پاکستانی قوم کو مایوسی ، بداعتمادی، بے یقینی ، بد دیانتی ، بے حسی ، دہشت گردی اور لاقانونیت جیسی مہلک بیماریوں نے انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، آج اپنی حالت زار دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ کیا ہم اسی ملت کی نسل ہیں جس کے آباءو اجداد نے اپنے پاؤں میں تاج سردارا کچل ڈالا تھا – گلیاں اور بازار بے ایمانی سے بھرے ہوۓ ہیں ، اسکول اور کالجز بے حیا روشن خیالی سے “فروزاں ” ہیں ہمارے دفتر وں میں کرپشن کے نت نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں ، ایوان پارلیمنٹ میں دیکھیں تو حکومتی ممبران ہر حکومتی اقدام کی تعریف میں رطب السان ہیں جبکہ اپوزیشن کا کام آنکھیں بند کر کے تنقید کی چھڑی ہلاتے رہنا ہے یہ سوچ ہماری سیاست پر حاوی ہے نواز شریف ہو یا عمران خان ، آصف علی زرداری ہو یا اسفند یار ولی ، الطاف حسین ہو یا شجاعت حسین سب کے سب ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر زبانیں کھولے بیٹھے ہیں دراصل ہم دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں پر اپنی سیاست استوار کرنے کے عادی ہو چکے ہیں کاش یہ اپنی اچھائیوں پر سیاست کر سکتے یہی رویہ ہماری انفرادی زندگی میں بھی جاری ہے ہم سوچے سمجھے بغیر دیکھے اور جانے بغیر اپنے مخالف کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہر فقرہ اور نقطۂ کی مخالفت اپنے اوپر فرض سمجھ بیٹھتے ہیں
لیکن اس قحط الرجال میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنی اچھائیاں بانٹنے پر یقین رکھتے ہیں میاںمحمد اسلم اسلام آباد کی ہر دل عزیز شخصیت ہیں جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں آج انھوں نے اسلام آباد کے فاطمہ جناح پارک (ایف -نو ) میں ” اسلام آباد فیسٹیول ٢٠١٢ ” کے نام سے ایک خوبصورت سے بستی آباد کی –
اسلام آباد کے کمرہ بند شہریوں کے لیے صاف ستھرے ماحول میں اس فیسٹیول کا انعقاد ایک مثبت اور صحت مندانہ سرگرمی تو تھی ہی لیکن ایک بار پھر جماعت اسلامی نے اپنا خوبصورت چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے – ہر طبقہ فکر ، ہر حلقہ احباب اور ہر عمر کے فرد کے لیے سجائی گئی اس بستی میں اسکول کے بچوں اور بچیوں ، کالج یونیورسٹی کے لڑکوں اور لڑکیوں اور مدارس کے طالبان ، ہر وضح قطح کے مردوں اور عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کا ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملا – بھانت بھانت کے لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا وہ سب چند لمحے یادگار بنانے آئے تھے کوئی بدتہذیبی اور بد اخلاقی نہیں تھی کیوں کہ انتظامیہ نے ایسا ماحول ہی ترتیب نہیں دیا تھا یوں اتوار کے دن پورا اسلام آباد ، فاطمہ جناح پارک میں سما جانا چاہتا تھا –
بلاشبہ اسلام آباد فیسٹیول ٢٠١٢ کے انعقاد پر جماعت اسلامی مبارک باد کی مستحق ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے اجڈ، تفریح مخالف ، آرٹ دشمن اور مولویانہ جیسے الزامات کو دھو ڈالا ہے اس سرگرمی کے روح رواں میاں محمد اسلم اور چیف آرگنائزر زبیر فاروق خان لائق تحسین ہیں جن کی شبانہ روز محنت سے اسلام آباد کے شہریوں کو مایوسی اور بے یقینی کے حالات میں کھیل اور مقابلے کی مثبت سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا –
يہ کيا؟ عورتوں اور مردوں کا کھلا اختلاط؟ جماعت اسلامی اب عوام ميں پذيرائی کے ليئے لبرلزم کا ڈرامہ رچا رہی ہے؟ مولوی ڈرامہ فيل ہوگيا؟
ايسے فيسٹيولز تو پاکستان بھر ميں ہوتے رہتے ہيں اس ميں خاص بات کيا ہے؟ يہ آئيڈيا بھی جماعتيوں نے لبرلز سے چرايا ہے اس اس پہ اترا بھی رہے ہيں-
ویسے حسن بھائی مجھے کیسی ایسے فیسٹول کا لنک دینا پسند کریں گے جس کو لبرلز نے آرگنائز کیا ہو ؟
http://www.facebook.com/photo.php?fbid=341157225922938&set=a.196978210340841.46920.196947507010578&type=1&theater
جماعت اسلامی کا نظریہ اسلام سمجھنے کے لیے مولنامودودی کی فکر کو سمجھیں
ہم بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی کنفیوزڈ قم بن چکے ہیں،وہ ایک حکایت یاد دلانا چاہوں گا‘‘ایک میاں بیوی ایک گدحے کے ساتھ ساتھ پیدل چلے جا رہے تھے کسی نے دیکھ کے کہ دیا کتنے بیوقوف ہیں گدھے کے ہوتے ہوے بھی پیدل جا رہے ہیں،دونوں گدھے پہ سوار ہو گیے،پھر کسی نے اعتراض کیا کتنا ظلم ہے گدھے پہ،وغیرہ وغیرہ،غرض اوپر کیے جانے والے اعتراضات کو بھی میں ایسی ہی نیشنل کنفیوزن کہتا ہوں،خدارا کسی کو کچھ کرنے بھی دیں اور خود بھی کوی کام کریں فیس بک پہ۔بلاگز پہ اعتراضات اور فلسفے بگھار کے قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں،کچھ کریں مشورے مت دیں
یہ کیا ہے؟
یہ کسی اسلامی جماعت کی سرگرمیاں ہیں؟
یا جس معاشرے کی برائیاں آپ نے لکھی ہیں اور لگے ہاتھوں روشن خیالوں کو بھی رگڑا دیا!!
یہ آخری فوٹو تضاد کا ثبوت ہے۔
کم از کم جماعت اسلامی سے اس کی امید نہیں تھی!!
تو میرا جیسا بیہودہ بندہ تبصرہ کردے کہ
واہ مولویوں نے بہت اعلی پیس سے چمٹ کر فوٹو اتروائی۔
مولویاں دیاں موجاں!!
عرض کردوں کہ گندے ذہن میں یہ سوال بہت کم پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو بچی ہے۔
اعتراض کرنے والے اپنے اعتراض کرتے رہیں۔جماعت اسلامی کو چاہیئے کہ اپنی مثبت سرگرمیاں جاری رکھے۔جماعت نے زبردستی پردہ کروانے کی پالیسی کبھی نہیں آپنائی اور دوسرا إس فیسٹیول میں داخلہ اوپن تھا۔اعتراضات کرنے والے بھی اپنی خواتین کو ساتھ کر گھس گئے ہوں گے اور ﴿قابلٕ اعتراض﴾مناظر کا باعث بن گئے ہوں گے۔