کراچی میں یو ں تو قتل و غارت گری اب معمول کی بات بن گئی ہے ۔ روز کے دس سے پندرہ افراد کا قتل اب اس قدر عام ہوگیا ہے کہ نیوز چینلز کے لیے اب اس میں کوئی کشش نہیں رہ گئی ہے اور اب اتنے افراد کے قتل کی خبریں بلیٹن میں عام انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ قتل و غارت گری تو اپنی جگہ لیکن اب کراچی میں مزید خونریزی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، اور کراچی میں خانہ جنگی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔
اس کی ابتداءملالہ یوسف زئی پر طالبان کے مبینہ حملے کے بعد ہوئی ہے۔ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے مبینہ حملے کے بعد میڈیا نے ایک عجیب و غریب ماحول بنادیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ملالہ پر حملہ ہی ہے۔ ( ملالہ پر حملے کا ڈرامہ تو آہستہ آہستہ بے نقاب ہوتا جارہے )۔ خیر ملالہ پر حملے کے بعد سیکولر لابی نے ایک طوفانِ بد تمیزی مچا دیا، کیا میڈیا، کیا نام نہاد حقوق انسانی کی غیر سرکاری تنظیمیں،کیا سرکاری مشینری اور کیا سیکولر لابی سب نے اس موقع پر اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا لیکن متحدہ کے قائد الطاف حسین نے سب سے بڑھ کر اس میں شور مچایا اور انہوں نے ایک قدم بڑھ کر یہ کہا کہ تمام آئمہ مساجد لازماً ملالہ پر حملے کی مذمت کریں اور جو کوئی ایسا نہ کرے گا تو اس کی فہرست مرتب کی جائے گی۔ یہ بیان صریحاً انتہا پسندی، دہشت گردی اور آئمہ مساجد کو کھلی دھمی تھی لیکن میڈیا اور حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، انہوں نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان اور مسلمانوں کے بجائے یہود نصاریٰ کے ساتھی ہیں انہوںنے اپنی ایک تقریر میں غازی علم دین شہید کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ غازی علم دین شہید کے بارے میں توہین آمیز الفاظ پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام ہی سیاسی و سماجی تنظمیں اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتیں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا البتہ مذہبی جماعتوں نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔
اس کے فوری بعد الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو آئمہ کرام کی فہرستیں مرتب کرنے کا حکم دیدیا اور آئمہ کرام کے بارے میں سروے کرکے ان کی فہرستیں مرتب کی جارہی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین نے کس اتھارٹی کے تحت یہ کام شروع کیا؟؟ ان کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ذاتی یا کسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ کوئی حکم جاری کریں؟؟ کیا یہ آئین و قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟؟ اور کیا یہ بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی نہیں ہے؟؟ کیا میڈیا کی نظر سے یہ باتیں نہیں گزری ہیں؟؟ اگر طالبان یا کوئی اور گروہ اگر سوات یا وزیرستان میں ایسا ہی کوئی حکم جاری کرتے تو اس وقت میں یہ سارا میڈیا، سرکاری مشینری، نام نہاد این جی اوز خاموش رہتیں؟ جان کا خوف اور مال کا لالچ لوگوں کے ایمان کو کمزور کردیتا ہے اور لوگ شہادت حق کو چھپاتے ہوئے جھوٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔
بہر حال الطاف حسین کے ان اقدامات سے آئمہ مساجد اور دینی حلقوں میں ایک بے چینی پائی جاتی تھی، اب الطاف حسین نے ایک اور شوشہ چھوڑ دیا اور اب انہوں نے ایک ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا کہ عوام کو کس کا پاکستان کا چاہیے ؟؟قائد اعظم کا یا طالبان ! بظاہر تو یہ بڑی اچھی بات کہ کسی بھی قومی مسئلے پر عوامی ریفرنڈم منعقد کرکے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔ میں خود اس بات کے حق میں ہوں کہ پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بننا چاہئے (اور اس حوالے سے اپنے مختلف بلاگز میں یہ بات وضاحت سے پیش کی ہے اور ایک مضمون ” ہمیں قائد اعظم کا پاکستان دیدو “ بھی تحریر کیا تھا) لیکن یہاںپھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور تحریک پاکستان کے وقت ” پاکستان کا مطلب کیا ! لا الہ الا اللہ “ کے نعرے نے بر صغیر کے مسلمانوں کو متحد کردیا تھا ۔ لیکن سیکولر لابی ان کی تقریر کے ایک جملے کو لیکر یہ بات کہتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔
الطاف حسین بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے ہیں جن کے نزدیک قائد اعظم محمد علی جناح صاحب سیکولر تھے ، اب ظاہرسی بات ہے کہ عوام تو یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور دو قومی نظریہ اس کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے وہ لا محالہ یہی کہیں گے کہ ہمیں طالبان کا نہیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جبکہ سیکولر لابی ریفرنڈم کے ان نتائج کو اپنے حق میں اپنی سوچ کے مطاب استعمال کرے گی اور اس کے نتیجے میں ملک میں مزید انتشار اور افراتفری پیدا ہوگی۔
دوسری جانب یہ بھی ہے کہ الطاف حسین اور دین بیزار طبقے کے نزدیک اسلام پر عمل کرنے والے تمام ہی لوگ طالبان ہیں، خواہ وہ کوئی داڑھی رکھنے والا مرد ہو یا پرہ کرنے والی عورت ان کے نزدیک یہ سب رجعت پسند اور طالبان ہیں ۔ اس لیے اس ریفرنڈم کی آڑ میں تمام ہی دینی طبقوں کو نشانہ بنایا جائے گا جبکہ الطاف حسین اس ریفرنڈم اور طالبان مخالف مہم کے ذریعے سب سے پہلے اپنی مخالفین اور دینی سیاسی جماعتوںکو نشانہ بنائیں گے ، اس کے بعد کراچی پر بلا شرکت غیرے اپنا حق جتانے کے لیے اے این پی اور پختون آبادی کو اپنے نشانے پر لائیں گے ، اور اس کے بعد دیگر مذہبی غیر سیاسی جماعتوں کو ٹھکانے لگایا جائے گا۔ یہ دراصل ایک گہری منصوبہ بندی کے بعد تشکیل دیا گیا پلان ہے اور اس کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کیے جائیں گے۔
ادھر تحریک طالبان پاکستان نے اپنے خلاف ریفرنڈم کے انعقاد کے رد عمل میں متحدہ کو مرتد اور ظالم جماعت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ایک بہت سنگین اعلان ہے۔ اس کے نتیجے میں فسادات کا انتہائی خدشہ موجود ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ متحدہ اور الطاف حسین طالبان کی آڑ میں پختون آبادی اور اے این پی کو نشانہ بنائیں گے تو خدشہ ہے کہ کراچی میں مزید قتل و غارت گری بڑھ سکتی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے لسانی بنیادوں پر ووٹ لیکر عوام کو بیوقوف بنایا، اس کے بعد متحدہ کے نام پر ووٹ لیکر عوام کا استحصال کیا ، اور گذشہ بیس سالوں میں انہوں نے عوام کو سوائے قتل و غارت گری کے کچھ نہیں دیا ہے۔ عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیںکہ ایم کیو ایم در اصل مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو کہ ہرحال میں اقتدار میں رہنے کو مقدم سمجھتا ہے اور یہ عوام کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ بات متحدہ کے قائدین بھی اچھی طرح جانتے ہیں اس لئے اب انہوں نے ”بین المذاہب ہم آہنگی “ اور ایک ”امن پسند قائد “ کے طور پر الطاف حسین کی شخصیت کو پیش کرنا شروع کیا ہے تاکہ اب عوام کو اس طریقے سے بیوقوف بنایا جاسکے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور اس کی حفاظت فرمائے بالخصوص کراچی کے لوگوں کو مفاد پرستوں سے نجات دلائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بنائے وہ پاکستان جس کی شہہ رگ کشمیر ہے، وہ پاکستان جو کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا نہ کہ امن کی آشا والا پاکستان۔
اللہ حق گوئی قبول کرے اور اجر عطا کرے!
کراچی سے اس منحوس جماعت کا پتہ صاف ہو جس نے 27 سال سے کراچی کو یر غمال بنا رکھا ہے ۔