کیا جماعت اسلامی نے پرویز مشرف کی حمایت کی ؟
جماعت اسلامی اور جنرل پرویز مشرف کے تعلقات کے بارےبلعموم لوگ اوربلخصوص میڈیا اعتراض کرتا رہتا ہے جس کو بنیاد بنا کر جماعت اسلامی کو آمروں کی حامی جماعت ہونے کا اضافی الزام بھی دیا جاتا ہے اس بلاگ میں، میں آپ کو کسی لفظی دلیل و برہان سے یہ رابطے اور تعلقات نہیں سمجھاؤں گا بلکہ مطمع نظر یہی رہے گا کہ حقائق اور ثبوت آپ کے سامنے رکھیں جایئں اور آپ محسوس کریں کہ جماعت اسلامی کیا واقعی مورد الزام اور شریک جرم ہے یا ہم محض کسی مخالفانہ پراپگنڈہ کا شکار ہیں کیوں کہ پاکستانی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ یہاں بغیر کسی تحقیق کےپراپگنڈہ مہم آگ کی طرح پھیلتی ہے اور جنگل کی طرح دل و دماغ پر جڑ پکڑ لیتی ہے پھر اسی کو ہم اپنے مخالفین کی مخالفت کے لیے ایک خوبصورت ٹول سمجھ کر اپنے ہاتھ کی گانی بنا لیتے ہیں جب کہیں ٹکرا ہو جاۓ تو پلک جھپکتے ہی اس کا استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں
آئیے اس الزام کو حقائق کی کسوٹی پر رگڑتے ہیں
١٣ اکتوبر ١٩٩٩ : پرویز مشرف کے اقتدار کا پہلا دن
یہ وہ دن تھا جب پاکستان آسمان سے گرا اور کھجور پر اٹک گیا ١٣ اکتوبر ١٩٩٩ کو جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا یوں وہ ١٧ اکتوبر ١٩٩٩ کو اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ٹھہرے لیکن ملک بھر میں ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی بلکہ بہت سی آوازوں نے اس اقدام کو سر آنکھوں پر رکھ کر اس غاصب جرنیل کی حمایت کا بھی اعلان کیا، الحمد للہ جماعت اسلامی نے اس وقت بھی پرویز مشرف کی حمایت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا
پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے میں کارگل جنگ کا کردار بہت واضح تھا بلکہ بنیادی وجہ قرار دیا جاتا ہے
http://en.wikipedia.org/wiki/Pervez_Musharraf
جماعت اسلامی تب بھی اور آج بھی کارگل جنگ پر اپنے تحفظات رکھتی ہے کیوں کہ اس جنگ کی ناکامی کے ذمہ دار جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف ہی ہو سکتے ہیں لیکن تاحال قوم اس حقیقت کو نہیں جان سکی
http://www.saeedshafqat.com/articles…l_conflict.pdf
دسمبر ١٩٩٩ : بھارتی طیارہ ہائی جیک
چونکہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی عمر ابھی تین ماہ بھی نہیں ہوئی تھی اور ملک میں جماعت اسلامی جیسی موثر سیاسی جماعت کی مخالفت حالات کا سکون بدل سکتی تھی اسی لیے بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعدانہوں نے صرف جماعت اسلامی کی مخالفت کی وجہ سےجہادی تنظیموں کے خلاف امریکی احکامات پر عمل درآمد سے انکار کر دیا
اگرچہ کافی عرصہ بعد میں اقتدار کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ انہوں نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا لیکن یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ مشرف حکومت کے خلاف پہلا روڑا جماعت اسلامی ہی کی طرف سےاٹکانے کا خطرہ تھا
http://en.wikipedia.org/wiki/Pervez_Musharraf
سترویں ترمیم اور جماعت اسلامی
جماعت اسلامی نے ٢٠٠٢ میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا جس میں دو مین پارٹیز تھیں پہلی جمیعت علماء اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمنٰ گروپ اور دوسری جماعت اسلامی پاکستان ، اس اتحاد میں جمیعت علماء اسلام عددی اعتبار سے غالب تھی اور چونکہ جمہوری طریقہ سے مسائل کو ڈسکس کیا جاتا اور راۓ مانگی جاتی تھی اسی لیے فیصلہ سازی میں بھی اس کا پلڑا بھاری رہتا تھا
٢٠٠٣ میں مسلم لیگ ق اور ایم ایم اے کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس سے آئینی ڈیڈ لاک ختم ہوا اس معاہدہ کے نتیجے میں پرویز مشرف اپنی ہٹ دھرمی سے ہٹ کرایک ڈیل پر راضی ہوا جو اس طرح تھی کہ جنرل پرویز مشرف کومدت صدارت مکمل کرنے دی جاۓ گئی اور وزیراعظم کی معطلی کا اضافی اختیار دیا جاۓ گا اس کے بدلے میں پرویز مشرف کو اصل طاقت ” فوجی عھدہ” سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور ٣١ دسمبر ٢٠٠٤ کو فوج سے سبکدوش ہو جایئں گے
http://storyofpakistan.com/seventeenth-amendment-2003/
لیکن پرویز مشرف ١٣ دسمبر ٢٠٠٤ کو قوم اور ایم ایم اے سے کئے گئے وعدے سے صاف مکر گئے اور کہا کہ آج کل وعدوں پر کون عمل کرتا ہے
http://en.wikipedia.org/wiki/Pervez_Musharraf
پرویز مشرف کی اس وعدہ خلافی پر جماعت اسلامی نے بھرپور احتجاج کیا اور بتایا کہ تین اعلی حکومتی عہدہداروں میر ظفر اللہ خان جمالی ، چودھری شجاعت حسین اور ایس ایم ظفر ایڈووکیٹ کے ساتھ ایم ایم اے کے تین ارکان مولانا فضل الرحمٰن ، لیاقت بلوچ اور حافظ حسین احمد کی موجودگی میں یہ طے پایا تھا کہ پرویز مشرف وردی اتار دیں گے
http://archives.dawn.com/2004/11/17/nat2.htm
اس کے باوجود جماعت اسلامی نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور پوری قوم سے معافی مانگی لیکن یہ معافی جس تناظر میں تھی وہ خاطردر خیال رہے اور امیر جماعت اسلامی پاکستان اور ایم ایم اے کے سربراہ قاضی حسین احمد کے الفاظ ملاحظہ کریں
” ہم نے جو قدم اٹھایا پوری ایمان داری سے اٹھایا پرویز مشرف نے پوری قوم کے سامنے ٹیلی وژن پر یہ وعدہ کیا کہ وہ دو عہدوں میں سے ایک سے دستبردار ہو جایئں گے ، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ وعدہ خلافی کریں گے لیکن اس نے ہمارے خیال کو غلط ثابت کیا
اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے اس پر اعتماد کیا اس سلسلے میں ہم پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگتے ہیں
“
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=20075\15\story_15-5-2007_pg7_39
اس معاملے میں جماعت اسلامی کی شراکت مزید اس وقت دکھائی دیتی ہے کہ کتنی کم تھی جب مولانا فضل الرحمٰن نے قاضی حسین احمد کی معافی سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم بحیثیت ایم ایم اے کوئی معافی نہیں مانگتے بلکہ پرویز مشرف کو چاہیے کہ وہ وعدہ خلافی پر معافی مانگے
http://www.paktribune.com/news/print.php?id=178964
اور آخر میں اس آمر کے اپنے الفاظ کہ جس میں وہ جماعت اسلامی سے اپنے تعلقات قوم کے سامنے پیش کر دیتا ہے
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں
<iframe width=”420″ height=”315″ src=”http://www.youtube.com/embed/_5iU-6-NZhg” frameborder=”0″ allowfullscreen></iframe>
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مشرف پرویز کی حمایت ایم ایم اے نے کی بلکہ اس کے بدلے اسے سرحد میں حکومت بھی ملی اور اس حکومت کے مزے چار سال تک لوٹے. نہ وہاں اسلام نافذ ہو سکا اور نہ ہی صوبے کی حالت بدلی. ایم ایم اے پرویز مشرف کی وعدہ خلافی کے باوجود صوبائی حکومت سے علیحدگی اختیار نہیں کی.
یہ بھی سچ ہے کہ جماعت اسلامی نے اس سے پہلے فوجی عامر جنرل ضیاالھق کا بھی ساتھ دیا اور شروع میں اس کی حکومت میں بھی وزارت کے مزے لوٹے.
مر نہ جاؤں تیری سادگی پر ، ایم ایم اے نے مشرف کی حمایت کی اور بدلے میں سرحد حکومت ملی 🙂 سب باتیں ایک طرف بس یہ بتا دیں ایم ایم اے کی سرحد حکومت کب بنی اور ایم ایم اے نے مشرف کی مدد کب کی ؟ ( اگرچہ وہ مدد نہیں ناکام معاہدہ تھا )
عمدہ تحریر ہے اور کافی محنت کی گئی ہے۔
محترمہ جماعت پر الزام ضیاع الحق کی حمائت کا بھی ہے. مشرف کی حمائت میں دراصل مشرف نے ان کو بےوقوف بنایا لیکن اس سے ذیادہ بے وقوف ان کو مولانا ڈیزل نے بنایا جو درپردہ حکومت سے ملے ہوے تھے . دویم ایم ایم اے کی سرحد حکومت نے کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی. موجودہ قیادت میں تو خیر جماعت شائد ہی اوپر آ سکے
خبر آئی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی تحریک تحفظ پاکستان نے جماعت اسلامی سے اتحاد کا عندیہ دیا ہے پچھلے دنوں عمران خان بھی جماعت اسلامی کی شفافیت اور ایمانداری کی گواہی دے چکے ہیں – کیا حق و صداقت پر پاکستان کے تحفظ اور نظام عدل و انصاف کے قیام کے لیے جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے ؟
جی ہاں
ہم ہی ہیں
امید ان سب رہنماؤں کی بھی جو پاکستان کی فلاح اور ترقی چاہتے ہیں
کیوں کہ
ہم ہی ہیں
امید ، تبدیلی ، عوامی اور انقلابی
آئیے ہمارا ساتھ دیں
جماعت اسلامی پاکستان
جی نہیں آپ نہیں ہیں آپ آزمائے ہوئے ہیں خیبر میں آپ کچھ نہ کر سکے تھے آپ کو اک ڈیزل ہی چکر دینے کو کافی ہے!
السلام علیکم
دیکھئے احمد بھائ ،حدیث کے الفاظ ہیں کہ
”مؤمن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا”
تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ مؤٰمن ڈسا تو جا سکتا ہے مگر بار بار نہیں، اب جماعت اسلامی بھی ایک دفعہ مولانا سے ڈسی گئ اور ایک دفعہ مشرف سے۔ ۔
اور یہ ازل سے ہوتا آیا ہے اچھے لوگ برے لوگوں کے ہاتھوں یونہی ڈسے جاتے ہیں ہابیل بھی قابیل کے ہاتھوں ڈسا گیا تھا-
یہ مؤمن جماعت ہے اور انشاءللہ اسکی فراست اسکو دوبارہ اسی سوراخ سے نہیں ڈسنے دے گی-