یہود و نصاریٰ کی اس سرشت سے تاریخ کبھی انکار نہیں کر سکی کہ وہ امت مسلمہ کوکبھی بھی برداشت نہیں کرتے اسی لیے جب بھی انہیں موقع ملا ظلم و ستم اور بربریت کی تاریخ رقم کی – اوائل میں انسان کی جنگجو اور اجڈ ذہنیت کو اس کا ذمہ دار کہا جاتا رہا لیکن آج کی مہذب ، تعلیم یافتہ اور انسانیت دوست رویہ سے معموردنیا کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنی نا قابل تصور سائنسی ، تہذیبی اور عقلی بلندیوں کے باوجود اسلام دشمنی سےاٹے ہوۓ ہیں بعین جیسے ماضی کے جاہل اسلام سے نفرت کے جذبات رکھتے تھے – اس حقیقت کو دلائل و براہین سے خواہ کتنا ہی جھٹلایا جاۓ یا الفاظ و تقریر کے دبیز مخملیں پردوں سے چھپایا جاۓ ہرگز نہیں چھپ سکتی خود اللہ تعالیٰ ہمیں ذہن نشین کرواتا ہے
وَلا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ ط
اور یہ لوگ (کافر) تم سے جنگ کرتے رہیں گے حتیٰ کہ اگر قابو پا لیں تو تمہیں دین سے ہی منحرف کر دیں –
ابھی چند دن ہوۓ کہ وحشت و بربریت کا ایک سیاہ باب غزہ کی فلک شگاف چیخوں ، کربناک آہوں ، سسکتی ننھی جوانیوں اور تڑپتی لاشوں سے رقم ہوا ہے ، اسرائیل کا درندہ نما چہرہ مسلمان دشمنی سے پھر سرخ ہوا ہے اس منظرنامے میں اسرائیل کو امریکہ کی مسلسل حمایت نہایت اہمیت کی حامل ہے جسے غزہ معاملے پر ہر چھ گھنٹے کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے غزہ پر سفاک حملے کے فورا بعد اسرائیلی وزیر خارجہ کا واشنگٹن کو فون کئی سوال پیدا کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام کے خلاف جنگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ لڑی جا رہی ہے اسرائیل کے غزہ پر قہر کے ساتھ ساتھ امریکی ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا یہ بیان بھی چلتا رہا کہ ترکی ، مصر اور کچھ یورپی دوستوں کے مل کر حماس پر دباؤ بڑھایا جاۓ گا کہ وہ جہاد کا راستہ ترک کر دے لیکن مقام شرم ہے امن کے عالمی دعویداروں پر جو اسرائیلی سفاکیت کی مذمت تو نہیں بلکہ حمایت کرتے ہیں –
چلیں باطل قوتوں پر کیسی امید ، یہاں آزادیوں اور رعنائیوں سے بہرہ مند پاکستانی مسلمانوں کا رد عمل حسب معمول جیسے گستاخ خاکوں پر،قرآن پاک جلانے پر، روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر یا اسلام کے خلاف شر انگیز فلم پر-
سوچتا ہوں ہماری کیفیت بالکل ایک اسپرنگ کی ہو چکی ہے دشمن اپنی حشر سامانیوں سے ہمیں دباتا ہے تو ہم چند لمحوں کے لیے چیختے چلاتے ہیں ،اسلام پسندوں اور لبرلز کی چھڑپیں ہوتیں ہیں ، میڈیا کی بے حسی کا ماتم الاپتے ہیں، حکومت کی خامشی کو پیٹتے ہیں ، تصویریں دیکھتے اور دکھاتے ہیں تھوڑے دن گزرتے ہیں کہ یہ نوحہ کناں اسپرنگ پھر خابیدہ حالات کی طرف لوٹ جاتا ہے اور باطل پھر اس تماشے کو دیکھنے کےلئے اپنے عزائم کے اسباب پیدا کرنے لگتا ہے
ٹھہرئیے اپنی بے بسی کا رونا مت روئیے، “ہم اور کر ہی کیا سکتے ہیں ” کہہ کر مایوس نہ ہوں، میرا مقصد آپ کے جذبات کو برانگیختہ کر کے کسی پر تشدد راستےکے بارے سوچنے پر مجبور کرنا نہیں یہ نازک وقت ضرور ہے لیکن عقل و خرد سے کام لینے اور سوچوں کو بدلنے کا وقت ہے کیوں کہ جو بھی عقل کو چھوڑ کر جذبات میں بہا، ناکام رہا اور قہر زمانہ کا شکار ہو گیا
میں آپ کوان تلخ حالات میں غزہ کے آس پاس عرب بہار میں لیے چلتا ہوں جس کے بارے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس کو مغرب کی بھرپور تائید حاصل ہے آمریت کے جنازوں کے بعد ہونے والے الیکشن میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے نتیجے میں یہ بہار، بہار فروزاں بنی اور اسے اسلامی بہار کا نام بھی دیا گیا باوجود اس کے ان اسلام پسندوں کی کامیاب حکمت عملی تھی یا اپنی چادر کا تقاضا کہ مغرب کو اپنے سامنے نہیں آنے دیا لیکن اس اسرائیلی جارحیت پر کھل کر سامنے آ گئے مصر نے کہا کہ اب اسرائیل کا فلسطین پر ظلم برداشت نہیں کیا جاۓ گا ، ترکی نے اعلان انتقام کیا اور مراکش نے اسرائیل کے خلاف مصر اور ترکی کی پیروی کی اس شدید ردعمل کے بعد مغرب بوکھلا گیا ہے اسے شک پیدا ہو گیا ہے کہ یہ اسلامی تحریکیں کہیں ” تقیہ ” تو نہیں کیے بیٹھیں ؟ ٹیلی گراف نے غزہ پر حملے کے ردعمل پر عرب بہار کو اصل خطرہ قرار دیا اور تسلیم کیا کہ اس انقلاب کو ” انڈر ایسٹیمیٹ ” کیا گیا ہے اس جوابی طرز عمل کے ساتھ مسلم امہ کے عالمی سطح پر یکسو ہونے کے لیے پاکستان کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا کیوں کہ پاکستان کی عالمی اور مسلم ممالک میں حثیت مقدم ہے اسی سلسلے میں مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی نے پاکستانی وزیراعظم کو فون بھی کیا لیکن کون اندازہ نہیں لگا سکتا کہ دہلی ہنوز دور است ….!!! ایسے میں اس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ اپنے وجود کے ساتھ کھڑا ہو سکے گا پاکستانی قوم کا کردار یہیں سے شروع ہوتا ہے جذباتی رد عمل کے بجاۓ کسی حل کی جانب بڑھنا پاکستان کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کا احساس روز بروزشدید ہوتا جا رہا ہے جب میں اپنے گرد و پیش لوگوں میں ڈاکٹر مرسی ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو بہت مشکل محسوس ہوتی ہے لوگوں کی ایک امید، ڈاکٹر مرسی بننا چاہتی ہے لیکن ڈاکٹر مرسی جیسا نہیں بننا چاہتی ایسے میں حالیہ دنوں ایک تصویر دیکھ کر حیران ہوا عرب کے اسلام پسندوں میں ایک پاکستانی شخصیت بھی دیکھنے کو ملی مجھے شک تو پہلے بھی تھا کہ مرسی یہیں سے پیدا ہو گا لیکن اخوان کے مرشد عام ، تیونس کی النھزہ کے سربراہ ، سوڈان اور مراکش کے اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں کے ساتھ ایک پاکستانی پارٹی کے رہنما کو دیکھ کر یقین ہو چلا ہے کہ وہ سب بھی میدان میں اسی شخصیت کا انتظار کر رہے ہیں پاکستانی قوم کا جواب یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ وہ اس شخصیت کو پا لے کیوں کہ امت کا روشن مستقبل آپ کے انتظار میں ہے یہ وقت عقل و خرد سے کام لینے اور سوچوں کو بدلنے کا وقت ہے محض تنقید براۓ تنقید کو چھوڑئیے یہ ملک کی خدمت ہے نہ کار ثواب بلکہ میرے پیارے بھائی اختر عباس کہتے ہوتے ہیں کہ لڑنے والے لڑتے ہی رہ جاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان کے پاس مشکلات سے لڑنے کا جذبہ تو دور کی بات بڑا خیال اور بڑی سوچ بھی نہیں ہوتی – پس سوچئے وہ شخصیت آپ کے درمیان موجود ہے
پرانی بات ہے واقعہ راولپنڈی چھاؤنی کا ہے ۔ سڑک پر بھیڑ لگی ہے ۔ ایک جوان بائیسائیکل سوار اپنے بائیسائیکل سے اُتر کر جھانکتا ہے ۔ ایک دس بارہ سالہ لڑکا سڑک پر پڑا ہے اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا ہے یوں لگتا ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے ۔ ارد گرد کھڑے لوگوں میں کوئی ٹکر مارنے والے کو برا کہہ رہا ہے کوئی حکومت کے خلاف بول رہا ہے کوئی ہسپتال کے ناقص انتظام کا رونا رو رہا ہے ۔ وہ جوان سن ان سنی کر کے لڑکے کی طرف بڑھتا ہے ۔ اسی طرح دوسری طرف سے ایک مرد آگے بڑھتا ہے ۔ دونوں لڑکے کو اۃٹھا کر ایک ٹنگے میں دالتے ہیں مرد اسے ہسپتال کی طرف لے جاتا ہے اور جوان اس لڑکے کے گھر اطلاع دینے روانہ ہو جاتا ہے ۔ لوگ اسی طرح تقریریں جھاڑ رہے ہیں
جناب چار دہائیوں میں فرق یہ پڑا ہے کہ تقریریں کرنے والے بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور اس جوان اور مرد جیسے خال خال ہی رہ گئے ہیں
نا امیدی کفر ہے! پاکستان کی طرف دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ اس خطے اور پوری دنیا پر اثر انداز ہو نے والی قوم یہیں رہیتی ہے اور وہ جماعت بھی جس کے بانی کے لٹریچر نے پو ری دنیا میں حق خود ارادیت کی روح پھونکی ، جہاد کی عملی اشکال واضح کیں ۔ یہ جماعت ییعنی جماعت اسلامی آج بھی حوصلہ مندی سے کھڑی ظلم کے خلاف نعرہ بلند کر رہی ہے ۔ لوگوں کو چاہپئے کہ اپنی قوت اس کے پلڑے میں ڈا ل کر حق گوئی کا مظا ہرہ کریں ۔پھر دیکھیں کیسے دنیا کا رنگ بدلتا ہے ۔ان شا ائللہ