور نظریات رسوم ورواج کی ادائیگی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہً حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے زندگی کے ہر شعبہ میں من حیث المجموع اور انفرادی طر پر جاری و ساری ہے۔
(قائداعظم تقاریر وبیانات جلد سوم ترجمہ اقبال احمد صدیقی صفحہ 474)
تمام تقاریر وبیانات کو ایک طرف رکھ دیں تو اسی ایک بیان کی روشنی میں کوئی معمو لی سوجھ بوجھ والا فرد بھی کیا یہ دلیل دے سکتا ہے کہ قائداعظم کا مطلوب پاکستان کوئی سیکولر پاکستان تھا؟؟؟
بات سادہ سی ہے اور اتنی ہی ہے جتنی اقبال نے کہی ہے
وہ فریب خوردہ شاہین جو پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی
رہی بات طالبان کی۔۔۔ تو طالبان کے روپ میں کب کہاں کس کے ایجنٹ کن کاروائیوں میں مصروف ہیں یہ بھی ایک سر بستہ راز ہی ہے۔ البتہ شدت پسندی نہ اسلام کا مزاج ہے نہ اسکی حمایت کی جاسکتی ہے۔ اسلام جس رواداری اور امن اور آشتی کا مذہب ہے اسکی روح کے خلاف کاروائیاں چاہے جبوں اور عماموں میں بھی کی جائیں کبھی عوامی مدح سرائی حاصل نہیں کر سکتیں البتہ طالبان کی آڑ میں اسلام کو ملعون کرنا اور پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اڑانا اور قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنا یہ بلاشبہ ایسے “گریٹ گیم” کا حصہ ہے جسکو بھارتی اور امریکی سرپرستی حاصل ہے۔ کیونکہ پاکستان کی تو غرض و غایت ہی لا الہ الا اللہ تھی اور پاکستان کے قیام سے اگر اسکی غرض و غایت ہی نکال دیں تو پاکستان کا قیام ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔ سیکولر پاکستان کے لئے نہ مسلمان قربانیاں دیتے نہ تحریک چلاتے۔۔۔
“طالبان کا پاکستان یا قائداعظم کا پاکستان” اسی ذہنیت کے لئے قائداعظم نے 25 جنوری 1948 کو کہا تھا
لوگوں کا ایک طبقہ دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے جو پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائیگی۔ (25 جنوری 1948)
قائداعظم نے جس “شرارتی طبقہ” کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کل بھی اسی ذہنیت سے اسلام سے برسرپیکار تھا اور آج بھی بوجہل اور بو لہب ہر دور میں پائے جاتے ہیں بس اسکی شناخت اور کردار مختلف ہوتے ہیں۔۔۔ ہم نے پاکستان کی شناخت کو اسطرح متنازعہ بنایا تو ہمارے لئے زمین مزید تنگ ہوجائیگی۔ پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل ہی اسکے نظریہ سے مخلصانہ وابستگی میں پنہاں ہے۔
سیکولرازماور روشن خیالی کے یہ سوداگر ہر دور میں اپنی دکانیں چمکا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کر کے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں جنکے لئے حالی بہت خوب کہہ گئے ہیں
مال ہیں نایاب، پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالی نے کھولی ہے دکان سب سے الگ
یہ بھی ایک تیکنیک ہے کہ آپ اس چیز کے ٹھیکیدار بن جائیں جو سرے سے آپکی ہے ہی نہیں، جس سے دور دور تک آپکا واسطہ ہی نہیں اور پھر آپ وہ چیز بیچنا شروع کردیں۔جیسے قائد اعظم کا پاکستان بمعنیٰ الطاف کا پاکستان۔۔۔۔
ہمیں نا آپ سے کوئی دلچسپی ہے اور نا ہی اس چیز سے دلچسپی ہے کہ آپ کے ذہن میں قائد اعظم کا پاکستان کیسا ہے۔ اسکے لیے ہمارے پاس انکے متعدد تاریخی دستاویزی ثبوت موجود ہیں جو ہر کسی کی دسترس میں ہیں۔ جن کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور یہ تعین کرسکتا ہے کہ قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔
اچھا لکھا ہے ۔لیکن یہ لوگ ماننے والے نہیں ہیں ۔ جس تقریر کا حوالہ دیتے ہیں اُس سے ثابت نہیں ہوتا کہ قائد اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے دیکھیئے
قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے
http://www.theajmals.com/blog/2012/10/17
لکھنا رہ گیا پاکستان کے آئین کے مطابق مُلک میں ریفرینڈم صرف پاکستان کے صدر یا وزیرِ اعظم کروا سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے نقطے کیلئے جس کا حل آئین میں نہ ہو ۔ الطاف حسین جو برطانیہ کا باشندہ ہے اسے پاکستان میں ریفرینڈم کروانے کا حق کس نے دیا ہے ؟ اور جو سوال ہے اس کا جواب آئین میں بہت پہلے سے موجود ہے
سازشی تھیوری یہاں بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔جس کا آج تک سر ملا ہے نہ پیر، کہ اس کا آغاز کہاں ہوا ؟
پاکستانی کسی کو کچھ دیں یا نہ دیں، یہ پاکستانیت جب تک برقرار ہے۔۔۔ ان کی مزدوری چلتی رہی ہے۔۔۔ باقی وطنی وقومی تصور میں اسلامی قانون کو فٹ کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔۔
شاید اب کے پاکستان کو البدر و الشمس کی دوبارہ ضرورت پڑے۔۔۔
والسلام
بڑے بھائی یہ سازشی تھیوری نہیں بلکہ اصل سازش ہے.
اگر آپ کو باہر کہیں جاتے ہوئے اپنے عقب میں گولی کے دھماکے کی آواز سنائی دے اور جب آپ مڑ کردیکھیں تو آپکو ایک شخص خون میں لت پت نظر آئے اور دوسرے شخص کے ہاتھ میں ہتھیار نظر آئے تو آپ یہی کہیں گے کہ دوسرے شخص نے پہلے کو قتل کیا ہے. آپ کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ چونکہ میں نے کچھ دیکھا نہیں اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کس کو قتل کیا ہے.
سازشی نظریہ میں اور اصل سازش میں یہی فرق ہوتا کہ واقعات اور حالات کا تسلسل اصل سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے. جبکہ سازشی نظریہ تسلی بخش جوابات کے نا ہونے سے پیدا ہوتا ہے.مثلآ آپ کو کہیں جاتے ہوئے اپنے عقب میں گولی چلنے کی آواز سنائی دے اور آپ مڑ کر دیکھیں تو آپ کو صرف ایک شخص خون میں لت پت تڑپتا نظر آئے. بعد میں گھر آنے پر جب آپ ٹی وہ کھولیں تو آپ کو پتا چلے کہ جس شخص کو آپ نے خون میں لت پت دیکھا تھا اور گولی کی آواز سنی تھی، اسکے بارے میں یہ خبر چل رہی ہے کہ وہ ایک مشہور شخصیت تھا اور سرکاری ہاسپٹل میں دل کے دورے سے انتقال کرگیا ہے . اور جسکی تصدیق سول سرجن اور ڈسٹرکٹ مجسٹیریٹ کر رہے ہوں تو لازمآ سازشی نظریہ جنم لے گا اور آپ یہ کہیں گے کہ یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ مرڈر ہے.مگر یہ بات آپ کسی اور سے کہہ نہیں سکیں گے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے علامہ پائے جاتے ہیں جنکا کام ہی سازشی نظریات کی مذمت کرنا ہوتا ہے.سازشی تھیوری بھی ہوا میں تیار نہیں ہوتی بلکہ اسکے پیچھے ناقابل فہم واقعات ہوتے ہیں جنکا کوئی جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا.
دوسری بات جو میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں کہ آپ تحریک طالبان پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں جس نے ایم کیو ایم پر حملوں کی دھمکی دی ہے. اس لحاظ سے تو آپکی ممدوح جماعت تو سازشی نظریات پر نا صرف سب سے زیادہ یقین کرنے والی ہوئی بلکہ ان نظریات کو اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا حصہ بھی بنانے والی جماعت ثابت ہوچکی ہے . کیا آپ تحریک طالبان پاکستان کا اسی طرح مذاق اڑائیں گے؟
وطنی اور قومی نظریات آج کی اس دنیا کی عملی حقیقتوں سے جنم لیتے ہیں.جن کے پیچھے عالمی قانونی اور آئینی محرکات ہیں. ساری دنیا اللہ کی ہے اور سارا جہاں ہمارا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جہاں چاہیں منہ اٹھائے چلے جائیں اور بجائے دین کی دعوت دینے کے خود کش حملے کرتے پھریں. آپ کی اس بات پر ایک لطیفہ آپکی خدمت میں عرض ہے. ایک مجرم ایک عدالت میں جج کے سامنے پیش ہوا. جج نے سوال کیا کہ تم وقوعہ والے روز ایک پرائے گھر میں رات کو چوری چھپے کیا کرہے تھے.؟ مجرم جواب دیتا ہے کہ جج صاحب! یہ ساری زمین اللہ کی ہے اور اس پر سارے گھر اللہ کے ہیں. میں جس میں چاہوں جا سکتا ہوں . جس پر جج نے کہا کہ اس ملک کی جیلیں بھی آپ کی ہیں لہذا آپ سات سال کے لیے جیل میں جا کر رہیے.
آپ ایم کیو ایم سے زیادہ جماعت اسلامی پر خفا ہیں کیا اسکی کوئی خاص وجہ ہے؟