لیجیے ملالہ ڈرامہ اب بے نقاب ہوتا جارہا ہے۔ اور اب اس ڈرامے کی تازہ ترین قسط یہ ہے کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین کو برطانیہ میں پاکستانی قونصلیٹ میں نوکری دی جارہی ہے۔کسی قونصلیٹ میں نوکری کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ دنیا میں کوئی ایسا انوکھا واقعہ ہے کہ اس کو موضوع گفتگو بنایا جائے، لیکن یہاں بات کچھ اور ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ملالہ یوسف زئی کے منظر عام پر آنے سے بات شروع کرنی ہوگی۔ ملالہ یوسف زئی نے 2009میں گل مکئی کے فرضی نام بی بی سی پر ڈائری لکھنا شروع کی۔ اس کے ڈائری لکھنے کی وجہ اس کا اسکول بند ہونا بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اس کا اسکول بند کردیا تھا اور ملالہ کو اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کا بہت رنج تھا۔ قارئین کرام یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ملالہ یوسف زئی اپنے والد ضیاء الدین کے اسکول ’’خوشحال پبلک اسکول اینڈ کالج سوات‘‘ میں زیر تعلیم تھی اور اس اسکول کو نہ تو اس وقت تک دھمکیاں دی گئیں تھیں اور نہ ہی بند کیا گیا تھا اس لیے یہاں یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ ملالہ کا اسکول بند ہوگیا تھا جس کے باعث اس نے ڈائری لکھنا شروع کی۔
اس کے بعد ڈائری کامعاملہ بھی مشکوک ہے سوات میں ملٹری آپریشن فروری 2009میں کیا گیا ہے لیکن ملالہ یوسف زئی اپنی تین جنوری کی ڈائری میں لکھتی ہے کہ’’ میں نے کل ایک خوف ناک خواب دیکھا جس میں ملسح طالبان اور ہیلی کاپٹر دکھائی دیئے، سوات میں ملٹری آپریشن سے قبل بھی مجھے ایسے خواب آیا کرتے تھے‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فروری میں ہونے والے آپریشن کا جنوری کی تین تاریخ کو کسیے ذکر کیا جارہا ہے؟؟ پھر اس ڈائری کی زبان اور اندازِ تحریر کسی چھٹی یا ساتویں کلاس کی بچی کا نہیں بلکہ کسی پختہ کار انسان کا نظر آتا ہے۔ غور کریں تو ایسی اور بھی باتیں سامنے آتی ہیں جو کہ اس ڈائری کو مشکوک ٹھہراتی ہیں۔
اب ہم درمیانی باتوں کو چھوڑکر ملالہ پر حملے کے بعد کی بات کرتے ہیں۔ ملالہ پر حملے کے بعد میڈیا پر جو خبراور فوٹیج جاری کی گئی اس کے مطابق ملالہ یوسف زئی کو سر پر گولی لگی ہے اور وہ گولی سر سے ہوتی ہوئی کاندھے کی طرف نکل گئی ہے۔ جبکہ فوٹیج میں اس کی پیشانی پر زخم کا نشان دکھایا گیا تھا۔ ( یہ خبر اورفوٹیج میڈیا پر اسی طرح جاری کی گئی )پیشانی پر زخم آنے کا مقصد یہ ہوا کہ گولی نے دماغ کو بہت برے طریقے سے متاثر کیا ہے اور اس کی حالت تشویشناک ہے اور اصولاً ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کہ جس اندز میں گولی لگی ہے اس میں تو زخم کاری ہی آتا ہے۔ پنڈی میں اس کا آپریشن کرکے گولی نکال لی گئی اور اس کے بعد میڈیا پر کہا گیا کہ آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور وہ روبہ صحت ہے ۔ لیکن اس خوشخبری کے بعد ہی اچانک اس کو ’’علاج ‘‘ کے لیے برطانیہ روانہ کردیا گیا ۔ یہاں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب اس کا پاکستان میں آپریشن بھی کامیاب ہوگیا تھا اور وہ روبہ صحت بھی تھی تو پھر اس کو برطانیہ کیوں بھیجا جارہا ہے؟؟ لیکن اس کا جواب آگے آئے گا۔
برطانیہ میں چند روز ہسپتال میں رہنے کے بعد ملالہ کی تصویر جاری کی گئی اس خوشخبری کے ساتھ کہ ملالہ نے تعلیم دشمنوں کو شکست دیدی ہے اور وہ اب تیزی سے صحت مند ہورہی ہے ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ایک بے گناہ بچی جو ظلم کا شکار ہوئی ہے اب وہ صحت مند ہورہی ہے اور اس کو ہونا بھی چاہئے اللہ اس کو لمبی عمر اور زندگی دے۔ آمین لیکن جو یہاں پھر ایک معاملہ بڑا عجیب نظر آیا کہ اب اس کی جو تصاویر جاری کی گئیں اس میں کہیں پر بھی اس کے چہرے پر یا پیشانی پر زخم کا کوئی نشان نہیں تھا۔ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہاں تو کہا جارہا تھا کہ ایسا زخم کہ گولی پیشانی پر لگی اور وہاں سے ہوتی ہوئی کندھے تک جاپہنچی اور کہاں ایسا صاف شفاف ماتھا کہ جس پر زخم کا کوئی نشان تک نہیں تھا۔
چلیے یہاں بھی عوام نے کوئی خاص رد عمل نہیں دکھایاا ور نہ ہی کسی نے اس بات کو محسوس کیا ، ظاہر ہے کہ میڈیا نے ماحول ہی ایسا بنایا ہوا ہے کہ جس میں سوائے طالبان کی مخالفت اور ملالہ کی مظلومیت کے کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہے۔ لیکن اب جو تازہ ترین صورتحال سامنے آئی ہے یعنی ملالہ کے والد کوبرطانیہ میں پاکستانی قونصلیٹ میں ملازمت دینے کی بات ( اس بات کی تصدیق خود ملالہ یوسف زئی کے والد نے بھی کی ہے کہ ان کی قونصلیٹ میں نوکری کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور ان کا انٹرویو بھی لیا گیا ) تو اس ملازمت کا جواز بہت ہی عجیب اور بھونڈا دیا گیا ۔ کہا گیا ہے کہ ملالہ یوسف زئی جس کے بارے میں عوام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ اس کا کامیاب آپریشن پاکستان میں ہوچکا ہے اور جس کی برمنگھم کے ہسپتال سے جو تصاویر جاری کی گئیں ان میں معجزانہ طور پر سر پر گولی یا زخم کا کوئی نشان نہیں تھا اور کہ وہ بہت تیزی سے روبہ صحت ہے، اس ملالہ یوسف زئی کے بارے میں اب کہا جارہا ہے کہ اس کی صحت ایسی نہیں کہ اس کو ہسپتال سے فوری ڈسچارج کیا جائے اور اس کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے لیے کم و بیش دو سال کا عرصہ درکار ہوگا، اس دوسال کے عرصے میں ان کے والد محترم یہاں کیسے رہیں گے، گزر بسر کیسے ہوگی، اخراجات کیسے پورے ہونگے؟ اس کے لیے ان کو قونصلیٹ میں ملازمت دی جائے گی۔
جی کچھ بات سمجھ میں آرہی ہے؟؟ کہاں تو عوام کو خوشخبریاں سنائی جارہی تھیں ملالہ کی صحت یابی کی اور کہاں یہ کہ اس کو دو سال کا عرصہ لگے گا۔ ایک طرف تو کہا جارہا ہے کہ پوری دنیا میں اس کے لیے محبتیں ہیں، اس کے لیے چیرٹی فنڈ قائم کردیا گیا رضاکارانہ طور پر اس کو علاج کی پیش کش کی جاتی ہے دوسری جانب اس کے والدین کے اخراجات اٹھانے کو کوئی تیار نہیں ہے، ہے نا حیرت کی بات!
پھر اگر اخراجات ہی کا مسئلہ ہے تو جناب من برطانیہ نے جہاں اتنے قربانی دی ہے تو کیا اس کے والدین کا اخراجات نہیں برداشت نہیں کرسکتا؟؟ اس کے علاوہ اگر ان کو ملازمت ہی دینی ہے تو کیا پورے برطانیہ میں ان کے لیے کسی معقول ملازمت کا بندو بست نہیں ہوسکتا ، کیا وہاں موجود پاکستانی کمیونٹی اور بڑے بڑے پاکستانی بزنس مین کیا ملالہ کے والدکے لیے کسی ملازمت کا انتظام نہیں کرسکتے ؟؟ ملالہ کے والد ایک بڑا سکول اور کالج چلاتے ہیں کیا ان کے لیے وہاں ملازمت ملنا کوئی مشکل مرحلہ ہوتا بالخصوص ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے؟؟ یقینقاً ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین صاحب کو قونصلیٹ میں ملازمت کی پیش کش کی جارہی ہے اور وہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ ایڈمنسٹریٹر کی ملازمت کی آفر کی گئی ہے اور بہت جلد وہ وہاں بطور ایڈ منسٹریٹر یعنی منتظم اعلیٰ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
ضیاء الدین صاحب کو پاکستانی قونصلیٹ میں ملازمت دینا در اصل ان ساری باتوں اور شکوک کو تقویت دیتا ہے کہ وہ مغربی لابی کے آلہ کار ہیں، انہوں نے اپنے مفادات کے لیے اپنی بیٹی کو استعمال کیا اور اس کی جان کو خطرے میں ڈالا، انہو ں نے ہی اپنی بیٹی کی ملاقات امریکی نمائندے گراسمین سے کرائی، بی بی سی کے نمائندے سے بھی انہوں نے ہی اپنی بیٹی کو ملوایا اور بی بی سی کے سوات میں موجود اس نمائندے نے ہی مبینہ طور پر ملالہ کی مشہور ڈائری لکھی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی اس خدمت کے صلے میں اب ان کو قونصلیٹ میں ملازمت دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ایک جانب تو ان کا برطانیہ میں رکنے کا جواز پیدا کیا جاسکے دوسری جانب قونصلیٹ میں اپنا ایک آدمی داخل کیا جاسکے تو کہ وہاں ہونے والی ساری سرگرمیوں کی نگرانی کرے اور اپنے آقاؤں کو اس کی رپورٹ پیش کرتا رہے۔
مجھے ملالہ یوسف زئی سے ہمدردی ہے کہ اس کے والد ہی اس کے دشمن ہیں جو کہ اپنے مفادات کے لیے اس کو استعمال کررہے ہیں اور انہوں نے ہی اس کی جان کو خطرے میں ڈالا،ملالہ پر گولی تو دہشت گردوں نے چلائی اب خواہ وہ دہشت گرد طالبان ہوں یا کوئی اور لیکن ملالہ کو دہشت گردوں کے نشانے پر لانے والے اس کے والد اور اس کے بعد ہمارا میڈیا ہے۔ ذرا سوچیے!
ابھی تک تو ان کے سارے اقدامات ان کی توقع کے مطابق چل رہے ہیں لیکن آگے یقینا ان کی پکڑ ہو گی کہ غداروں کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوا۔
ایک بچی پر حملہ ہوا بہت بری بات ہے اور غلط کام ہے قوم کو اس کا بہت احساس ہے-
مگر قوم کو شاید یہ احساس نہیں ملالہ پر حملہ تو صرف لڑکیوں کے اسکول جانے یا نہ جانے کا مسلہ تھا ادھر تو حکومت نے ایسا انتظام کیا ہے کہ لڑکیاں تو کیا لڑکوں کی تعلیم کا بھی جنازہ نکال دیا-
جعلی ڈگریوں والے بے غیرت وزیر؛ HEC بند کرانے کی پوری کوشش ؛ باہر پی ایچ ڈی کے لیے جانے والوں کی اسکالرشپ بند؛ گھوسٹ اسکولوں کی بڑی تعداد ؛ ڈگریاں چیک کرانے پر ا عتراز ؛ سب لیڈرون کے بچوں کا باہر کے اسکولوں میں پڑھانا ؛ اور استادوں کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے-
کیا تعلیم کے خلاف کسی طالبان کے حملے کی ضرورت ہے؟
ہماری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم سرسوں کے بیج سے کھوپرے کا تیل نکالنے کے ماہر ہیں۔غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔
Allah Pak hamari Awam ko Shaoor Ata Farmaye k Wo Sach ko Samajh Saken.
بھت خوب جی ما شا اللھ